مداری ، کلائمبنگ وال یا چاند دیکھنے کی جگہ اور انٹر ورسٹی مقابلے

ویسے بھی عام لوگوں کو اگر بچے کہیں کہ ہم نے کھیل کی طرف جانا ہے تو والدین یہ کہتے ہیں کہ " عالم پہ سہ دے او میر عالم پہ سہ دے" یعنی کھیل اب امیرزادوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے . ویسے کلائمبنگ وال کس طرح بنا ، اس کی حقیقت کیا ہے وہ ہ الگ کہانی ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ اب سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا یہ کلائمبنگ وال شائد " چاند دیکھنے کے " کام آئے

پشتو زبان کا ایک محاورہ ہے جسے بہت زیادہ لوگ بولتے ہیں " چی کوم زائے کے نہ کار ھلتہ سہ کار" یعنی جہاں پر آپ کا کام نہ ہو وہاں پر جانے کی ضرورت نہیں .الحمد اللہ اس پختون معاشرے میں رہتے ہوئے بھی ایسے کام ایسے لوگ کررہے ہیں جو ان کے کام نہیں ، اب اگر پراپرٹی کام کام کرنے ، بینک میں گاڑیاں لیز پر دینے والے صحافی بنیں گے .تو وہ اپنے کام کی طرح " خوبصورت اور دلکش جملے" لازما استعمال کریں گے تاکہ خریدار دھوکہ کھائے اور اس کی مطلوبہ رقم فراہم کرے. اسی لوگ ماارکیٹنگ بھی کہتے ہیں اور عام فہم زبان میں یہ " دھوکہ" بھی ہے کیونکہ ہوتا وہ کچھ نہیں جو نظر آتا ہے لیکن ریل کی پٹڑیوں پر بیٹھا " مداری"کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی وہ تو بس کھیل کھیل میں لوگوںکے جیب سے رقم نکالنا جانتے ہیں ، مداری جس طرح لوگوں کو بے وقوف بنا کر وقت گزارتا ہے اور اپنے لئے رقم پیدا کرتا ہے بس اب اتنا ہی فرق رہ گیا ہے مداریوں اور صحافیوں میں ، شعبہ صحافت میں کام کرنے والے کو اندر اور باہر دونوں جگہوں سے طعنے ملتے ہیں اور " مداری " اپنا کام نکالنے کیلئے کس حد تک گرتے ہیں اس کا اندازہ ان لوگوں کو زیادہ ہوتا ہے جن کا واسطہ مداریوں سے پڑتا ہے. خیر ہم بھی کہاں کی باتیں کہاں لے بیٹھے ، کہاں پراپرٹی ڈیلنگ ، کہاں صحافت اور کہاں مداری..

اب اسے مداری پن کہا جائے ، دوسروں کے کام میں مداخلت کہا جائے یا پھر کچھ اور ، صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ صوبے کے مختلف سرکاری یونیورسٹیوں کے مابین مقابلے کروا رہی ہیں ، تین لڑکوں اور تین لڑکیوں کے مقابلے کمروائے جائیں گے ، ان میں سرفہرست مقابلہ کرکٹ کا ہے ، جس کیلئے خریداری بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کرے گا ، جس میں کھلاڑیوں کو دیا جانیوالا سامان ، ٹی اے ڈی اور رہائش بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ہی فراہم کرے گی.جو کہ کروڑوں روپے کے ہونگے ، سوال یہ ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ اپنے مینڈیٹ کو بھول گئی ہیں سال 2018 میں اسی تبدیلی والی سرکار نے سپورٹس پالیسی دی تھی جس کے تحت نرسری سطح پر کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کیا جائیگا سال 2018 سے لیکر آج سال 2022 تک کوئی یہ بات ثابت کرے کہ نرسری سطح پر سکولوں کی سطح پرکھیلوں کے فروغ کیلئے کوئی کام کیا گیا ہو ، کوئی ٹورنامنٹ ، کوئی چیمپئن شپ ، کسی بھی کھیل کیلئے پروگرام ارینج ہوا ہو ، پرائیویٹ سکولوں کے کھیلوں کے پروگرام ہوئے ہیں اور انکی انتظامیہ نے سپورٹس ڈے کے نام پر پروگرام منعقد کیا اور پھر خاموشی ہی رہی .

