وزارت کھیل، حاجی افسران، کلاس فور پر بدمعاشی اور ڈیلی ویج کوچز کا اجلاس

چی زڑہ دے وی نو لارے ڈیرے او نہ چی کوے نو بہانے ڈیرے.. یہ پشتو محاورہ ہے جس کے معنی ہیں کہ اگر کوئی دل سے تعلق رکھنا چاہے تو راستے بہت سارے نکلتے ہیں لیکن اگر تعلق توڑنا ہی ٹھہراتو پھربہانے بھی بہت ہیں، کہنے کو تو یہ ایک محاورہ ہے لیکن اس میں بہت بڑا فلسفہ ہے کہ اگر کوئی کام کرنا ہو تو پھر طریقے بہت سارے نکلتے ہیں لیکن اگر نہیں کرنا ہو تو پھر اس کیلئے بہانے بھی بہت سارے نکلتے ہیں یہ محاورہ ہم نے صوبائی وزارت کھیل کے حالیہ ایک اقدام کی نشاندہی کیلئے لکھا ہے. ہوا کچھ یوں کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے جون 2022 میں ختم ہونیوالے مالی سال کے اختتام پر یہ کہہ کر کئی سالوں سے کام کرنے والوں غریب ملازمین کو گھر بھیج دیا کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں، اس برے وقت میں اکیس ہزار روپے تنخواہ پر کام کرنے والے بیشتر ڈیلی ویجز کے گھروں کے اخراجات اس سے پوری ہوتے تھے. چلو فنڈز نہیں تو کوئی بات نہیں.غریب ڈیلی ویج ملازمین بھی نکل گئے، لیکن مزے کی بات کہ دو ماہ تک کام کرنے والے ڈیلی ویج ملازمین کوتنخواہ نہیں دی گئی اور پھر یکدم تنخواہیں پچس ہزار روپے ماہانہ کرتے ہوئے متعدد ڈیلی ویج کو تْنخواہیں ادا کردی گئی.اور پھر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران کے رشتہ دار بھی ڈیلی ویج میں بھرتی ہوگئے یہ سلسلہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں جاری نہ رہا بلکہ شاہ طہماس میں افسر ان کے من پسند افغان مہاجر کو بھی بھرتی کرنے کیلئے دبائو ڈالا جانے لگا.جس کا شناختی کارڈ بھی اس علاقے کا ہے جہاں پر ان کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں. لیکن... چھوڑیں..

سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ ڈیلی ویج ملازمین جن میں بیشتر کلاس فور ملازم تھے، چوکیدار تھے، مالی تھے یا دفاتر میںکاغذات یا چائے لانے والے نوجوان شامل تھے انہیں فنڈز کی کمی کا بہانہ بنا کر فارغ کردیا گیا تو پھر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران کے رشتہ دار ڈیلی ویج کیلئے فنڈز کہاں سے آگیا، اب بہانہ یہ بنایا جارہا ہے کہ سابق لوگوں نے بھرتی میں غلطیاں کی تھی اور من پسندوں کو تعینات کیا تھا اس لئے شفافیت کے عمل کو برقرار رکھنے کیلئے "اس بار" شفاف طریقے سے بھرتی کا عمل ڈیلی ویج کیلئے کیا گیا. اب کی بار شفاف ہوا اور اتنی شفافیت سے کیا گیا کہ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے افراد کے رشتہ دار ڈیلی ویجز میں آگئے.بس.. پرانے والے افسران چور اور کرپٹ تھے اور آج کل اعلی عہدوں پر آنیوالے "حاجی " ہیں اتنے حاجی کہ ممبران اسمبلی کے سامنے ان کی گھگھی بندھ جاتی ہیں اور انہی کے کہنے پر متعدد مستقل تعیناتیاں اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کروائی گئی، جن میں ڈی آئی خان سمیت پشاور میں کی جانیوالی تعیناتیاں بھی شامل ہیں لیکن اب کی بار ہوشیاری یہ دکھائی گئی کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے حیات آباد سپورٹس کمپلیکس ملازمین بھجوائے گئے، حیات آباد سے فارغ کروائے گئے، شاہ طہماس سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھجوا دئیے گئے یعنی " لوگوں کے آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے آگے پیچھے کا عمل کیا گیا ، اس عمل میں فائدہ کس کو پہنچا اللہ ہی جانے. لیکن شفافیت کے دعووں کی جس طرح حکمران دھجیاں اڑاتے ہیں اسی طرح اسی وزارت کھیل کے اعلی افسران نے بھی دھجیاں اڑائی.

