ذہنی غلامی اور فخر پنجاب

مال روڈ سے گذرتے ہوئے نہر کے پل پر حمزہ شہباز کی تصویرکے اوپر لکھے ہوئے الفاظ فخر پنجاب پر نظر پڑی تو بے اختیار انقلابی لیڈرچی گویرا کے الفاظ ذہن میں گھومنا شروع ہوگئے کہ آئین صرف آزاد اور با اختیار قوموں کیلئے ہوتا ہے غلاموں کے لئے بندوق، فوج اور مذہب ہوتا ہے ۔ہم سبھی پاکستان میں اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں سفارش اور رشوت کلچر عام ہے جہاں جیل میں جانا اعزاز کی بات اور پکڑے جانا فخر کی بات سمجھا جاتا ہے حمزہ شہباز شریف کے والد اس وقت وزیر اعظم ہیں اور حمزہ شہباز شریف خود کچھ عرصہ وزیراعلی بھی رہ چکے ہیں ہمیں آزاد ہوئے75سال ہوگئے جسکی یاد میں 75روپے کا نوٹ بھی جاری کردیا ہے مگر فخر پنجاب والی بات سمجھ نہیں آئی کہ جس پر منی لانڈرنگ اور کرپشن کے کیسسز چل رہے ہوں آئے روز عدالتوں میں تاریخیں بھگت رہا ہو فرد جرم عائد ہونے والی ہو، اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کا الزام ہو اور تو اور احد ملک کی بیٹی کے ساتھ ہونے والا معاملہ ہو ان سب باتوں کے باوجود وہ ہمارا فخر ہو تو پھر ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ ہم ذہنی طور پر غلام ہیں اور اسی غلامی کو ہم اپنی آنے والی نسل میں منتقل کررہے ہیں انہیں بھی ذہنی معذور بنا رہے ہیں خدا را کچھ سوچیں اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے آج سفارشی کلچر سے ہم اپنا کام کروا لیں گے مگر آنے والے دور میں کوئی ہمارے بچوں کا حق چھین سکتا ہے ہمارے ہاں لوگوں کے پاس زندگی گذارنے کی کوئی سہولت نہیں بیمار ہوجائیں تو سرکاری ہسپتالوں میں علاج نہیں ہوتا عدالتوں میں چلے جائیں تو کیس کا فیصلہ جلد نہیں ہوتا تھانوں میں چلے جائیں تو مدعی ملزم بنا پھرتا ہے بے روزگاری اور غربت ایسی ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی بجلی کے بلوں نے غربت کا جنازہ نکال دیا ہے عوام کا برا حشر ہورہا ہے اور اقتدار میں بیٹھے ہوئے افراد عوام کو مزید رگڑا لگانے میں مصروف ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ عوام کے ووٹوں سے نہیں آتے اسی لیے تو انکو کسی کے دکھ اور درد کا احساس ہی نہیں ہوتا جو لوگ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں وہ عوام کے لیے کام کرتے ہیں کاغذی شیر اور فخرنہیں ہوتے ہمارے پاس تو ایسی کوئی مثال ہی نہیں جو دی جاسکے چلو پھر ہمسایہ ملک بھارت کے اروند کیجریوال سے ہی کچھ سیکھ لیں بھارتی صوبے ہریانہ میں 16 اگست 1968ء کو پیدا ہونے والے 54 سالہ اروند کیجریوال پہلے بیوروکریٹ بنے پھر نظام بدلنے کی خواہش میں سیاست میں آگئے انہوں نے عام آدمی پارٹی بنائی دہلی سے سیاست شروع کی اوربہت تیزی سے آگے بڑھے دسمبر 2013ء میں وزیر اعلیٰ بن گئے مگر پھر 49 دنوں کے بعد استعفیٰ دے دیا کیونکہ وہ اسمبلی سے کرپشن کے خلاف بل منظور نہیں کروا سکے تھے انہوں نے اگلا الیکشن لڑا تو دہلی کے لوگوں نے اکثریت دی وہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے پھر انہوں نے وعدوں پر عملدرآمد شروع کیا دلی میں لوڈشیڈنگ تھی، بجلی مہنگی تھی، سرکاری اسکولوں اور ہسپتالوں کی حالت بری تھی، سڑکوں کی حالت بھی بہت خراب تھی دلی میں صرف پچاس فیصد پانی کی سپلائی کیلئے پائپ لائن تھی کیجریوال نے محنت کی اب دلی میں لوڈشیڈنگ نہیں ہے بجلی فری ہے سرکاری اسکولوں میں تعلیم فری ہے دلی کے ہسپتالوں میں علاج مفت ہوتا ہے کیجریوال نے دلی میں محلہ کلینک متعارف کروایا پورے بھارت میں دلی واحد ریاست ہے جہاں مالیاتی خسارہ نہیں سات سال میں دلی حکومت کا بجٹ 30 ہزار کروڑ سے بڑھ کر 75 ہزار کروڑ ہوگیا ہے اس دوران دلی کے جی ڈی پی میں 150 فیصد اضافہ ہوا ہے اروندکیجریوال اب تیسری مرتبہ دلی کے وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں آج دلی کے دو کروڑ شہریوں کوبنیادی سہولیات مفت حاصل ہیں دلی کی سڑکیں شاندار ہیں انہوں نے دلی کی عورتوں کے لئے مفت ٹرانسپورٹ مہیا کر رکھی ہے کیجریوال جدید ٹیکنالوجی کے قائل ہیں انہوں نے مختلف ایپس بنا رکھی ہیں آپ ہر وقت ایپ کے ذریعے اسکول میں گئے ہوئے بچے کو گھر سے چیک کر سکتے ہیں دلی میں لوگوں کی حفاظت کے لئے اتنے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دیئے گئے ہیں کہ دلی، نیویارک، لندن اورشنگھائی سے اس معاملے میں آگے نکل گیا ہے اروند کیجریوال دلی کے شہریوں کو کرپشن سے بھی بچا رہے ہیں انہوں نے دلی میں یہ طریقہ شروع کر رکھا ہے کہ دلی کا کوئی بھی شہری جس نے پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ڈومیسائل یا پھر کوئی لائسنس بنوانا ہو وہ ایپ یا بذریعہ فون بتائے گا کہ میں فلاں وقت گھر پر ہوں گا اور مجھے ڈومیسائل یا لائسنس بنوانا ہے شہری نے بتادیا اب شہری کا کام ختم اور کیجریوال سرکار کا کام شروع دلی کے شہری کے بتائے گئے مقام پر ایک ٹیم آئے گی ان کے پاس فوٹو کاپی مشین بھی ہوگی یہ ٹیم اپنی کارروائی کرکے چلی جائے گی اس کارروائی کے بعد سات دن کے اندر حکومت پابند ہوگی کہ وہ شہری کا ڈومیسائل یا لائسنس اس کے گھر پر مہیا کرے اس طرح شہری کو نہ کہیں جانا پڑا نہ دفتروں میں دھکے کھانے پڑے اور نہ ہی کسی کو رشوت دینا پڑی اسے جس چیز کی ضرورت تھی وہ اسے گھر پر مہیا کر دی گئی اس وقت دلی کی اسمبلی میں 62 نشستیں اروندکیجریوال کی عام آدمی پارٹی کی ہیں جبکہ مودی کی بی جے پی کے پاس صرف آٹھ نشستیں ہیں دہلی ماڈل دیکھ کر بھارت کی دوسری ریاستوں کے لوگ اپنی اپنی حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ بجلی، اسکول، صحت، ٹرانسپورٹ؟ جواب آتا ہے کہ کیسے کریں؟ لوگ جواباً کہتے ہیں جیسے کیجریوال نے دلی کے لوگوں کو سب مہیا کیا ہے کیجریوال پر بہت دباؤ تھا کہ وہ اپنی پارٹی کو دلی سے باہر نکال کر دوسری ریاستوں میں بھی لائیں کیونکہ کیجریوال کہتا ہے کہ’’میں ہر شہری کا وزیر اعلیٰ ہوں خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو، خواہ وہ کسی بھی ذات کا ہو‘‘سیاسی دباؤ پر کیجریوال نے پنجاب میں رسک لیا پنجاب ہے کیا؟ 1947ء میں تقسیم سے پہلے پانچ دریاؤں کی دھرتی پنجاب کے پانچ ڈویژن تھے لاہور، راولپنڈی اور ملتان ہمارے حصے میں آگئے جبکہ دہلی اور جالندھر بھارت کے حصے میں انہوں نے دہلی کو الگ ریاست بنا یا پنجاب ہی سے نکال کر ہر یانہ کو الگ صوبہ بنایا ہما چل پردیش کو بھی صوبہ بنایا پنجاب کا بہت سا حصہ راجستھان کو دے دیا اب جو باقی بچا وہی ہندوستان کاپنجاب ہے اسی سال 2022ء میں اروند کیجریوال نے اپنی پارٹی کو پنجاب میں الیکشن میں اتارا تو اس کی پارٹی نے بڑے بڑے لیڈروں کو ہرا کر 117 میں سے 92 سیٹیں جیت لیں پنجاب کے لوگوں نے بھی دہلی ماڈل کو پسند کیا کانگرس پھربھی اٹھارہ سیٹیں لے گئی بی جے پی تو صرف ایک دو سیٹوں تک ہی محدود رہی اب جب حلف کی باری آئی تو پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے آزادی کے متوالے بھگت سنگھ کے گاؤں میں حلف لیا ویسے بھگت سنگھ نے کہا تھا کہ’’اگر ہم آزادی کے بعد نظام نہیں بدلیں گے تو کچھ نہیں ہوگا‘‘ کیجریوال کہتا ہے کہ ہمارے دیس میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے انگریزں کا دیا ہوا نظام اپنا رکھا تھا میں نے اسے بدل دیا ہے اروند کجریوال نے پنجاب کے ہر گھر کیلئے 300یونٹ بجلی فری یعنی بلا معاوضہ کررکھی ہے اور ہمارے ہاں 100یونٹ بجلی والا بھی ہزاروں کا بل ہاتھوں میں تھامے فخر پنجاب اور شیر پنجاب کو کوس رہا ہے جن کے بڑے اس وقت ملک پربرسر اقتدار ہیں جو مہنگائی کے خلاف نکلے تھے اور پھر مہنگائی کے چکی میں عوام کو پیسنا شروع کردیا کیا ہم میں حضرت عمر کے نقش قدم پر چلنے والا کوئی نہیں جو غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے نہ کہ کوئی ہمارا فخر بن کر غریبوں کو ہی ختم کرنا شروع کردے ۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 514220 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.