ماضی کی تاریخ ساز اور تاریخ سوز خواتین !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالتحریم ، اٰیت 10 تا 12 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ضرب
اللہ مثلا للذین
کفروا امرات نوح و
امرات لوط کانتا تحت
عبدین من عبادنا صالحین
فخانتٰہما فلم یغنیا عنھما من
اللہ شیئا و قیل ادخلا النار مع
الدٰخلین 10 وضرب اللہ مثلا للذین
امرات فرعون اذ قالت رب ابن لی عندک
بیتا فی الجنة و نجنی من فرعون و عملہ و
نجنی من القوم الظٰلمین 11 ومریم ابنت عمرٰن
التی احصنت فرجھا فنفخنافیہ من روحنا و صدقت
بکلمٰت ربھا و کتبہ و کانت من القٰنتین 12
اللہ حق کا انکار کرنے والوں کے سامنے اپنے تابع فرمان بندوں میں سے دو تابع فرمان بندوں نوح و لوط کی اُن دو عورتوں کے انکارِ حق کی مثال پیش کرتا ہے جن دو عورتوں نے حق کی روشنی دیکھنے کے بعد بھی باطل کا ساتھ دے کر اُن کے ساتھ ایک مُجرمانہ ذہنی خیانت کا ارتکاب کیا تھا اور ہمارے وہ دونوں تابع دار بندے اُن دونوں کو ہمارے غضب سے بچانے کے لئے کُچھ نہیں کر سکے تھے اور اُن دونوں عورتوں کو ہمارے حُکم پر جہنم میں جلنے والے لوگوں کے ساتھ جلنے کے لئے جہنم میں ڈال دیا گیا تھا ، اِن ہی منکرینِ حق کے لئے اللہ کی پیش کی ہوئی دُوسری مثال آلِ فرعون کی اُس عورت کی ہے جس نے کفر کی تاریکی میں رہ کر ہدایت کی روشنی دیکھ لی تھی اور اُس نے اپنے رٙب سے دُعا کی تھی کہ تُو مُجھے اپنی زیرِ نگرانی جنت میں اپنے پاس ہی جگہ دے دے اور مُجھے فرعون و قومِ فرعون کے کافرانہ کردار و عمل سے بچالے اور اللہ اِن ہی منکرین حق کے لئے تیسری مثال عمران کی اُس بیٹی کے کردار سے پیش کرتا ہے جس نے اپنی سیرت سازی کے لئے اللہ کی رحمت میں پناہ لی تھی اور اللہ نے اُس کے دل میں توفیقِ عمل کی توانائی ڈال دی تھی جس کے بعد اُس نے اللہ کے علمِ کتاب سے بھی تفہیم حاصل کر لی تھی اور اِس طرح وہ اللہ کے تابع دار بندوں میں شامل ہو گئی تھی !
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
جس طرح عربی زبان کا { موسم } وہ مُجرد لفظ ہے جو اپنی تفسیر کے لئے سردی و گرمی اور بہار و خزاں کی اُن ضروری نسبتوں کا محتاج ہوتا ہے جن ضروری نسبتوں سے اُس کے اس نام کا معنوی تعین ہوتا ہے اسی طرح عربی زبان کا { امراءة } بھی وہ مُجرد لفظ ہے جو اپنی تعبیر کے لئے ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کی اُن لازمی نسبتوں کا محتاج ہوتا ہے جن لازمی نسبتوں سے اُس کے اُن رشتوں کا تعین ہوتا ہے ، مثال کے طور پر سُورٙہِ یُوسف کی اٰیت 30 میں شہرِ مصر کی جس امراء ة العزیز کا ذکر کیا گیا ہے وہ امراءة العزیز اپنی اِس مُجرد لفظی ساخت کی رُو سے عزیزِ مصر کی بیوی بھی ہو سکتی ہے اور اُس کے ارکانِ حکومت کی ایک خاتون رُکن بھی ہو سکتی لیکن قُرآن کا مقصود اُس خاتون کا شخصی تعارف