کلاس فور پر افسری کا رعب جمانے والوں کا حال یہ ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں آغاز میں تبادلے کروائے گئے، تبادلے کیوں کروائے گئے، یہ الگ کہانی ہے لیکن اس کہانی کی خوبصورت بات یہ ہے کہ جو لوگ تبدیل کئے گئے ان میں بیشتر واپس اپنے عہدوں پر تعینات ہیں، سوائے ایک دو کے، کیوں.. اس کا جواب اب شائد کوئی نہ دے سکے، ہمیں الزام دیا جاتا ہے کہ آپ کی وجہ سے ہمارے ساتھ لوگ کام نہیں کرنا چاہتے، ہم کس باغ کے مولی ہیں، دوٹکے کے صحافی، اگر افسران پر آپ کی نہیں چلتی تو اس میں کلاس فور غریبوں اور ہم جیسے دو ٹکے کے صحافیوں کا کیا قصور.. ویسے یہاںپر ڈی ایس او کی سیٹوں پر تعینات ڈیپوٹیشن پر آنیوالے افسران کو واپس بھیج دیا گیا کہ وزیراعلی خیبرپختونخواہ یہ چاہتے ہیں، کچھ عرصہ پابندی رہی پھر مردان سے ڈیپوٹیشن پر آنیوالوں سے اس کا آغاز ہوگیا اور انشاء اللہ اب جلد ڈیپوٹیشن پرمن پسندوں کی تعیناتی کا عمل جلد شروع ہو جائیگا اور ایک الگ ہی دنیا بسائی جائیگی.,سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں انتظامی عہدوں پر بارہ سے زائد جبکہ ڈی ایس اوز کے متعدد عہدے خالی ہیں ان پر تعیناتیاں کیوں نہیں کی جارہی، ان کیلئے اشتہار کیوں نہیں دیا جارہا. کم از کم بیروزگار نوجوانوں کو روزگار تو مل جائے گا لیکن سمجھائے گا کون..شائد یہ تبدیلی کا اثر ہے..

سمجھنے اور سمجھانے کی بات تو یہی ہے کہ وزارت کھیل خیبر پختونخواہ نے دو ماہ قبل ڈیلی ویج کوچز کویہ کہہ کر مفت میں ڈیوٹی کرنے پر مجبور کردیاکہ انکی دوبارہ ریکروٹمنٹ ہوگی دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کی تعیناتی نہیں ہوئی، البتہ کچھ لوگ جو سچ بولتے ہیں انہیں اس عمل کے نام پر ریکروٹمنٹ کے عمل سے نکالا گیا نکالے جانیوالوں میں ایک خاتون ٹینس کوچ بھی شامل ہے.دلچسپ اور مزے کی بات یہ ہے کہ چیف کوچ کے عہدے سے ڈی ایس او بنوں ہوجانے والے افسر نے گذشتہ روز کوچز کا اجلاس طلب کرلیا، باتیں تو بہت ساری ہوئی لیکن یہ سب کو کہا گیا کہ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں، اتحاد و اتفاق کس پر کیا جائے یہ الگ کہانی ہے.مستقل کوچز کا اجلاس طلب کرنا تو سمجھ میں آنیوالی بات ہے، لیکن جن لوگوں کو دو ماہ سے خلاء میں رکھ کر ان سے ڈیوٹی لی جارہی ہیں اور یہ کہاجارہا ہے کہ ریکروٹمنٹ ہوگی اور شفاف طریقے سے کی جائیگی ان ڈیلی ویجز کو چز کو کس حیثیت میں طلب کیا گیا تھا کیا ان کی تعیناتی ہوگئی یا پھر ریکروٹمنٹ کا عمل مکمل کیا گیا.

سوال یہ ہے کہ اگر ریکروٹمنٹ کا عمل مکمل کیا گیا تو انائونس کیوں نہیں کیا گیا، اور اگر دو ماہ سے پراسیس جاری ہے تو پھر ان ڈیلی ویجز کوچ کی حیثیت کیا ہے، اور کیا چند مخصوص ڈیلی ویجز کوچز کو بلا نا دوسرے کوچز کیساتھ زیادتی نہیں، یا پھر ریکروٹمنٹ کے نام پر کوچز کو لٹکائے رکھنا زیادتی نہیں، کام ان سے لیا جارہا ہے لیکن انہیں تعینات نہیں کیا جارہا لیکن اجلاسوں میں طلب کیا جاتا ہے. سب سے حیران کن بات بھی یہی ہے کہ اس خاتون ٹینس کوچ جنہوں نے اپنے ساتھ ہونیوالے جانبداری کے واقعے پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی انہیں اجلاس میں طلب نہیں کیا گیا جبکہ اسی دن ڈائریکٹریٹ جنرل خیبر پختونخواہ نے ان سے کاغذات طلب کئے کہ ڈاکومنٹس دوبارہ چیک کئے جارہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیلی ویجز کوچز کی ریکروٹمنٹ بھی محض ایک ڈھونگ ہے چند مخصوص کوچز کو اندر رکھنے اور کچھ کو باہر کرنے کا، کیونکہ پراسیس اگر مکمل نہیں ہوا تو پھر اجلاسوں میں شرکت کیا معنی رکھتی ہے.ویسے یہ بات بھی حیران کن ہے کہ خاتون ڈائریکٹریس اس ریکروٹمنٹ کے عمل کی نگران ہے ان کی موجودگی میں ڈی جی کی طرف سے کاغذات طلب کرنا بھی عجیب ہے. چھوڑیں یہاں ساری باتیں ہی عجیب ہے.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 421997 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More