پردہ

موجودہ زمانے میں ہونے والے کچھ ایسے کام جو درست ننہیں


کچھ دن پہلے میرا باہر کہیں کسی کام کے سلسلے میں جانا ہوا ۔
تو بہت سی لڑکیوں کو دیکھا جو مکمل طور پر پردے میں تھیں عبایا اور نقاب کئے ہوئے اور کچھ محض حجاب کیا ہوا تھا۔
اور کچھ نے عبایا کسی احسان کے طور پر لیا ہوا تھا گویا عبایا کی حرمت پر سوال اٹھ رہا تھا ۔
اس قدر تنگ کہ جاکر ان کو بولوں کہ" بہن دل نہیں کرتا عبایا پہننے کو تو مت پہنو تو زیادہ بہتر ہے"۔
کچھ بہنوں کی طرف توجہ گئی دیکھا کہ انہوں نے دوپٹہ گلے میں رسی کی مانند لیا ہوا تھا ۔کہ کیسے بھی آزادی مل جاتی یہ بوجھ ان سے اٹھائے نہیں اٹھایا جا رہا تھا ۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کیا ملتا ہے؟ آپ کو کیا ہو گیا ہے کیوں یورپ کی دیوانی ہوگئیں ہیں ؟
کیوں اپنا وقار کھو دیا ہے؟ کیوں خود ہی اپنی نسوانیت کی دشمن بن گئی ہیں۔عورتکا اپنا ایک الگ مقام ہے جو اس کومعتبر بناتا ہے۔ اس مقام سے خود کو گرا لیا ہے۔اس منہ زور فیشن کے چلتے ہوئے اپنے آپ کو ڈھونڈنے سے قاصر ہیں ۔فیشن کیا ہے کہ اپنی زینت کو ظاہر کیا جائے تو تف ہے اس فیشن پر ۔
کپڑے کا مطلب خود کو ڈھانپنا ہوتا ہے ۔اپنے جسم کو چھپانا ہوتا ہے، نہ کہ دکھاوا کیا جائے، کپڑا وہ پہننا چاہیے جو آپ کا پردہ رکھے ۔ نیم برہنہ کپڑے اور بے پردگی کوئی اعزاز کی بات نہیں ہے ،یہ آپ کے لیے شرمندگی کا باعث ہے ،اس طرح سے خود کو نمایاں نہیں کرسکتے۔ ایسے تو انسان کو اپنے رب کے سامنے شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے ۔
شریعت نے ہر نامحرم سے پردہ ضروری قرار دیا ہے۔
خواہ وہ نامحرم استاد یا پیرہی کیوں نہ ہو ۔
پیراور شیخ کو مقدس شخصیت سمجھ کر بعض دیندار خواتین بھی پردہ کا اہتمام نہیں کرتیں اور دنیا دار قسم کے پیر بھی اس پر خوش ہوتے ہیں جبکہ صحیح اللہ والے ہر قدم پر پردہ کا اہتمام کرتے ہیں ۔
ایک بزرگ جب بوڑھے ہوگئے تو عورتوں سے پردہ نہیں کراتے تھے ان کو پردہ کرانے کا کہا جاتا تو وہ یہی کہتے کہ میں بوڑھا ہوں مجھ سے گناہ کا ہونا ممکن نہیں، چونکہ نیک تھے ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ حسن بصری جیسا نیک مرد اور رابعہ بصریہ جیسی نیک عورت اگر ایک کمرے میں ہوں تو شیطان وساوس ڈال کر ان سے بھی گناہ کرا سکتا ہے لہذا آپ بھی احتیاط کیا کریں۔
ایک صاحب علم جو کہ حضرت حاجی محمد شریف صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں آئے اور ان کی باپردہ اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔ جب وہ جانے لگے تو حضرت سے عرض کیا کہ آپ میری بیوی کے سر پر ہاتھ پھیر دیں۔ حضرت نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا تم صاحب علم ہو کر ایسی بات کرتے ہو۔
خواتین کے اوپر سے برقعہ حجاب بلکہ سروں کا دوپٹہ تک اتر گیا ہے صرف اسی پر بس نہیں ہوئی بلکہ دن بدن ان کا کشادہ لباس بھی تنگ ہوتے ہوتے جسموں پر فٹ ہو گیا ہے اور اب تو وہ تنگ لباس بھی رفتہ رفتہ مختصر ہونا شروع ہوگیا ہے چنانچہ بعض خواتین کے لباس سے آستینیں پوری یا ادھوری غائب ہوگئ ہیں ۔پہلے لباس ٹخنوں سے نیچے تک تھا تو بھی نصف پنڈلی تک آگیا ہے ۔
واللہ اعلم میں یہ بے پردگی آخر کس نتیجے پر جا کر رک گئی ؟
اسلام دشمن قوم اسلامی تعلیمات کو مٹانے اور تشخصں اسلامی کےفسخ کرنے میں کوئی لمحہ خالی نہیں جانے دیتیں اور ان کی محنتیں کافی حد تک بار آور بھی ہورہی ہیں چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ یورپ کے بعد ہمارے دیار میں بھی مردوں کے چہروں سے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم (داڑھی ) غائب شداور بدن پراسلامی لباس کی جگہ انگریزی لباس آگیا ہے ۔

آج مسلمانوں کی عورتیں یورپ کی تقلید میں بے راہ روی اور بے پردگی اپنا تی جا رہی ہیں جبکہ یورپ کی عورتیں بے راہ روی اور بے پردگی کا مزہ چکھنے اور ان کے بھیانک نتائج کا مشاہدہ کرنے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہو رہی ہیں اور اسلام میں داخل ہوتے ہی خود کو فورا پردے کی چادر میں چھپا لیتی ہیں اور وہ مسلمان عورتوں سے فریاد کر رہے ہیں کہ ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھاؤ۔
بے پردگی میں اس کی ذلت ہے۔ آزادی نسواں کا دل فریب نعرہ دھوکہ ہے اس نعرے کی آڑ میں عورتوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔اس نعرے کی آڑ میں عورتوں کی عزت سے کھیلا جا رہا ہے ۔اس نعرےکا سہارا لے کر عورت سے ماں کا مرتبہ، باپ کا سایہ چیھنا جا رہا ہے اور اسی نعرے کے دھوکے سے اولاد کو شفقت مادری اور تربیت مادری سے محروم کیا جا رہا ہے۔
 

عائشہ جبین
About the Author: عائشہ جبین Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.