محبت کی علامت


ڈولنڈ ٹرمپ کاعہدِ صدارت بھارت کیلئے کسی نعمت غیر ِ متبرکہ سے کم نہیں تھا۔اس زمانے میں نریندر مودی اورٹرمپ کی دوستی کی بڑی دھوم تھی ۔ کبھی ایسی ہی لازوال دوستی جنرل پرویز مشرف اور جارج بش کے درمیان ہوا کرتی تھی۔افغانستان میں امریکی فوجوں کی سہولت کاری کیلئے پاکستان کو شیشے میں اتارنا ضروری تھا لہذا امریکی صدر نے جنرل پرویز مشرف کو خوب تھپکی دی اور اسے ایک طویل اقتدار کے خواب دکھائے جس کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف بالکل ڈھیر ہو گیااور وہی کچھ کرنے لگا جو امریکہ بہادر چاہتا تھا۔اقتدار جنرل پرویز مشرف کی کمزوری تھا اور امریکہ نے اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا یا ۔لیکن جب وقت نے انگڑا ئی لی تو اس کے پیروں سے قالین چھین لیا۔ نریندر مودی نے ٹرمپ کی صدارتی مہم میں کھل کر اس کی مالی امداد کی اور اسے جیت کا بھر پور یقین دلایا لیکن یہ الگ بات کہ ڈولنڈ ٹرمپ اپنے متعصب بیانیہ کی وجہ سے کمزور ترین حریف ثابت ہوا اور جو بائیڈن سے انتخاب ہا رگیا۔ بہر حال ڈولنڈ ٹرمپ کی اشیر واد اور یورپ کی پشت پناہی کی بدولت نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارت میں ضم کر لیا اور پاکستان منہ دیکھتا رہ گیا۔ انتشار اور معاشی بدحالی کا مارا ہوا پاکستان سوائے چندبیا نات داغنے کے کچھ بھی کر نہ سکا کیونکہ کوئی ملک بھارت کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔امریکہ اور یورپ بھارتی سحر انگیزیو ں کے اسیر بنے ہوئے ہیں اور چین کو روکنے کی کاوشوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ان کی پہلی ترجیح اب کشمیر نہیں بلکہ چین ہے اور اس کیلئے انھوں نے بھارت کو فرنٹ سٹیٹ کا درجہ دے رکھا ہے۔بھارت نے امریکہ اور یورپ کو شیشے میں تارا ہوا ہے کیونکہ پچھلے تین سالوں سے کشمیر میں کرفیو لگا ہوا ہے اور کشمیر کی اعلی ترین قیادت کو جیلوں میں بند کیا ہوا ہے۔ملک یاسین جیسے سیاسی راہنما پر دھشت گردی کا مقدمہ چلا کر اسے سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور جیل میں اس کے ساتھ جس طرح کا بیہمانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس پر انسانی دل خون کے آنسو ر وتا ہے لیکن یورپ اور امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کے انسانیت کش خیالات پر اس سے کوئی باز پرس نہیں کرتے ۔امریکہ اور یورپ اگر بھارت پر دباؤ ڈالیں تو پھر اس خطہ میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہو سکتی ہے اور کشمیر کے دیرینہ مسئلے کا کوئی نہ کوئی منصفانہ حل نکل سکتا ہے لیکن یہو د ونصاری اور ہندوتوا کے متوالوں کے درمیان پاکستان کے عدمِ استحکام کا جو خفیہ معاہدہ ہے وہ انھیں اس جانب بڑھنے نہیں دیتا۔ایک ایٹمی ملک سب کی نگاہوں میں کھٹکتا ہے اور وہ اس کے ہر حال میں حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں۔ ،۔

بھارت دنیا کا ڈارلنگ بنا ہوا ہے کیونکہ اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔۱۴۰ کروڑ انسانوں کی مارکیٹ پورے یورپ اور امریکہ کو پاگل کئے ہوئے ہے لہذا وہ بھارتی مارکیٹ کی خاطر بھارت سے بگاڑ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔بھارت یورپی اقوام کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے لہذا وہ پاکستان کی خاطر بھارت سے بگاڑ کیوں پیدا کریں؟ اقوامِ مغرب اور امریکہ کی پہلی ترجیح بھارت سے تجارتی حجم بڑھانا ہے لہذا وہ کشمیر اور سندھ طاس کے معاملہ میں پاکستان کا ساتھ نہیں دے سکتے جس کا فائدہ بھارت اٹھا تا ہے ۔ بھارت ڈیم پر ڈیم بنائے جا رہا ہے اور ہم محض احتجاج کے سہارے زندہ ہیں ۔ چین کی تجارتی یلغار کر روکنے کیلئے بھی امریکہ اور یورپی اقوام بھارت کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنا چاہتی ہیں۔سی پیک کا پھیلاؤ امریکہ اور یورپ کی تجارتی سپر میسی کے خلاف بلیک وارنٹ ہے لہذا اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات ہو رہے ہیں جس میں بھارت کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ سی پیک اب محدود ہو تا جا رہا ہے ۔ہمارا ازلی دشمن عالمی پشت پناہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی دریاؤں میں اپنی مرضی سے پانی چھوڑ دیتا ہے جس سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حالیہ بارشوں اور بھارتی سازش نے حالات کو اور بھی قیامت خیز بنا دیاہے۔ایک طرف بارش کی تباہ کاریاں اور دوسری طرف دریائی پانی کے زور دار ریلوں نے پاکستا ن میں ایسی تباہی مچائی ہے جس کی ما ضی میں کوئی مثا ل نہیں ملتی۔مال ومتاع ،معصوم انسانوں کی جانوں کا ضیاع ،فصلوں کی تباہی ، گھروں کی مسماری سب کے سامنے ہے اور اس کے پیچھے بھارتی سازش چھپی ہوئی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی قیادت نے ڈیم بنانے سے غفلت برتی جس کا نتیجہ تباہی و بربادی ہو نا تھا لیکن اگر بھارت دریاؤں سے پانی نہ چھوڑتا تو تباہی کا لیول بہت کم ہو جاتا لیکن بھارت سے اچھائی کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔وہ تو سدا اس طرح کے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے جس سے پاکستان کی سلامتی پر حرف آئے ۔اس کا دیرینہ خواب اکھنڈ بھارت ہے لہذا وہ اسی پر کاربند ہے۔،۔

پچھلے کئی مہینوں سے پاکستان کے اندر دھشت گردی کی کاروائیوں میں شدت آ چکی ہے جس کا کھرا بھارت سے جا کر ملتا ہے۔دھشت گردی کا نشانہ بلوچستان اور کے پی کے کا علاقہ بنا ہوا ہے کیونکہ افغانستان سے کاروائیوں کیلئے یہی موزوں مقام ہے ۔طالبان امارتِ اسلامی کا دائرہ اختیار پاکستان تک پھیلا نا چاہتے ہیں اسی لئے وہ پاکستانی علاقے پر اپنا حق جتاتے ہیں ۔ماضی میں افغانستان کے کئی حکمرانوں نے برِ صغیر پر حکومت کی ہے لہذا طالبان کے دماغ میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ پاکستان پر اپنا تسلط قائم کرنا ان کا تاریخی حق ہے۔ویسے بھی پاکستان میں سیاسی انتشار اور خلفشار نے افغانیوں کے حوصلے مزید بڑھا دئے ہیں لہذا سوات، دیر، مالا کنڈ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ان کی سر گرمیوں بڑھ گئی ہیں ۔ایک عرصہ سے بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں جن میں ایک دفعہ پھر تیزی آ رہی ہے۔بھارت ملک میں افرا تفری اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کی سالیمت پر جس طرح وار کر رہا ہے اس کے پیشِ نظر ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت کو قائم کرنے اور دشمن سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں جس طرح علیحدگی پسند تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں ان سے چوکنا رہنے کی ضرو رت ہے۔افواجِ پاکستان آزمائش کی اس گھڑی میں جس جانفشانی اور عزم و ہمت سے عوام کو ریلیف دے رہی ہیں وہ قابلِ ستائش ہے۔دھشت گردی کے خلاف ان کی قربانیوں کی دنیا معترف ہے۔انھوں نے اپنے لہو سے پاکستان کی سالمیت کے جو چراغ جلائے ہیں ہمیں ہر حال میں ان کی حفاظت کرنی ہے۔پاکستان کی یکجہتی اور اس کے اتحاد کیلئے عوامی نگاہ میں پاک فوج کی توقیر ضروری ہے اور وہ اسی وقت ممکن ہے جب عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان کی کاوشوں کو سراہیں ۔فوج ایک ایسا منظم ادراہ ہے جس پر عوام کی نگاھیں جمی ہوئی ہیں کیونکہ وہ انتہائی خلوص سے عوامی حفاظت کو اپنا شعار بھی بناتی ہے اور عوام کے کے زخموں پر مرحم بھی رکھتی ہے ۔جہاں سب بے بس ہو جاتے ہیں وہاں فوجی جوان اپنی جرات و جوانمردی سے ناممکنات کو ممکنات بنا دیتے ہیں۔فوج پر بے جا تنقید ملکی سالمیت پر وار کرنے کے مترادف ہے اور ہمیں ایسی ہر کاوش کی مذمت کرنی ہے۔سیلاب میں پھنسے ہوئے لوگ جب فوجی وردی کو دیکھتے ہیں تو ان کی نگاہوں میں ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے یہی چمک پاک فوج سے محبت کی علامت ہے اور ہمیں محبت کی اس اس علامت کو ہمیشہ زندہ رکھنا ہے۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 449233 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.