روایتی شکار و روایتی شکاری اور رویتی شکنجے !

#العلمAlilmnعلمُ الکتابسُورَہِ عبس ، اٰیت 1 تا 42اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
عبس وتولٰی 1 ان
جاء ہ الاعمٰی 2
وما یدریک لعله یزکٰی 3
او یذکر فتنفع الذکرٰی 4
اما من استغنٰی 5 فانت له تصدٰی 6
و ما علیک الا یزکٰی 7 واما من جاءک
یسعٰی 8 وھو یخشٰی 9 فانت عنه تلھٰی 10
کلا انھا تذکرة 11 فمن شاء ذکرہ 12 فی صحف
مکرمة 13 مرفوعة مطھرة 14 بایدی سفرة 15 کرام
من بررة 16 قتل الانسان ما اکفرة 17 من ائ شئی خلقه 18
من نطفة فقدره 19 ثم السبیل یسرہ 20 ثم اماته فاقبرہ 21
ثم اذا شاء انشرہ 22 کلا لما یقض ما امره 23 فلینظر الانسان الٰی
طعامه 24 انا صببنا الماء صبا 25 ثم شققنا الارض شقا 26 فانبتنا فیھا
حبا 27 وعنبا و قضبا 28 و زیتونا و نخلا 29 و حدائق غلبا 30 و فاکھة و ابا 31
متاعالکم ولانعامکم 32 فاذا جاءت الصاخة 33 یوم یفرالمرء من اخیه 34 وامه وابیه 35
وصاحبته و بنیه 36 لکل امرئ منھم یومئذ شان یغنیه 37 وجوہ یومئذ مسفرة 38 ضاحکة
مستبشرة 39 ووجوہ یومئذ علیھا غبرة 40 ترھقھا قترة 41 اولٰئک ھم الکفرة الفجرة 42
اے ہمارے رسول ! اگر ایک اندھا اُس انسان کے پاس گیا ہے جس نے ترش رُو ہو کر اُس سے مُنہ موڑ لیا ہے تو آپ کو کس طرح یہ یقین ہو گیا ہے کہ اُس بے پروا کے لئے آپ کی نصیحت ضرور نافع ہو گی اور اَب وہ ضرور سدھر جاۓ گا ، آپ تو ہر ایک پر خاطر خواہ توجہ دیتے ہیں اِس لئے اگر وہ راہِ حق پر نہ بھی آسکا تو اُس کے ذمہ دار آپ نہیں ہوں گے ، وہ خود بھی جلدی جلدی آپ کے پاس آتا ہے اور جب بھی آتا ہے آپ اُس کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ہیں اِس لئے کہ ہماری یہ تنزیل وہ مکرم و پاکیزہ اور ایک عالی مرتبت یاد دھانی ہے جو اُن سارے عالی صحیفوں میں درج ہے جو نیک دل لکھنے والوں کے ہاتھ میں رہتے ہیں اِس لئے جو چاہے اِس سے فائدہ اُٹھاۓ اور جو چاہے اِس سے محروم رہ جاۓ اور وہ مُتکبر انسان تو اِس کی بَھلائی سے محروم ہی رہتا ہے جس کے جسم کا آغاز ہم نے پانی کی ایک بُوند سے اِس طرح کیا کہ پہلے ایک تنگ جگہ پر اُس کی تجسیم کی ، پھر اُس جگہ سے اُس کو نکلنے کی راہ دی ، پھر اُس پر زندگی کی راہ آسان کی ، پھر اُس کو موت دے کر اِس وعدے کے ساتھ قبر میں جگہ دی کہ ہم جب چاہیں گے اُس کو زندہ کر کے باہر لے آئیں گے لیکن پھر بھی اُس نے وہ فرض ادا نہیں کیا جس کا ہم نے اُس کو حُکم دیا حالانکہ اگر وہ اپنے اِس عرصہِ حیات میں غور کرتا تو یقینا جان جاتا کہ ہم نے اُس کے لئے بارشیں برسا کر زمین کو ایسا آب دار بنایا ہے کہ اُس کے کھانے کے لئے اُس میں انگور و زیتون اور سبزہ و گُل کے علاوہ کھجُور اور دُوسرے پھلوں کے باغات بھی اُگتے ہیں اور اُسی زمین میں اُس کے جانوروں کے لئے چارا بھی پیدا ہوتا ہے لیکن ہماری نعمتوں اور اُس کی ناشکریوں کے حساب کی اُس گھڑی نے تو آنا ہے کہ جس کی پہلی آواز ہی اُس کو بہرہ کر دے گی اور اُس کے بعد اُس پر ایسا خوف طاری ہو جاۓ گا کہ بھائی اپنے بھائی کو ، ماں اپنے بچوں کو اور والد اپنی بیوی اور اپنی اولاد کو چھوڑ کر بھاگ جاۓ گا کیونکہ اُس وقت اپنے سوا کسی کو کسی کا ہوش نہیں ہو گا لیکن اُس وقت کی اُس افراتفری میں بھی اُن لوگوں کے چہرے چمک رہے ہوں گے جنہوں نے ہمارے اَحکامِ نازلہ کی تعمیل کی ہو گی اور اُن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے جنہوں نے ہمارے احکامِ نازلہ سے رُو گردانی کی ہو گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اٰیاتِ بالا کا جو مفہومِ بالا متنِ اٰیات کے تحت ہم نے تحریر کیا ہے اُس مفہوم میں تو کوئی بھی وضاحت طلب بات نہیں ہے لیکن اہلِ روایت نے اِس سُورت کی شانِ نزول کے عنوان سے اِس سُورت کے ساتھ یہ شرمناک کہانی ضرور جوڑی ہوئی ہے کہ ایک بار نبی علیہ السلام اہلِ قریش کے چند بڑے اَفراد کو تعلیم دے رہے تھے تو اسی دوران اَچانک ہی ایک نابینا صحابی عبد اللہ بن ام مکتوم بھی وہاں آگۓ اور اُنہوں نے آپ سے کُچھ پُوچھنے کی استدعا کی جس پر آپ نے کبیدہ خاطر ہو کر اُن سے مُنہ موڑ لیا اور دوبارہ اہلِ قریش کے اُن سر داروں کی طرف متوجہ ہو گۓ جو پہلے سے وہاں موجُود تھے اور اِس واقعے پر اللہ تعالٰی نے آپ سے ناراض ہو کر آپ کی سرزنش کے لئے آپ پر یہ سُورت نازل کی ہے ، اہلِ روایت کی اِس کہانی کی بُنیاد امام ترمذی متوفٰی 279 ہجری کی وہ اکلوتی روایتِ حدیث ہے جو اُنہوں نے اپنی کتابِ ترمذی کی کتاب التفسیر کی حدیث نمبر 3331 میں ھشام بن عروہ کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ کے نام سے منسوب کر کے نقل کی ہے اور اُس پر یہ رائے بھی دی ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے ، یعنی اِس کا ظاہر تو بظاہر درست ہے لیکن اِس کا مضمون اُن کے لئے اجنبی ہے اور اِس میں دُوسری خرابی یہ ہے کہ اِس کے سلسلہِ سند میں ایک جگہ پر تو ھشام بن عروہ نے اپنے باپ کے بعد سیدہ عائشہ سے یہ حدیث نقل کی ہے اور دُوسری جگہ پر سیدہ عائشہ کا نام حذف کر دیا ہے جس کی وجہ سے یہ روایت مشکوک ہے لیکن اُن کی اِس وضاحت کے بعد بھی ہر مُفسر نے یہی بے پرکی اُڑائی ہے جو ہم نے نقل کی ہے تاہم ہماری تحقیق و جستجو کے مطابق اِس سُورت کی پہلی 33 اٰیات اُس تمثیل پر مُشتمل ہیں جس تمثیل میں اُس بے پروا انسان کا ذکر کیا گیا ہے جو بار بار کسی مقصد کے تحت ایک انسان کے پاس آتا جاتا تھا لیکن وہ انسان اِس انسان کی لا پروائی کے باعث ہر بار اِس پر توجہ دینے کے بجائے اِس انسان کو دیکھتے ہی اُس سے اپنا مُنہ موڑ لیتا تھا اور پھر اِس نظر انداز ہونے والے انسان کو اللہ کے رسول نے اپنے قریب بلا لیا اور اِس کو ہدایت و نجات کا راستہ دکھانا شروع کیا تو وہ انسان بھی رسولِ خُدا کی اِس شفقت و محبت کو دیکھ کر بار بار آپ کے پاس آنے جانے لگا اور بار بار کے آنے جانے کی وجہ سے رسول علیہ السلام کی بات کو بھی سمجھنے لگا جس پر اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کے اِس حسین عمل کو سراہتے ہوئے بڑی محبت کے ساتھ یہ ارشاد فرمایا کہ آپ کو اِس اَمر کا کس طرح یقین ہوا ہے کہ یہ انسان ضرور سُدھر جاۓ گا اور اگر یہ آپ کے اندازے کے مطابق واقعی سدھر جاۓ گا تو یہ اِس کی نجات کا باعث ہو گا لیکن اگر یہ انسان اور دُوسرے وہ تمام انسان جن کو آپ اتنی ہی توجہ اور اتنی ہی دل سوزی و دل جمعی کے ساتھ توحید کی تعلیم دیتے ہیں اُن میں سے کوئی بھی قبولِ حق کے اِس معیار پر پُورا نہ اُتر سکا جو آپ کو مطلوب ہے تو اِس پر بھی آپ کو دل آزردہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ نے فریضہِ نبوت ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے بلکہ ہمیشہ ہی اپنی جانی و جسمانی طاقت سے بڑھ کر اپنا کام کیا ہے اور پھر اِس تمثیل کو قیامت پر دلیل بناتے ہوئے اِس سُورت کی اٰیت 34 سے لے کر آخرِ کلام تک قیامت کے اُسی مضمون