نہیں بلکہ قُرآن کا مقصود اُس واقعے میں ذکر کیئے گئے دو انسانی اٙفراد کی سیرت و بصیرت کا وہ موازنہ ہے جس میں ایک عورت کی تخلیہ طلبی و دراز دستی پیغمبرانہ سیرت سے مات کھاتی ہے اور پیغمبرانہ سیرت اُس کی نفسانی ہوس سے جیت جاتی ہے ، اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں نوح و لوط کے حوالے سے جن دو عورتوں کے مٙنفی کردار کا ذکر کیا گیا ہے اُن میں سے دُوسری عورت چونکہ قُرآن کے دُوسرے قرائن سے لوط علیہ السلام کی بیوی ثابت ہوتی ہے اِس لئے بجا طور فرض کیا گیا ہے کہ پہلی عورت بھی نُوح علیہ السلام کی بیوی ہی ہوگی جس کا قُرآن نے لوط علیہ السلام کی بیوی کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن اِس سے بھی قُرآن کا مقصود اُن عورتوں کا اُن نبیوں کی بیویاں ہونا یا اُن کے حلقہِ ارادت میں شامل ہونا نہیں ہے بلکہ قُرآن کا مقصود اُن کا مُنکرِ حق ہونا اور منکرِ حق ہونے کی بنا پر جہنم کا مُستحق ہونا ہے ، اہلِ کفر کے لئے اِس تمثیل میں حرفِ دلیل یہ ہے کہ مُحوّلہ بالا دونوں عورتیں اپنے کفر میں اتنی پُختہ کار ہو چکی تھیں کہ نبوت کے سُورج اُن کے عین سامنے ہونے کے باوصف بھی اُن کی آنکھیں اُن کی روشنی سے محروم رہی تھیں اور وہ دونوں نبی اُن دونوں عورتوں کو اپنی عمر بھر کی کوشش و کاوش کے باوجُود بھی ایمان کی طرف لاسکے تھے اور نہ ہی وہ اُن کو سزائے جہنم سے بچا سکے تھے اِس لئے زمین کے جو اہلِ زمین اپنے بزرگوں سے نجات کی آس لگائے بیٹھے ہیں اُن کی اس آس کا نتیجہ حسرت و یاس کے سوا کُچھ بھی نہیں ہے ، اٰیاتِ بالا کی دُوسری اٰیت میں دی گئی دُوسری مثال آلِ فرعون کے تاریک ماحول میں رہنے والی اُس عورت کی مثال ہے جس کو اُس تاریکی میں جو روشنی نظر آئی تھی وہ بڑھتے بڑھتے آفتابِ گیتی کی طرح ایک آفتابِ گیتی بن گئی تھی اور وہ ہدایت کے اُسی آفتابِ عالٙم تاب کو دیکھ کر اللہ تعالٰی پر ایمان لے آئی تھی ، قُرآن کی اِس مثال میں بھی اُس عورت کا فرعون کی بیوی و بیٹی یا آلِ فرعون کی کوئی دُوسری عورت ہونا مقصود نہیں بلکہ قُرآن کا مقصود اُس کا عورت ایمان و ہدایت پر ہونا ہے اور مُنکرین حق کے لئے اِس میں یہ پیغامِ ہدایت ہے کہ جو انسان حق طلب نہیں ہوتا وہ نبوت کے نُورانی سائے میں رہ کر ایمان سے محروم رہتا ہے اور جو انسان کا حق کا طلب گار ہوتا ہے وہ کفر کی سیاہی میں رہ کر بھی ایمان کی روشنائی کو دیکھ لیتا ہے اِس لئے جو لوگ کفر کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں اُن کو ایمان و یقین کے حصول سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ دینِ حق کو جاننے اور دینِ حق کو جان کر ماننے کے اُس مُثبت عزم و ارادے کی ضرورت ہوتی ہے جس مُثبت عزم و ارادے کا نتیجہ ہمیشہ ہی ایمان و یقین پر مُنتج ہوتا ہے اور قُرآن کی تسیری مثال آلِ عمران کی اُس