پاکستان کو تیزاب سے غسل دینے کی ضرورت ہے۔

’’تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں۔‘‘ 4 جنوری 1965 کو فیلڈ مارشل کے سپوت گوہر ایوب خان نے فاطمہ جناح کے حامی اہل کراچی کے لہو سے ہولی کھیلی تو ’’بے آسرا یتیم لہو‘‘ کی پکار سن کر ہمارے شاعر کے ہاتھوں میں امید کا چراغ بجھ گیا۔’’نہ مدعی نہ شہادت اور اسطرح حساب کتاب پاک ہوا‘‘۔ ہماری تاریخ ایسے ان گنت خونچکاں واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں انسانیت کی عزّت، آبرو، بڑائی، عظمت اور پا کیزگی کی شفافیت اور نرم و نازک دیوی ان گنت زاویوں سے روندی جاتی ہے۔ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے مگر ہم تاریخ سے کچھ سیکھنا ہی نہیں چاہتے اور جو قومیں تاریخ سے کچھ نہیں سیکھاکرتیں وہ اپنی موت آپ مر جایا کرتی ہیں۔ہر طرف افرا تفری، قتل و غارت گری کا عالم ہوتا ہیاور قانون کو پاؤن تلے کچلا جاتا ہے کہ قانون کو اپنی مرضی سے جیسے چاہا موڑ لیا۔ ہمارے ملک میں برسہا برس سے قانون کو گھر کی لونڈی بنا کر اس سے کھیلا جا رہا ہے اور ریاست کے قوانین کو پامال کیا جا جا رہا ہے۔ عام طور پر قانون توڑنے والے اور اسے اپنے پاوں تلے کچلنے والے طاقتور امراء اور شرفاء پائے گئے جنہوں نے غربا، کمزوروں اور ناداروں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے مگر قانون کو قانون کی کتابوں سے مٹایا نہیں جا سکتا۔قانون کی بولی لگا کر کسی کی بھی جان لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ قانون موم کی ناک ہے اور اسے جیسے چاہا ویسے موڑ لیا جاتا ہے۔ قانوں غریب اور کمزور کیلئے اپنی پوری جبروطی طاقت سے حرکت میں آتا ہے جبکہ طاقتور اور دولتمند اسکی جبروتیت سے بچ نکلتے ہیں۔ ملک میں غریب آدمی کسی ناکردہ جرم میں پھنس جائے تو اس کو جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔لیکن کھلے عام جرم کرنے والے بااثر افراد پکڑے جانے پر بھی عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں۔

ہر زی شعور اور حس رکھنے والا شخص سپریم کورٹ اس فیصلے پر نا خوش ہے جس میں سپریم کورٹ نے 10 برس قبل کراچی میں شاہ زیب خان نامی نوجوان کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے انھیں مقدمے سے بری کر دیا ہے۔
شاہ زیب خان کے قتل کا واقعہ خونچکاں واقعات کی ایک کڑی ہے جس میں 24 دسمبر 2012 کی شب کراچی میں ڈیفینس کے علاقے میں شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے معمولی سی تلخ کلامی پر اپنی دولت کے بل بوتے اور قانون کے اندھا، گونگا،لولا اور لنگڑے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک خوبصورت نو جوان کو اپنی انا اور دولت کی بھینٹ چڑھا کر بلا ئیسنس کے ھتھیار سے اندھا دھند فائرنگ کی اور ایک بے گناہ جس کا نام شاہ زیب تھا کو قتل کر دیا۔ شاہ زیب خان کیگھر والے اس خونچکاں واقعے پر گلے مل مل کر روتے رہے اور اپنے بیٹے کی لاش کو صف ماتم میں لپیٹ کر سینکڑوں آہوں اور سسکیوں سے لبریز قبر میں اتار دیا گیا۔