کا اعادہ کیا ہے کہ جو انسان ہماری کتابِ وحی کے اَحکام کے مطابق عمل کرے گا تو وہ یقینا ہماری اُس جنت کا مُستحق ہو گا جو جنت اُس انسان کے عملِ خیر کا ایک قُدرتی نتجہ ہے اور جو شخص ہماری کتابِ وحی کے اَحکام کے مطابق عمل نہیں کرے گا تو وہ بھی ہماری اُس جہنم کا حق دار ہو گا جو جہنم اُس انسان کے عملِ شر کا ایک قُدرتی نتجہ ہے ، اِس سُورت کی اندرونی شہادت جو ہمارے اِس مضمون کی توثیق کرتی ہے وہ اِس سُورت کی پہلی اٰیت { عبس و تولّٰی } ہے جس میں { عبس } بھی فعل غائب کا وہ صیغہ ہے جو ایک فردِ غائب کی نشان دہی کرتا ہے اور { تولّٰی } بھی فعل غائب کا وہ صیغہ ہے جو اُس فردِ غائب کی نشان دہی کرتا ہے جس کا رسول علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اِس مضمون کی دُوسری اندرونی شہادت اِس اٰیت میں آنے والا حرف شرط { ان } بمعنی اگر ہے جو ایک تو اِس مضمون کے اَمرِ واقعہ ہونے کے بجائے اِس کے ایک تمثیل ہونے کی تصدیق کرتا ہے اور پھر فعل غائب { جا } کے ساتھ آنے کے باعث اِس اَمر کی بھی توثیق کرتا ہے کہ یہ واقعہ ایک بار پیش نہیں آیا ہے بلکہ بار بار پیش آیا ہے جس کی ایک مُمکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ شخص کوئی کاھن ہو گا جس کو یہ شخص اُس کی خواہش کے مطابق کُچھ دینے کے قابل نہیں ہو گا جس کی وجہ سے وہ اِس کی بات سُننے کے بجائے بار بار اِس سے رُو گردانی کر لیتا ہو گا اور ہمارے اِس مضمون کے حق میں حتمی توثیق وہ ہے جو اِس مضمون کے نتیجہِ کلام کے طور پر اللہ تعالٰی کے اپنے رسول سے کۓ گۓ اِس ارشاد کی صورت میں سامنے آئی ہے کہ { و ما یدریک لعله یزکٰی } یعنی آپ کو اُس آدمی کو دیکھ کر کس طرح اِس اَمر کا یقین ہو گیا تھا کہ وہ آپ کے پاس آۓ گا تو لازما اُس کی رُوح و جان کا تزکیہ بھی ہو جائے گا ، یہ بظاہر تو ایک سوال ہی ہے لیکن در حقیقت یہ آپ کے کارِ نبوت پر آپ کی ایک عظیم الشان تحسین بھی ہے ، ہمارے اِس نظرئیے کا دُوسرا مُؤید یہ قُرآنی حوالہ ہے کہ قُرآن نے سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 50 ، سُورَہِ ھُود کی اٰیت 24 ، سُورِةُالرعد کی اٰیت 16 ، سُورَةُالاَسراء کی اٰیت 72 ، سُورَہِ طٰهٰ کی اٰیت 124 ، سُورَةُالنُور کی اٰیت 61 ، سُورَہِ فاطر کی اٰیت 19 ، سُورَہِ غافر کی اٰیت 58 ، سُورَةُ الفتح کی اٰیت 17 اور اِس سُورت کی اِس اٰیت سمیت اِن 12 مقامات میں سے ہر ایک مقام پر { اعمٰی } سے نظر کا اندھا انسان مُراد نہیں لیا ہے بلکہ نظریات کا اندھا انسان مُراد لیا ہے سواۓ سُورَةُالنُور کی اٰیت 61 کے کہ وہاں پر بھی کوئی حقیقی اندھا موجُود نہیں ہے بلکہ ایک اندھے انسان کے حوالے سے یہ حُکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی نابینا انسان کسی کام سے تُمہارے گھر پر آجاۓ تو وہ گھر کے اندر بھی آسکتا ہے کیونکہ اُس کے نابینا ہونے کے باعث پردے کے وہ اَحکام متاثر نہیں ہوتے جو اُس اٰیت میں بالغ مرد و زن کے لئے اللہ نے بیان کیئے ہیں ، اِس کلام کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ روایتی شکاریوں نے اپنے روایتی شکار کے لئے جو شکنجے تیار کیئے ہوئے ہیں اُن کے وہ تمام روایتی شکنجے ہر جگہ کی طرح اِس جگہ پر بھی اسی طرح ناکام ہوۓ ہیں جس طرح ہر دُوسری جگہ پر ناکام ہوئے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467554 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More