پاک دل و پاک نظر خاتون مریم بنتِ عمران کی مثال ہے جس کی سیرت و کردار پر قُرآن کی ایک پُوری سُورت موجُود ہے لیکن اِس مقام پر اِس سُورت کی اِس آخری اٰیت میں اُس مومنہ خاتون کی سیرت و بصیرت کا جو بُنیادی جوہر انسانی نگاہ میں لایا گیا ہے اُس میں اُس کا اللہ کی کتابِ حق کے کلماتِ حق کی تصدیق کرنا ہے جو اِس اٙمر کی ایک قوی دلیل ہے کہ مُجرد ایمان کے لئے اہلِ حق سے کتابِ حق کا سننا بھی اگرچہ کافی ہوتا ہے لیکن اُس دینِ حق کی تعلیم و تفہیم اور اُس کے ابلاغ و تبلیغ کے لئے کتابِ حق کا اسی طرح سمجھ کر پڑھنا اور پڑھانا لازم ہوتا ہے جس طرح مریم بنتِ عمران نے اُس کتابِ حق کو سمجھ کر پڑھا تھا اور سمجھ کر پڑھایا تھا اور اُس کے اٙحکامِ نازلہ پر خود بھی عمل کیا تھا اور اپنے زمانے کے دُوسرے انسانوں کو بھی اُس پر عمل کی دعوت دی تھی ، قُرآن کی اِس تیسری مثال میں بھی قُرآن کا مقصود بالذات مریم بنتِ عمران کا تعارفِ ذات نہیں بلکہ قُرآن کا مقصود اُس نیک دل خاتون کی وہ اعلٰی صفات ہیں جن کا نتیجہ دُنیا و عُقبٰی کی نجات ہے ، قُرآن کی اِن دو امثال سے جو دو نتائجِ کلام ہمارے سامنے آتے ہیں اُن میں سے پہلا نتجہ یہ ہے کہ نُوح و لوط کی بیویاں بے بصیرت ہونے کے باعث اُس نُور کے فیض سے محروم رہیں جو اُن کے گھر میں جگمگا رہا تھا اِس لئے وہ انسانی تاریخ کی تاریخ سوز عورتیں ثابت ہوئی ہیں اور آلِ فرعون کی وہ عورت ایک با بصیرت عورت تھی اِس لئے جس طرح قومِ مُوسٰی کے ہادی و رہنما کو اللہ نے بذاتِ خود ایک تاریک شب کی تاریکی میں دُور سے اپنی تجلی دکھا کر اپنے قریب کر لیا تھا اسی طرح آلِ فرعون کی اُس پاک باز خاتون کو بھی اللہ نے بذاتِ خود دستِ مُوسٰی کی روشنی دکھا کر حق سے قریب کر دیا تھا اِس لئے آلِ فرعون و آلِ عمران کی وہ دونوں خواتین انسانی تاریخ کی تاریخ ساز عرورتیں ثابت ہوئی ہیں اور اِن امثال کے دو نتائجِ کلام میں سے جو دُوسرا نتیجہِ کلام ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح انسان کی تٙن سازی میں بُنیادی کردار باپ کے کماِئے اور کھلائے ہوئے رزقِ حلال کا ہوتا ہے اسی طرح انسان کی مٙن سازی میں زیادہ کردار ماں کی اُس سیرت و بصیرت کا ہوتا ہے جس میں اُس کی ایمانی سانسوں کی حلاوت و حرارت شامل ہوتی ہے اِس لئے اہلِ زمین کی جو عورتیں ایمان دار اور با کردار ہوتی ہیں وہ مُوسٰی و مسیح جیسے فرشتہ صفت انسانوں کو جنم دیتی ہیں اور جو عورتیں بے ایمان و بے کردار ہوتی ہیں وہ فرعون و ہامان اور شداد جیسے شیطان صفت انسانوں کو جنم دیتی ہیں ، باور کرنا چاہیئے کہ انسان اپنی اولاد کو جو سب سے عظیم تُحفہ دے سکتا ہے وہ عظیم تحفہ اُس کے لئے ایک اچھی ماں کا انتخاب ہوتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467745 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More