اٙلجُمعة و اٙحکامِ اٙلجُمعة

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالجمعة ، اٰیت 1 تا 8 اٙلجُمعة و اٙحکامِ اٙلجُمعة اور حُکامِ اٙلجمعة !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یسبح للہ
ما فی السمٰوٰت وما
فی الارض المک القدوس
العزیز الحکیم 1 ھو الذی بعث
فی الامیین رسولا منہم یتلوا علیہم
اٰیٰتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتٰب و الحکمة و
کانوامن قبل لفی ضلٰل مبین 2 و اٰخرین منہم لما
یلحقوابہم و ھو العزیز الحکیم 3 ذٰلک فضل اللہ یوؑتیہ
من یشاء و اللہ ذو الفضل العظیم 4 مثل الذین حملوا التورٰة
ثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفارا بئس مثل القوم الذین
کذبوا باٰیٰت اللہ و اللہ لا یھدی القوم الظٰلمین 5 قل یٰایھا الذین ھادوا
ان زعمتم انکم اولیاء للہ من دون الناس فتمنوا الموت ان کنتم صٰدقین 6
ولا یتمنونہابدا بما قدمت ایدیھم واللہ علیم بالظٰلمین 7 قل ان الموت الذی
تفرقوا منہ فانہ ملٰقیکم ثم تردون الٰی عالم الغیب والشہادت فینبئکم بما کنتم
تعملون 8
عالٙم کے سارے آسمانوں کی ساری زمینوں میں بسنے والی ساری مخلوق اپنے باد شاہِ عالٙم کے جس علم و حکمت کے مطابق اپنے مقصدِ تخلیق میں مصروف ہے اُس بادشاہِ عالٙم نے اپنے اُس علم و حکمت کی تعلیم و تفہیم کے لئے تُمہاری علم سے محروم قوم میں اپنے اُس عالِم رسول کو مبعوث کیا ہے جو تُمہاری قوم کو ہماری وہ اٰیات سناتا ہے جن کو سُن کر اُس قوم کے اٙفرادِ قوم کی رُوح و جان کا تزکیہِ جان ہوتا ہے اور ہماری اِس کتاب کا وہ خزانہِ علم و حکمت اُن کی رُوح و جان میں راسخ ہوجاتا ہے اور اُس قوم کے بعد اِس عالٙم میں جتنی بھی اٙقوام آئیں گی اِس عالٙم کے اُس عالِم کے علم و حکمت کا یہ خزانہ اُن اٙقوام کی رُوح و جان میں بھی اسی طرح راسخ ہوتا رہے گا لیکن عالٙم کا وہ عالِم اپنی اِس کتابِ علم و حکمت کی یہ فضیلت اُسی قوم کو دیتا ہے جو اِس کتابِ فضیلت کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دیتی ہے اور جو قوم علم و حکمت کی اِس فضیلت کو دل و دماغ میں جگہ نہیں دیتی ہے تو وہ علم و حکمت کی اِس فضیلت سے محروم ہوتی ہے اور اُس کے مُدعیانِ علم کا حال اُس گدھے کی طرح ہوتا ہے جو عُمر بھر علم و حکمت کی کتابوں کو ایک بوجھ کی طرح اُٹھا کر چل رہا ہوتا ہے ، اگر یہ مُدعیانِ علم اپنے علم کے دعوے میں گدھے نہ ہوتے تو یہ موت کے بعد ملنے والی زندگی میں داخل ہونے کے لئے بیتاب ہوتے لیکن یہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ اپنے اِس دعوے میں سٙچے نہیں ہیں کیونکہ اُِن لوگوں نے اپنے آگے اپنے جو جُھوٹے اعمال بہیجے ہیں وہ اِس کتابِ علم و حکمت کے خلاف ہیں اِس لئے وہ موت سے ڈرتے ہیں لہٰذا اِن لوگوں کو ایک بار پھر بتا دیاجائے کہ اللہ جو تُمہارے ظاہر و باطن کو جانتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تُم نے اللہ کے دین میں کون کون سے فرقے بنائے ہیں اور کون کون سے فتنے اُٹھائے ہیں اِس لئے تُم جس روز اُس کے سامنے جاوؑ گے اُس روز وہ تُمہارے اِن سارے فرقوں اور اِن سارے فتنوں کی ساری تاریخ تُمہارے سامنے لے آئے گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا موضوعِ سُخن قُرآن کا وہ { یوم الجمعة } ہے جس { یوم الجمعة } کا مُفصل ذکر اِس سُورت کی آخری 3 اٰیات میں آرہا ہے اور اُن آخری 3 اٰیات سے پہلے اِس سُورت کی اِن پہلی 8 اٰیات میں اُس { الجمعة } کا جو پہلا مضمون وارد ہوا ہے وہ مضمون اُن آخری 3 اٰیات میں آنے والے آخری مضمون کا ایک کلمہِ تمہید ہے اور اِن 8 اٰیات میں وارد ہونے والے اِس کلمہِ تمہید کے بعد اِس سُورت کی اُن آخری 3 اٰیات میں جس قُرآنی { الجمعة } کا جو مضمون آئے گا وہ مضمون اِس سُورت کے اِس موضوعِ سُخن کا کلمہِ تکمیل ہو گا لیکن قُرآنِ کریم کے اِس اہم تریم مضمون { الجمعة } کو متنِ قُرآن کے عین مطابق سمجھنے کے لئے قُرآن کے اِس مضمون کے اِس تاریخی پس منظر کو بھی سمجھنا لازم ہے کہ قدیم عرب کے قدیم اہلِ عرب میں ہفتے کے اِن سات معروف دنوں کی جو گنتی ہوتی تھی وہ اِن سات دنوں کے سات اٙسماء کے ساتھ موسوم کی گئی کوئی گنتی نہیں ہوتی تھی بلکہ اِن سات دنوں کے سات اعداد کے مطابق اِن سات دنوں کی گنتی ہوتی تھی کیونکہ اُس قدیم زمانے میں ہفتے کے اِن سات اٙیام کے سات اسماء نہیں ہوتے تھے بلکہ اِن سات اسماء کے وہ سات اعداد ہی ہوتے تھے جن سات اعداد کے مطابق وہ لوگ ہفتے کے پہلے دن کو یوم الاٙحد کہتے تھے اور ہفتے کے دُوسرے دن کو یوم الاثنین کہتے تھے ، ہفتے کے تیسرے دن کو یوم الثلثاء کہتے تھے اور ہفتے کے چوتھے دن کو یوم الاربعاء کہتے تھے ، ہفتے کے پانچویں دن کو یوم الخمیس کہتے تھے اور ہفتے کے چٙھٹے دن کو یوم السدس کہتے تھے اور ہفتے کے ساتویں دن کو یوم السبعة کہتے تھے تاہم عہدِ نبوی میں اِن اعدادی نمبروں کے مطابق لکھے جانے والے اِن سات اٙیام کے سات نام بھی وجُود میں آ چکے تھے اور نزولِ قُرآن کے زمانے میں ہفتے کے اِن سات اٙیام کے جو سات معروف نام مقرر ہوئے تھے اُن مقررہ ناموں میں سے پہلا نام الاول تھا تو دُوسرا نام الاھود تھا ، تیسرا نام الجبار تھا تو چوتھا نام الدبار ، پانچواں نام المونس تھا تو چٙھٹا نام العروبة اور ساتواں نام الشیار تھا اور اِن سات ناموں میں جو چٙھٹا نام { العروبة } تھا وہی العروبة عہدِ نزولِ قُرآن کے بعد { الجمعة } کے نام سے مشہور ہوا تھا اِس لئے یہ بات طے ہے کہ سیدنا محمد علیہ السلام کی نبوت کے اور نبوت کے بعد ہجرت