ہمارے نام سے فلم ہٹ ہوجاتی تھی لیکن٬ سپر اسٹار مصطفیٰ قریشی آج کی مولا جٹ اور ماضی کی مولا جٹ میں کیا فرق بتاتے ہیں؟

image
 
سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے نام سے ہی فلم ہٹ ہوجاتی تھی لیکن حمزہ عباسی اور فواد خان ۔۔۔ فلم مولا جٹ کے حوالے سے سپراسٹار مصطفیٰ قریشی کی خصوصی گفتگو
 
پاکستان فلم انڈسٹری نے بے شمار سپر اسٹار پیدا کئے ہیں، سلطان راہی، محمد علی، وحید مراد اور مصطفیٰ قریشی یہ کچھ ایسے نام ہیں جن کے کردار آج بھی فلم بینوں کے ذہنوں پر نقش ہیں۔ ایسے ہی دو کردار پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔ جو تھے مولا جٹ اور نوری نت۔ پاکستان فلم انڈسٹری نے ایک بار پھر مولا جٹ فلم بنائی ہے۔ ماضی کی مولا جٹ کے لازوال کردار مصطفیٰ قریشی ہمارے ساتھ موجود ہیں اور ان سے ہم ماضی اور حال کی مولا جٹ کے حوالے سے بات چیت کریں گے اور پاکستان فلم انڈسٹری کے حالات کے حوالے سے بھی ان کچھ بات چیت کریں گے۔
 
سوال: آج کی مولا جٹ اور ماضی کی مولا جٹ میں فرق کیا ہے؟
مصطفیٰ قریشی: ہماری مولا جٹ کو تقریباً 42، 43 سال ہوچکے ہیں۔ میں نے اس سے پہلے بھی ایک فقرہ کہا تھا جب اس کا ٹریلر ریلیز ہوا تھا، ہماری فلم غریبانہ تھی لیکن لوگوں نے اس کو امیرانہ کردیا تھا، ہماری مولا جٹ تقریباً ساڑھے چار سال چلی، ماضی کی مولا بجٹ کا مجموعی بجٹ تقریباً 30 سے 32 لاکھ تھا، یہ مولا بجٹ امیرانہ انداز میں بنی ہے۔
 
 
سنا ہے اس پر 50 سے 60 کروڑروپے لگے ہیں، اس فلم میں بہترین ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا، ساؤنڈ بہت اچھا ہے، دی لیجنڈ آف مولا جٹ میں گرافکس کا اچھا استعمال ہوا، ہالی ووڈ کی ٹیم نے زبردست ایکشن کروایا ہے، ہدایت کار بلال لاشاری نے بہت محنت کی ہے، بلال لاشاری نے جو ماحول بنایا اداکاروں نے اس کے مطابق پرفارم کیا ہے، حمزہ علی عباسی اور فواد خان نے بہت اچھا کام کیا، میرے خیال میں یہ فلم انگزیزی یا اردو میں بننی چاہیے تھی، اس فلم میں پنجابی کا ماحول نظر نہیں آیا، ہماری مولا بجٹ میں پورا پنجابی ماحول تھا، لاچے کرتے تھے، ہم نے 2، 3 سو کا گنڈاسا بنوایا، نئی مولا بجٹ میں لاکھوں روپے کا گنڈاسا استعمال ہوا۔
 
سوال: بھارتی پنجاب فلمیں بہت اچھا کام کررہی ہیں، ہمارے فنکار بھی وہاں جاکر کام کررہے ہیں، پاکستان میں ایسی فلمیں کیوں نہیں بنتیں؟
مصطفیٰ قریشی: فلم پر پیسہ لگانے والا ہر انویسٹر یہ چاہتا ہے کہ اس کو منافع ملے، اگر فلم کی مارکیٹنگ نہیں ہوگی تو فلم کیسے چلے گی، سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کا نام دیکھ کر ہی فلم ہٹ ہوجاتی تھی، فلم کی مارکیٹنگ کامیابی اور ناکامی کیلئے بہت اہم ہوتی ہے۔
 
سوال: پاکستان میں موسیقی کے زوال کی اصل وجہ کیا تھی؟
مصطفیٰ قریشی:چند مخصوص لوگوں نے پاکستان فلم انڈسٹری کو نقصان پہنچایا،نازیبا گانوں اور فلموں نے باصلاحیت فنکاروں کا استحصال کیا،یہاں حکومت بھی غیر معیاری فلموں کیلئے ذمہ دار ہے ،غیر معیاری فلموں کو پاس کردیا جاتا ہے،سینما میں سنسر بورڈ کی طرف سے کاٹے گئے سین کے ٹوٹے لگالئے جاتے تھے،حکومت ذمہ داران پیسے لے کر نازیبا چیزوں کی اجازت دے دیتے تھے۔
 
image
 
سوال:مولا جٹ نے ماضی کی یادیں تازہ کردی ہیں، اپنے آفاق ڈائیلاگ کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
مصطفیٰ قریشی:میں نے اپنے ڈائیلاگ کا جو انداز رکھا تھا وہ ہماری فلم کے مطابق تھا،نئی فلم میں اپنے ماحول کے مطابق پرفارم کیا گیا ہے، جیسے میرا ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا اس میں کچھ خاص نہیں تھا، لوگوں نے میرا ڈائیلاگ کو بہت پسند کیا، لوگ آج بھی میرے اس ڈائیلاگ کو یاد کرتے ہیں، لوگ کہتے ہیں میرا انداز اور لہجہ ان کے دل کو بھا گیا، ہماری فلم بنی تھی ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں، مارشل لاء میں زبان بندیاں تھیں، صحافیوں کو کوڑے مارے جاتے تھے، ادیبوں اور شاعروں کو لکھنے کی اجازت نہیں تھی، لوگ اندر ہی اندر گھٹ رہے تھے، ایسے ماحول اور دور میں میں جیل میں ہوں، ایک جیلر کو میں کہتا ہوں کہ " نواں آیاں این سوہنیا" تو لوگوں کے دل کی بھڑاس نکلتی ہے، لوگوں نے ایسی تالیاں بجائیں جو آج بھی گونج رہی ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: