انسان کے مصائبِ جسم و جان اور اٙحکامِ قُرآن !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالتغابُن ، اٰیت 11 تا 13 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اٙستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ما
اصاب من
مصیبة الا باذن
اللہ و من یوؑمن
باللہ یھد قلبہ واللہ
بکل شئی علیم 11و
اطیعوا اللہ و اطیعوا
الرسول فان تولیتم فانما
علٰی رسولنا البلاغ المبین
12 اللہ لاالٰہ الا ھو و علی
اللہ فلیتوکل الموؑمنون 13
ہر وہ تکلیف دہ جانی و جسمانی احساس جو انسان اپنے جسم جان میں محسوس کرتا ہے وہ اُس وقت تک انسان کے جسم و جان تک نہیں پُہنچ سکتا جب تک کہ اللہ اپنے علمِ ذات سے اُس انسان کے دل میں اُس کی وہ قُوتِ نجات نہیں پُہنچا دیتا جو قُوت انسان کے جسم و جان سے اُس احساسِ جسم و جان کو ہٹانے اور مٹانے میں مدد دیتی ہے ، پھر جو انسان اُس ایمانی قُوت کو قبول کر لیتا ہے تو وہ اپنے جسم و جان میں آنے والے اُس احساس کو مٹانے کے وہ اٙسباب تلاش کرلیتا ہے جو اللہ و رسول کی عدمِ اطاعت کا ایک لازمی نتجیہ ہوتے ہیں اِس لئے اگر تُم اللہ کے اُس علاج پر بھروسا کرتے ہو جو ہمارے رسول نے بتایا ہے تو اِس میں تُمہاری نجات ہے اِس لئے کہ اللہ ہی وہ ہستی ہے جس کی اطاعت سے بہتر کوئی حکمت نہیں ہے اور جس کے علاج سے بہتر کوئی علاج بھی نہیں ہے اِس لئے ایمان دار انسان ہمیشہ اُسی ہستی کی حکمتِ جان پر ایمان لاتے ہیں اور اُسی ہستی کے علاجِ جان پر یقین رکھتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسان اپنی روز مرہ بول چال میں سینہ بہ سینہ اور زبان دٙر زبان چلنے والے جو بہت سے بے مقصد و بے معنی الفاظ بولتا ہے اُن میں عربی کا وہ لفظ مصیبت بھی شامل ہے جو زیرِ نظر اٰیت کے زیرِ نظر مقام پر وارد ہوا ہے ، اسمِ فاعل مصیبة جو فعل { اصاب یصیب } سے وارد ہوا ہے اُس کا لُغوی معنٰی سر کے بالوں کا جُووؑں سے بھر جانا ہوتا ہے اِس لئے جب بھی انسانی زندگی میں کوئی چھوٹی یا بڑی ، کوئی انفرادی یا اجتماعی مصیبت آتی ہے تو انسانی زندگی بھی رٙنج و درد سے اسی طرح بھر جاتی ہے جس طرح انسانی سر جووؑں سے بھر جاتا ہے اور ہم نے بھی اسی معنوی مناسبت کی بنا پر لفظِ مصیبت کے رٙنج و درد کو انسان کے اُس جانی و جسمانی احساس کے نام سے موسوم کیا ہے جس جانی و جسمانی رٙنج و درد کو انسان اپنے جسم و جان میں محسوس کرتا ہے لیکن مصیبت کے ساتھ مصیبت سے بھی بڑی جو مصیبت آتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ کبھی کبھی انسان اُس مصیبت کو اپنی نادانی کے باعث کاتبِ تقدیر کا ایک نوشتہ تقدیر سمجھ کر اُس سے فرار اختیار نہیں کرتا اور اگر کوئی فرار اختیار کرتا بھی ہے تو وہ اسی طرح کا ایک بے مقصد فرار ہوتا ہے جس طرح لفظِ مصیبت اُس کے لئے ایک بے مقصد لفظ ہوتا ہے ، قُرآنِ کریم نے اِس انسانی مصیبت کو 58 مقامات پر موضوعِ سُخن بنایا ہے لیکن مصیبت کے بارے میں قُرآن کے وہ فیصلہ کُن مقام صرف تین ہیں جن میں قُرآن نے مصیبت کے بارے میں اپنے وہ تین قوانین بیان کیئے ہیں جن قوانین میں سے پہلا قانون سُورٙةُ الحدید کی اٰیت 22 میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ہماری زمین کے جسم اور ہمارے اہلِ زمین کی جان کو اُس وقت تک کوئی بھی مصیبت نہیں پُہنچ سکتی جب تک کہ وہ مصیبت