یہ اس بات کا اعادہ کیا کہ دولت کے مقابلے میں قانون ایک لونڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس زمین سے قانون اٹھ جائے اس زمیں پر پھولوں کی بجائے کانٹے اگا کرتے ہیں۔ دولت کے بل بوتے پر قانون کو مات دی جا سکتی ہے مگر اسے ختم نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ہر وقت ہر مجرم کیلئے لاگو رہتا ہے یہ اور بات ہیکہ اسکا اطلاق ملزم کی حیثیت دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ شاہ رخ جتوئی ہی نہیں ماضی میں بھی کئی ملزموں کی اسپتالوں میں عیاشی کی داستانیں سامنے آچکی ہیں۔۔2015 میں شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی،نواب سراج تالپور،سجاد تالپور اور ایک ملازم مرتضٰی لاشاری جیل میں قید تھے۔ محکمہ داخلہ سندھ کے احکامات پر شاہ رخ جتوئی کو جناح اسپتال کے وی آئی پی وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ 11 ماہ تک شاہ رخ جتوئی اسپتال میں پرتعیش زندگی گزارتے رہے۔ اعلی عدلیہ کے احکامات پر انہیں واپس جیل بھیجوایا گیا۔۔ لیکن دیگر مجرموں کو جناح اسپتال کے عارضہ قلب کے وارڈ منتقل کردیا گیا۔ علاج معالجے کی غرض سے مجرم 6 ماہ تک اسپتال میں رہے اور طاقت اور دولت پر عیاشی کرتے رہے۔

حالات و واقعات کے مطابق شاہ زیب خان قتل کیس کچھ یوں ہے کہ بڑی بہن کے ولیمے سے واپسی پر فلیٹ کے نیچے شاہ زیب خان کی بہن سے مرتضیٰ لاشاری نے چھیڑ چھاڑ کی جس پر فریقین میں آپس میں تلخ کلامی ہوئی جس کے نتیجے میں فائرنگ ہوئی اور شاہ زیب خان مارا گئا۔ اس مقدمے میں شاہ رخ جتوئی، اس کے دوست نواب سراج تالپور، سجاد تالپور اور اس کے ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری کو نامزد کیا گیا۔

ملزمان کو انکے والدین نے پولیس اور عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بیرونی ملک فرار ہونے میں مدد کی اسطرح وہ مجرم طاقتور ھونے کے ناطے مفرور ہو گئے اورانکی گرفتاری عمل میں نہ آسکی جس پر کراچی کیسوشل میڈیا پر ’جسٹس فار شاہ زیب خان‘ کے نام سے ملک کے حساس اور انسانیت کا درد رکھنے والوں نے مہم چلائی جس کے نتیجے میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس کا از خود نوٹس لیا اور مفرور شاہ رخ جتوئی کو دبئی، نواب سراج تالپور کو نوشہرو فیروز اور دوسرے ملزمان کو سندھ کے دیگر علاقوں سے گرفتار کر لیا گیا۔

جون 2013 میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت دو ملزمان کو سزائے موت جبکہ دو کو عمر قید کی سزا کاحکم سنایا۔بعدازاں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کر کے ماتحت عدالت کو مقدمے کی دوبارہ سماعت کی ہدایت کیلئے بھیج دیا۔

سپریم کورٹ نے قتل ہونے والے شاہ زیب قتل کے مقدمے میں از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اس مقدمے میں ملوث چاروں مجرمان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

پولیس حکام کے مطابق شاہ زیب خان کے والدین نے قصاص اور دیت کے قانون کے تحت ملزم شاہ رخ جتوئی کو معاف کردیا جس پر ورثا کی جانب سے بااثر مجرموں کو معاف کرنے پر سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھی خاصی تنقید کی جاتی رہی۔ ٹوئٹر پر بھی پاکستان میں شاہ رخ جتوئی کے نام کا ہیش ٹیگ کا سب سے زیادہ ٹرینڈ رہا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بھی اس مقدمے کی سماعت کے دوران مقتول شاہ زیب خان کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب خان اور والدہ عنبرین اورنگزیب نے عدالت میں ایک حلف نامہ پیش کیا تھا جس میں انھوں نے ملزمان کو معاف کرنے کی آگاہی دی تھی۔

اس وقت مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے کی وجہ سے ملزمان کو معافی نہیں مل سکی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے خاتمے کے بعد یہ جرم قابل معافی بن گیا تھا۔

سنہ 2017 میں شاہ زیب خان کے والدین نے قصاص اور دیت کے قانون کے تحت صلح نامے کے بعد ملزم شاہ رخ جتوئی کو معاف کر دیا تھا جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔ تاہم فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے بعد اس مقدمے میں ملوث چاروں مجرمان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد انھیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا تھا۔