اب صوبائی وزارت کھیل انڈر21 اور انڈر 23 کے مقابلوں کے بجائے انٹر ورسٹی مقابلے کروا رہی ہیں جو ان کا مینڈیٹ بھی نہیں ، اسی طرح کرکٹ کے مقابلوں کا انعقاد کیا جارہا ہے جس کیلئے سامان کی خریداری بھی ہوگی ، سوال یہ ہے کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کس طرح ایک ایسے کھیل کو پروموٹ کررہی ہیں جس کیلئے الگ ایک بورڈ قائم ہے ، جس کے ایک مہینے کا بجٹ صوبائی وزارت کھیل کے ایک سال کے بجٹ کے برابر ہے ایسے میں کرکٹ کے مقابلوں کا انعقا د حیران کن بلکہ پریشان کن اقدام ہے . اگر مقابلے کروانے بھی ہیں تو سکولوں اور نرسری لیول کے مقابلے کیوں نہیں کروائے جاتے ، کرکٹ کے بجائے اس صوبے میں کونسے کھیل کھیلے جاتے ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے یا پھر ایسے کھیل جس کے مقابلوںمیں قومی اور صوبائی سطح کے مقابلوں میں خیبر پختونخواہ کے کھلاڑیوں کی کارکردگی بہتر ہے یا پھر نہ ہونے کے برابر ہے. پینتیس کھیلوں میںصوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو بیڈمنٹن ، کرکٹ ، فٹ بال ہی ملے ہیں ، کیا دیگر کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کا کئی حق نہیں.ویسے اگر انٹر ورسٹی سے کرکٹ کے کھلاڑی نکلے بھی تو وہ کہاں پر جائیں گے کیونکہ پی سی بی تو انڈر 19سے زائد عمر کے کھلاڑی لیتے بھی نہیں.پچیس سال کی عمر میں کو ن سا کھلاڑی پی سی بی میں جائیگا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سلیکٹرز کو متاثر کرے گا. یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے. جس کا جواب صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس بھی نہیں . جو کرنے کے کام ہیں وہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کرہی نہیں رہی .جو ان کے کام نہیں اس میں مداخلت کررہی ہیں. اس کا فائدہ کس کو ہوگا.

فائدہ یقینا اس کھیل سمیت دیگر کھیلوں کیلئے کی جانیوالی خریداریوں ، ٹی اے ڈی اے سمیت بہت ساری چیزوں میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے چند مخصوص لوگوں کو ہوگا.اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں .کچھ دن قبل ایک دوست نے فٹ بال کی تصویر بھیج دی جو خصوصی طور پر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیلئے لی گئی تھی اور اس پر ناٹ فار سیل لکھا ہوا تھا لیکن وہ مارکیٹ میں فروخت ہورہی تھی ہم نے نشاندہی کی ، جن لوگوں کی ذمہ داری ہے ان تک بات پہنچائی بھی کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے فٹ بال جو خصوصی طورپر لی گئی ہے وہ مارکیٹ میں برائے فروخت موجود ہے جن کا کام تحقیقات کا ہے ہے یقینا وہ کام بھی اس پر کریں گے لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے صاحب لوگوں کو یہ چیزیں نظر نہیں آتی. کہ یہ پوچھ سکیں کہ سٹور روم سے فٹ بال کس طرح باہر نکلے اور پھر مارکیٹ میں فروخت ہونے لگے ہیں.شائد یہ ان کا مینڈیٹ نہیں اور ویسے بھی غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں پر کس کا دل دکھتا ہے.

دل دکھنے اور دکھانے کی بات تو یہ ہے کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کھیلوں کے ایک ہزار سہولیات منصوبے میں کلائمبنگ وال صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بنایا ہے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ابھی تک کوئی کوچ نہیں ، نہ ہی کوئی کھلاڑی آیا ،اور نہ ہی آنے کا کوئی امکان ہے. یہی صورتحال مردان میں بننے والے کلائمبنگ وال کی بھی ہے .کیونکہ اس کلائمبنگ وال پر چڑھنے کیلئے لنڈے کے شوز بھی بارہ ہزار روپے تک مالیت کے ہیں جوعام شہری کی بس کی بات نہیں کہ اپنے بچے کیلئے لے سکیں ،ویسے بھی عام لوگوں کو اگر بچے کہیں کہ ہم نے کھیل کی طرف جانا ہے تو والدین یہ کہتے ہیں کہ " عالم پہ سہ دے او میر عالم پہ سہ دے" یعنی کھیل اب امیرزادوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے . ویسے کلائمبنگ وال کس طرح بنا ، اس کی حقیقت کیا ہے وہ ہ الگ کہانی ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ اب سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا یہ کلائمبنگ وال شائد " چاند دیکھنے کے " کام آئے کیونکہ اس پر عوامی ٹیکسوں کا پیسہ لگا تھا اس ئے کسی نے پہلے پروا کی اور نہ ہی مستقبل میں کرنے کا کوئی ارادہ ہے ، اگراسی منصوبے میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں والی بال کا جمنازیم بن جاتا ، تو کم از کم پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر کی منتیں تو نہیں کرنی پڑتی . لیکن کرسی پربیٹھنے والے " بڑے صاحب" کا اپنا ہی موڈ ہوتا ہے اور یہ دیسی انگریز اپنے موڈ کے مطابق فیصلے کرتے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کھیلوں کے میدان آباد ہورہے ہیں یا نہیں ہاں ان کی گھر آباد ہیں اور انکی جیبیں بھر رہی ہیں .

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 421878 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More