ہمارے نظامِ فطرت میں شامل ہو کر ہماری کتابِ فطرت کا ایک حصہ نہیں بن جاتی ، قُرآن کے اِس قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ ہماری اِس زمین میں ہمارا جو نظامِ فطرت کار فرما ہے اُس نظامِ فطرت کے تحت جسمِ زمین و جانِ اہلِ زمین پر اُس وقت تک کوئی آفت نہیں آتی جب تک اُس نظامِ فطرت میں اُس آفت کا کوئی سبب پیدا نہیں ہوجاتا اور وہ سبب ہماری کتابِ فطرت میں درج ہو کر نافذالعمل نہیں ہو جاتا اِس لئے انسان جب تک کتابِ فطرت میں درج ہونے والے اُن غیر فطری اسباب کو روکتا رہے گا تب تک وہ غیر فطری اسباب رُکتے رہیں گے اور اُن اسباب کے وہ نتائج بھی معطل رہیں گے جو نتائج اُن غیر فطری اسباب کا ایک مٙنطقی نتیجہ ہوتے ہیں ، انسانی مصیبت کے بارے میں قُرآن کا دُوسرا قانون ہے وہ ہے سُورٙةُالشُورٰی کی اٰیت 30 میں اِس طرح بیان ہوا ہے کہ مصائبِ جہان سے تُمہاری جان پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اِس جہان میں تُمہاری اپنی ہی کسی مٙنفی قُوتِ جان کا ایک مٙنفی رٙدِ عمل ہوتی ہے حالانکہ تُمہارے بہت سے مٙنفی اعمال کے مٙنفی نتائج سے اللہ تُم کو بچا بھی لیتا ہے اور انسان کی اِس مصیبت کے بارے میں قُرآن کا تیسرا قانون وہ ہے جو سُورٙةُالتغابن کی زیرِ نظر اٰیت میں بیان ہوا ہے اور اِس قانون میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہر وہ تکلیف دہ جانی و جسمانی احساس جو انسان اپنے جسم و جان میں محسوس کرتا ہے وہ اُس وقت تک انسان کے جسم و جان تک نہیں پُہنچ سکتا جب تک کہ اللہ تعالٰی اپنے علمِ ذات سے اُس انسان کے دل میں اُس کی وہ قُوتِ نجات نہیں پُہنچا دیتا جو قُوتِ نجات انسان کے جسم و جان سے اُس احساسِ جسم و جان کو ہٹانے اور مٹانے میں مدد دیتی ہے لیکن ہم نے اپنا اخذ کیا ہوا جو یہ مفہوم پیش کیا ہے اِس کے لئے قُرآن نے { باذن اللہ } کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی اللہ کی اجازت سے اُس مصیبت کا وجُود میں آنا ہوتا ہے جو عقلی و مٙنطقی اعتبار سے موجُود ہے لیکن وہ عملی طور پر اُس ہستی کی اجازت سے فعال ہوتی ہے جس ہستی نے اُس کو فعال ہونے سے روکا ہوا ہوتا ہے اِس لئے اجازت کا لفظ صرف اُس رُکی ہوئی مصیبت کو جاری کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جو مصیبت عام حالات میں تو غیر فعال ہوتی ہے لیکن بعض خاص حالات میں اُس غیر فعال مصیبت کو ایک خاص حُکم کے تحت فعال کردیا جاتا ہے ، قُرآنِ کریم کے اِس قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ مصیبت کو انسان کے لئے اللہ تعالٰی پیدا نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود سے خود ہی اپنے کسی مٙنفی عمل سے اپنی اُس مصیبت کو پیدا کرلیتا ہے لیکن اللہ تعالٰی انسان کی اپنے لئے پیدا کی ہوئی اُس مصیبت کو اپنے قانونِ رحم و کرم کے تحت ایک وقت تک ٹالتا رہتا ہے اور اُس مصیبت کو انسان تک صرف اُس وقت پُہنچنے دیتا ہے جب انسان کو مزید مصیبت سے بچانے کے لئے کوئی ہدایت و نصیحت دینا مقصود ہوتا ہے تاکہ انسان سنبھبل جائے اور مزید کوئی ایسی غلطی نہ کر پائے جو اُس کی پہلی چھوٹی مصیبت کے بعد کسی دُوسری بڑی مصیبت کا باعث بن جائے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467910 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More