یہ با ت زہن میں رہے کہ پاکستان کے قانون میں قتل کی سزا موت یا عمر قید ہے لیکن اس میں اگر مدعی چاہے تو ملزمان کو معاف بھی کر سکتا ہے۔ مگر انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہونے مقدمات میں صلح کا راستہ موجود نہیں ہے کیونکہ ان دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں ریاست مدعی ہوتی ہے۔

دیت اس مال کو کہتے ہیں جو جنایت کرنے والا مظلوم کو یا اس کے وارث کو جنایت کے سبب ادا کرتا ہے (عام زبان میں اسے خون کا صلہ یا قیمت کہا جا سکتا ہے) قدیم معاشروں میں جب خون کا بدلہ ممکن نہیں ہوتا تھا تو قاتل سے مقتول کے ورثا کو تاوان کی شکل میں کچھ مال نقد یا مال جنس دلا دیا جاتا تھا۔ البتہ بنی اسرائیل (یہود) میں خون بہا کا دستور نہیں تھا، لیکن جیسے اور بہت سے معاملات میں اسلام، یہودیت کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے اس لئے ظاہری اعتبار سے دیت یا قصاص کی روایت اسلام نے جائز قرار دی ہے۔

پاکستان میں دیت کے قانون کے مطابق قتل جیسے سنگین جرم میں بھی مقتول کے خاندان کے پاس ملزمان کو معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔ انھیں صرف عدالت میں اتنا کہنا ہوتا ہے کہ ’ہم انھیں خدا کے لیے معاف کرتے ہیں۔‘

ہمارے یہاں مسالک کو فروغ دینے کی روایت ہے جسکا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے، ملک میں مرنے والے بھی مسلمان تھے، مارنے والے بھی مسلمان۔ اسی بنیاد پر ہم نے دیت کا بھی بیانیہ تشکیل دیا ہے، جس میں دیت اشرافیہ اور دیت غرباء شامل ہیں۔ دیت اشرافیہ یہ ہے کہ آپ اپنی طاقت، دولت اور رعب کے نشے میں کسی کو بھی قتل کر سکتے ہیں اور بعد میں اسے ادا کر کے کر آرام سے اپنی سزا میں تبدیلی کروا سکتے ہیں، ایسی صورت میں ریاست بھی مظلوم کی جگہ ظالم کی حمایت کرتی نظر آئے گی۔شاہ زیب قتل کیس میں نشہ میں دھت شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور نے دیت کے اس قانون کو اپنے حق میں استعمال کیا، جب شاہ زیب اور اسکے اہل خانہ کو آسٹریلیا کی شہریت اور مال و متاع دیکر معافی نامہ پر راضی کیا گیا۔ شاہ زیب کے والد نے ٹی وی پر آکر کہا کہ جانے والا چلا گیا میرے میں اتنی ہمت نہیں کے ان طاقتور لوگوں کا مقابلہ کر سکوں لہذا بطور مدعی میں راضی نامہ دیتا ہوں۔ وہ تو ثاقب نثار صاحب نے اس کیس کا ازخود نوٹس لے لیا تو شاہ رخ اور سراج تالپور آزاد نا ہو سکے۔

ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ دیگر قوانین کے طرح قصاص اور دیت کے قوانین کو بھی اس ملک کا طاقتور اور دولت مند طبقہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ قتل کے کیسز میں اگر مجرم دولت مند اور با اثر خاندان سے ہو اور مقتول کا تعلق کسی غریب اور کمزور خاندان سے ہو تو مقتول کے لواحقین پر دباو? ڈالا جاتا ہے کہ دیت کے بدلے قاتل کو معاف کر دیں۔ اس کی ایک مثال شاہ زیب قتل کیس کی ہے۔ شاہ رخ جتوئی کی بریت کے معاملے میں سوشل میڈیا پر عمومی رائے اس فیصلے کے خلاف دیکھنے میں آ رہی ہے اور زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے سے مایوس ہوئے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر نے ٹویٹ کی کہ 'شاہ رخ جتوئی بھی رہا۔ کوئی امیر اور طاقتور بچا تو نہیں جیل میں؟'

پاکستان کو تیزاب سے غسل دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اسمیں بسا ہوا سالوں کا گند دور کیا جا سکے اور اسے پاک کیا جائے۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139638 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.