کالا باغ پر سیاسی ڈرامے

پاکستان میں جب بھی سیلاب آئے تو ہم ڈوب گئے یہ صرف اس لیے ہی ممکن ہوا کہ حکمرانوں نے کالا باغ ڈیم سمیت کسی نئے ڈیم کو ہاتھ نہیں لگایا کالاباغ ڈیم پنجاب کی سرزمین پر بننے والا آبی منصوبہ ہے جو سیاسی دہشت گردی کی نظر ہوتا رہا ڈیم کی صورتحال سے قبل حافظ حسین احمد کی ہمیشہ کی طرح تاریخی باتیں ہیں جنکا کہنا ہے کہ ملک کو بارشوں اور سیلاب نے نہیں بلکہ حکمرانوں کی کرپشن نے ڈبویا ہے حکومت اپنی نااہلی، ناکامی اور کرپشن کو چھپانے کے لیے کالاباغ ڈیم کا راگ الاپ رہی ہے شہباز شریف کالا باغ کے ترپ پتے کو پنجاب میں اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں شہباز شریف کی موجودہ اتحادی حکومت جوکہ عوام کو مہنگائی ختم کرنے کا سبز باغ دکھانے میں ناکامی کے بعد اب طوفانی سیلاب کی آڑ میں پنجاب کے عوام کو کالا باغ کا دانہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومتی شہباز الیون میں شامل تیرہ جماعتوں کی اس ٹیم کو اس فیصلے میں مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری اور اے این پی سمیت سب کی حمایت اور آشیرباد حاصل ہے؟ اور کیا شہباز شریف اپنے لخت جگر حمزہ شریف کی پنجاب بدری اور لندن پناہ لینے کے حوالے سے صوبہ پنجاب کے عوام کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنے کے لیے کالا باغ کو سبز باغ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش نہیں کررہے؟ کیا کالا باغ کے اس مردہ گھوڑے کو زندہ کرنے کا ڈرامہ کالا باغ ڈیم بننے سے پہلے ہی کمزور تنکوں سے بنی اس اتحادی حکومت کو سیلاب کی طرح بہا کر گرادے گا اسی لیے توآج سندھ، بلوچستان سمیت پاکستان کا خون چوسنے والے کرپٹ حکمرانوں کے کرتوتوں کو طوفانی سیلاب نے مزید واضح کردیا ہے بارشوں کی پیشگوئی کے باوجود حکمرانوں نے کوئی اقدامات نہیں کئے جس کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال پیدا ہوئی اور ملک کو اربوں کا نقصان ہوا جس سے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بنے ملک کی اہم شاہراہوں اور پلوں کو نقصان ہوا لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی ہلاک ہوئے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ملک ڈوبا ہے اگر بارشوں کی پیشگوئی ہونے کے بعد اقدامات کئے جاتے تو اتنا نقصان نہیں ہوتا لیکن افسوس کہ سیاستدان اقتدار کی جنگ میں مصروف رہے ماضی میں منصوبے اور ترقیاتی امداد صرف کاغذوں کے اندر تھی اور اب کالا باغ کے جس ترپ پتے کو شہباز شریف پنجاب میں گرتی ساکھ کوبچانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں اس سے ان کی پنجاب میں ساکھ خاک بحال ہوگی بلکہ باقی تین صوبوں میں شباز شریف کواپنے اتحادی مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری، اسفند یار ولی، سردار اختر مینگل کی نہ صرف حمایت سے محروم ہونا پڑے گابلکہ اس کی بھرپور مذاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا یہ تو تھی اندر کی کہانی جو حافظ حسین احمد کی زبانی سنی اب آتے ہیں ایک بار پھر کالا باغ ڈیم کی طرف جسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قائداعظم کی اجازت سے فروری 1948ء میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر کیا گیا بھارت نے پاکستان کا پانی بند کر دیا پاکستان ورلڈ بینک اس مسئلے کو لے گیا۔ جس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پایاایوب خان نے پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ضروری سمجھا ایوب دور میں دیگر آبی منصوبوں کی تعمیر زور و شور سے جاری تھی اس لیے کالا باغ ڈیم صرف کاغذوں تک محدود رہا کالاباغ ڈیم کی باری آنے سے پہلے ایوب خان کی حکومت ختم ہوگئی۔ بھٹو کے جمہوری دور میں پہلی بار اس ڈیم کو پاکستان کے لیے مضر قرار دیا گیا اور اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی گئی کالا باغ ڈیم پر صحیح معنوں میں کام جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہوا جنرل ضیاء الحق کے دور میں خصوصی طور پر ڈیموں کے ماہر ڈاکٹر کنیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے کالا باغ ڈیم کے حوالے 1983ء کو اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق اس ڈیم کی اونچائی 925 فٹ ہو گی۔ 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور کیا جاسکے گا اس کی تعمیر کے لیے زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ درکار ہو گا اور یہ پورے ملک کے 50 لاکھ ایکڑ بنجر رقبے کو سیراب بھی کریگا اس وقت 8 بلین ڈالر اس کی تعمیر پر خرچ ہوں گے جس کے بعدیہاں 5000 میگا واٹ تک بجلی کی پیداوار حاصل کی جاسکے گی جنرل ضیا الحق کے حکم پر کالا باغ کی تعمیر کیلئے دفاتر تعمیر کئے گئے روڈ بنائے گئے اور مشینری منگوائی گئی پھر اسکے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا اے این پی نے اعتراض کیا کہ کالا باغ ڈیم کے موجودہ ڈیزائن سے نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا انکے اس بلا جواز اعتراض کو دور کرنے کیلئے ڈیزائن میں تبدیلی کر کے ڈیم کی اونچائی کم کر دی گئی سندھ کی ''سول سوسائٹی’’ نے بھی اعتراض اٹھایا کہ پنجاب سندھ کا پانی غصب کر لے گا یہ منصوبہ سندھ کی عوام کو منظور نہیں تب جنرل ضیاء نے چاروں صوبوں کو پانی کی تقسیم کے ایک فارمولے پر راضی کیا اس معاہدے اور فارمولے کے مطابق پنجاب 37 فیصد، سندھ 33 فیصد، سرحد 14 فیصد اور بلوچستان 12 فیصد دریائی پانی لینے پر راضی ہو گئے ابھی یہ منصوبہ درماین میں ہی لٹکا ہوا تھا کہ جنرل ضیاء کو شہید کر دیا گیا جنرل ضیاء کے دور میں پاکستان میں سب سے زیادہ چھوٹے ڈیم بنائے گئے ہیں مگر ضیاء الحق کی وفات کے بعد یہ منصوبہ دوبارہ کھٹائی میں پڑ گیا پاکستان جمہوریت کا سورج سوا نیزے پر آیا تودونوں جمہوری حکومتوں نے دوبارہ اس منصوبے کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دینا شروع کر دیا جنرل پرویز مشرف نے کالاباغ سمیت ملک بھر میں 6 بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ’’ڈیم نہیں بنائینگے تو مر جائینگے ‘‘ ان منصوبوں میں نیلم جہلم، کالاباغ، بھاشا، منڈا، اکھوڑی اور کرم تنگی ڈیم شامل ہیں 2005ء میں مشرف نے یہ اعلانات کیا اور پھر 2007ء میں وکلاء تحریک کی وجہ سے اپنی وردی سے ہاتھ دھونا پڑے 2008ء میں مشرف نے استعفی دے دیا تاہم ان دو سالوں میں نئے سرے سے ان تمام ڈیموں کی فیزیبلٹی رپورٹ بنالی گئی نیلم جہلم پر کافی کام نمٹا لیا گیا اور غازی بھروتہ منصوبے کو مکمل کر دیا گیا مشرف کے جانے کے بعد ایک بارپھر جمہوریت آئی جنہوں نے بھاشا، کرم تنگی، منڈا اور اکھوڑی ڈیموں کو لٹکا دیا 2008ء میں مکمل ہونے والے نیلم جہلم منصوبے پر کام روک کر اس کو 2018ء تک کھینچ لیا گیا۔ لیکن سب سے بڑا ظلم کالاباغ ڈیم پر کیا گیا جس کو نواز شریف اور آصف زرداری نے ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا اعلان کر دیا اور پھر ہم سیلاب کی نظر ہونا شروع ہوگئے اس سیلاب نے دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب کو کم متاثر کیا ہے کیونکہ چوہدری پرویز الہی کی ہدایت پر ادارے بروقت حرکت میں آگئے تھے امید ہے چوہدری پرویز الہی کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں اپنا مثبت رول زرور ادا کرینگے ۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 514175 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.