ہمارے ادارے ہمارا فخر

ہمارے اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد کس طرح اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں ہیں جس پر عرصہ دراز سے بیٹھے ہوئے ہیں منافقت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اپنے ادارے کے سربراہ کے خلاف ہی محاذ کھول بیٹھتے ہیں انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ انکی یہ حرکتیں نہ صرف ان کے لیے باعث شرمندگی ہیں بلکہ اس ادارے کا کیا بنے گا جو پہلے ہی اپنوں کی سیاست کی وجہ سے تباہ و برباد ہورہا ہے میری مراد ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ (ڈی جی پی آر ) سے ہے جو حکومت کا چہرہ ہے اسی ادارے نے عوام کو بتانا ہوتا ہے کہ ہماری حکومت کیسی ہے لیکن یہ ادارہ اس وقت خود سیاست کی دلدل میں ڈوب چکا ہے ان کی آپس کی لڑائیوں نے حکومت کے اچھے کاموں کو تو کیا پروان چڑھانا تھا یہ خود آپس میں دست وگریبان ہیں وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی نے اس ادارے کی بہتری کے لیے پچھلے ماہ ا فراز کو ڈی جی پی آر تعینات کیا تویہاں پر براجمان مفاد پرستوں نے اسی کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردی قیام پاکستان سے قبل 1940میں بننے والا یہ ادارہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہوتا رہا وہ بھی اپنوں کے ہاتھوں یہ ادارہ حکومت کے لیے اتنا اہم ہے کہ شائد ہی کوئی اور ہوہر ضلعی مقام پر ڈی جی پی آر کا دفتر موجود ہے مگر کسی افسر کے پاس کوئی گاڑی ہے اور نہ ہی کوئی سہولت اور تو اور یہاں ہیڈ کوارٹر میں کسی بھی افسر کے پاس ٹھنڈے پانی کا بھی بندبست نہیں تھاپھر ثمن رائے آئی تو اس نے یہاں کی شکل و صورت کچھ نکھاری دفتر کو رنگ روغن کرویا کمرے درست کروائے اے سی لگوائے ٹھنڈے پانی کے ڈسپنسر لگوائے اور ملازمین کو پیار و محبت دیا اب افراز احمد یہاں کے ڈی جی پی آر ہیں جنہوں نے 60نئی گاڑیاں اور عرصہ دراز سے خالی سیٹوں پر بھرتی سمیت ادارے کا منہ سر نکھارنے کا کام شروع کیا تو اسکی مخالفت شروع کردی گئی ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا اس پر تفصیلی لکھنے کا ارادہ تھاکہ کون کس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے سینئرز کیا سوچتے ہیں جونیئر کیا پلاننگ کررہے ہیں اور اشتہارات جو اہم شعبہ ہے اس میں کیا چل رہا ہے انٹی کرپشن کو مطلوب افراد کیا کرتے ہیں مگر حالیہ دنوں افغانستان اور بنگلہ دیش نے جو ہمارے ساتھ کیا وہ مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا افغانیوں نے میچ ہارنے کے بعد اسٹیڈیم کی کرسیاں اکھاڑ کر جس طرح پاکستانیوں کو مارا باعث شرم ہے افغانستان اور بنگلہ دیش دو ایسی ٹیمیں ہیں جنہیں پاکستان نے بہت سپورٹ کیا1999 میں جب بنگلہ دیش ایک کمزور ٹیم تھی ہم نے اس سے ایک میچ ہار کر اسے ٹیسٹ کیپ دلوائی افغانستان ٹیم کو تو بنایا ہی ہم نے ہے پاکستان کے کرکٹر انضمام الحق نے کڑی محنت سے یہ ٹیم تیار کی اور حیرت ہے کہ یہ دونوں ٹیمیں پاکستان سے بدتمیزی کرتی ہیں بنگلہ دیش نے جب 1999 کا میچ جیتا تھا تو حسینہ واجد نے کہا کہ ہمیں آج 1971 جیسی خوشی ملی ہے پاکستان نے اس بات کو یاد رکھا اور پھر اس کے بعد جب بنگلہ دیشی ٹیم پاکستان سے ٹیسٹ کھیلنے آئی تو پاکستان کے پہلے پانچ بلے بازوں نے پانچ سنچریاں مار کر ان کی طبعیت بھی صاف کر دی اور اوقات بھی یاد دلا دی ایسے ہی دو بار ایشیا کپ کے فائنل میں بنگلہ دیشی کھلاڑی اوقات سے باہر ہوئے تو جیتے ہوئے میچ ہار گئے ایک میچ میں اعزاز چیمہ نے شاندار باؤلنگ سے ان کو رُلایا تو دوسرے فائنل میں لالہ شاہد آفریدی نے سات چھکے مار کر بنگلہ دیشی لڑکیوں کی بھی چیخیں نکلوا دیں کچھ ایسا ہی افغانستان کے ساتھ بھی اس کی بدتمیزی کے جواب میں 2018، 2021, 2020 اور گذشتہ روز کے میچ میں کیا گیاایک میچ میں شعیب ملک، ایک میں عماد وسیم، ایک میں آصف علی اور پھر نسیم شاہ نے افغانستان کی ٹیم کو بتایا کہ بڑے بھائی سے تمیز سے بات کرنی چاہیے انڈیا ہمارا روایتی حریف ہے مگر آف دی گراؤنڈ ان کے پاکستانی کھلاڑیوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور گراؤنڈ پر بھی کبھی ان کی یا ہماری طرف سے بھی اس طرح کی بدتمیزی دیکھنے میں نہیں آئی ہم تو آج تک افغانیوں کو مسلمان بھائی سمجھتے ہوئے سنبھال رہے ہیں اور تو اور ہمارے شناختی کارڈ اور ہمارے پاسپورٹ بنوا کر پوری دنیا گھوم رہے ہیں شارجہ میں گزشتہ روز پاکستان اور افغانستان کے میچ کے بعد سٹیڈیم میں جن افغانیوں نے ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی تھیں اِن کو کیمرے اور ویڈیو کے ذریعے شارجہ پولیس نے پکڑلیا ہے اِن سب کے اقامے چیک کئے گئے بعد میں اِن کے ارباب/ کفیل کو بلا کر اِن سب کے پاسپورٹ چیک کئے گئے تو یہ انکشاف ہوا کہ پاکستانی شائقین پر حملہ اور مار پیٹ کرنے والے اکثریت افغانیوں کے پاسپورٹ ''پاکستانی'' بنے ہوئے تھے اس سلسلہ میں جب پاکستانی سفارتخانے کو اطلاع دی گئی تو پاکستانی سفارتخانے والے خود حیران اور پریشان ہوگئے اب اِن سب شر پسند افغانیوں پر ''گلف ممالک'' کی جانب سے مستقل پابندی عائد کردی گئی ہے اور اِن کو شارجہ سے ڈی پورٹ کیا جارہا ہے پاکستان کے سیکورٹی ادارے،انٹیلی جنس ایجنسیاں اور ایف آئی اے بھی محترک ہوگئے ہیں اور اِن سب کو ائیرپورٹ سے ہی حراست میں لینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے تاکہ یہ پوچھاجاسکے کہ انہوں نے جعلی پاکستانی پاسپورٹ کیسے بنوائے تھے اور اِنکے پاسپورٹ بنانے میں کون کونسی کالی بھیڑیں ملوث ہیں اِن سب کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اس کے ساتھ ساتھ سینٹر کام علی آغا نے بھی ایک شاندار کام کیا ہے کہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے افغان مہاجرین کی جانب سے مبینہ طور پر پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کرنے کے حوالے سے شکایت پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے نوٹس لیتے ہوئے کمیٹی نے اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کو ایف 6 میں لگے افغانوں کے کیمپ اکھاڑنے اور 15 دنوں میں پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے کہا کہ یہ سکیورٹی رسک ہے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی اتنے اہم ایریا میں افغانوں کو کس نے بیٹھنے کی اجازت دی ایک بات یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ ہم پاکستانی مہمان نواز ہیں ہم پاکستانی محبت کرنے والے ہیں مگرہم پاکستانی کمزور نہیں ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہمیں معاف کرنے اوربھول جانے کی بیماری ہے بس یہی ہماری کمزوری ہے رہی بات اداروں کی یہ ہمارا فخر ہیں انہیں کم کسی صورت کمزور نہیں ہونے دینگے ۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 514229 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.