کے سارے برسوں کے دوران ہفتے کے اِن سات دنوں میں { یوم الجمعة } نام کا کوئی بھی دن شامل نہیں تھا ، یومِ جمعة کے اِس تاریخی پس منظر سے صاف ظاہر ہے کہ قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کی آخری اٰیات میں جس { الجمعة } کا ذکر کیا ہے وہ { الجمعة } وہ { الجمعة } ہر گز نہیں ہے جو ہر ہفتے کے ایک دن ہر قابلِ ذکر علاقے کی ہر مسجد کے ہر امام کی اقتدا میں ایک دوگانہ پڑھانے اور دو خطبات سنانے کے لئے منعقد کیا جاتا ہے اور اُس عمل میں اٙدا کرائی جانے والی دو رکعت نماز اور اُس نماز سے پہلے سنائے جانے والے دو خطبات کو نمازِ ظہر کی چار رکعت کا قائم مقام کہا جاتا ہے اور اِس چار عملی جمعہ کا خاص پہلو یہ ہے کہ اہلِ روایت کے نزدیک بھی اُن کے اِس چار عملی یومِ جمعہ کے ذریعے جو چار اعمال اٙنجام دیئے جاتے ہیں وہ نمازِ ظہر کی طرح کے فرض اعمال نہیں ہیں بلکہ نماز ظہر کی اُس فرض نماز کے قائم مقام اعمال ہیں اور اِس کے بعد شاید یہ بات بتانے کی کُچھ زیادہ ضرورت نہیں ہے کہ کوئی بھی غیر افضل عمل کسی بھی افضل عمل کی جگہ نہیں لے سکتا ، کُجا یہ کہ وہ اُس افضل عمل سے بھی کوئی افضل عمل قرار پائے یا یا افضل عمل قرار دیا جائے لیکن اہلِ روایت کے یہ لفظی مباحثے چونکہ قُرآن کی اِس علمی بحث سے خارج اٙز بحث ہیں اِس لئے ہم بھی اِن کو نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ اِس سُورت کی اِس تمہید سے اہلِ نظر کو ہم صرف اِس ایک اٙمر کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ قُرآن کا قُرآنی جمعہ اور انسان کا انسانی جمعہ دو ایسے الگ الگ جمعے ہیں جن میں سے ایک جمعے کی عملی صورت کو ہم ہر ہفتے کے ہر جمعے کو ہر جگہ پر بذاتِ خود دیکھتے ہیں اور دُوسرا علمِ قُرآن و حکمتِ قُرآن کا وہ { الجمعة } ہے جس کا پہلا مُفصل ذکر اِس سُورت کی دُوسری اٰیت میں ہوا ہے اور اِس کا دُوسرا مُفصل ذکر اِس سُورت کی اٰیت 9 ، 10 اور 11 میں آئے گا ، اِس سلسلہِ کلام کا حاصل یہ ہے کہ قُرآن جس الجمعة کا اپنی جن شرائط کے ساتھ ذکر کرتا ہے وہ الجمعة کسی فردِ عام یا جماعتِ عام کے حُکم سے مُنعقد نہیں ہوتا بلکہ اُس خاص مرکزِ ملت کے اُس خاص حاکم کے حُکم پر مُنعقد ہوتا ہے جس کو اسلامی مملکت کی مجلسِ شُورٰی نے اٙمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط کے ساتھ اپنے مرکز کا ایک فعال عامل و فعال حاکم بنایا ہوا ہوتا ہے اور وہ اِس الجمعة کے ذریعے تعلیمِ کتاب و تفہیمِ کتاب کے لئے ایک اعلانِ عام کے ذریعے اہلِ ریاست کو بلاتا ہے اور اُس کے بلانے کے اسی اعلانِ خاص کو الجمعة کہا جاتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467466 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More