اِیمانِ عورت و اِمتحانِ عورت

#العلمAlilm سُورٙةُالمُمتحنة ، اٰیت 10 تا 11 اِیمانِ عورت و اِمتحانِ عورت اور اِمتنان عورت !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھاالذین
اٰمنوا اذا جاءکم الموؑمنٰت
مھٰجرٰت فامتحنوھن اللہ اعلم
بایمانھن فان علمتمو ھن موؑمنٰت
فلا ترجعوھن الی الکفار لاھن حل لھم
ولا ھم یحلون لھن و اٰتوھم ما انفقوا و لا
جناح علیکم ان تنکحوھن اذ اٰتیتموھن اجور
ھن و لا تمسکوا بعصم الکوافر و سئلوا ما انفقتم
و لیسئلوا ما انفقوا ذٰلکم حکم اللہ یحکم بینکم واللہ
علیم حکیم 10 و ان فاتکم شئی من ازواجکم الی الکفار
فعاقبتم فاٰتوا الذین ذھبت ازواجھم مثل ما انفقوا و اتقوا
الذی انتم بہ موؑمنون 11
اے اہلِ ایمان ! مکے کے دارالکفر سے جو عورتیں ہجرت کر کے مدینے کے دارالاسلام میں آتی ہیں اُن کے ایمانِ دل کا حقیقی حال تو صرف اللہ کے علم میں ہے لیکن ہجرت کے بعد چونکہ اُن عورتوں کے انسانی حقوق مدینے کی اسلامی ریاست نے مُتعین کر نے ہیں اِس لئے تُم اُن عورتوں کے ریاستی حقوق کا باقاعدہ فیصلہ صادر کرنے سے پہلے اُن کے مُمکنہ ایمان کے بارے میں مُمکنہ چھان بین بھی کر لیا کرو اور اگر اُن عورتوں کے دعوہِ ایمان کی تُمہاری تحقیق سے بھی تصدیق ہو جائے تو تُم اُن عورتوں کو مکے کے دارالکفر میں لوٹانے کے بجائے ریاستِ مدینہ کے رہاشی حقوق دے کر مدینے میں ہی روک لیا کرو کیونکہ ایمان لانے کے بعد وہ مومنہ عورتیں اپنے کافر شوہروں کی قیدِ زوجیت سے آزاد ہو جاتی ہیں اور اُن کے کافر شوہر بھی اُن کے نان و نفقے کے معاہدے سے آزاد ہو جاتے ہیں لیکن اُن عورتوں کے کافر شوہر اُن عورتوں کی تقریبِ نکاح پر جو اخراجات کر چکے ہیں اگر وہ اخراجات اُن کو واپس کر دیئے جائیں تو اِس کے بعد کوئی مذائقہ نہیں ہے کہ تُم اُن عورتوں کے نان و نفقے کی ذمہ داری قبول کر کے اُن کو اپنے عقدِ نکاح میں لے لو اور اسی طرح تُمہاری جو عورتیں ابھی تک ایمان نہیں لائی ہیں تو تُم بھی اُن کو اپنے نکاح کے بندھن سے آزاد کرکے اُن کے نان و نفقے کے معاہدے سے آزاد ہو جاوؑ اور اگر تُم ریاستی سطح پر ہونے والی دو طرفہ بات چیت کے ذریعے اپنے یہ معاملات طے کر لو تو تُمہاری جو مُسلم عورتیں ابھی تک کافر مردوں کے نکاح کے بندھن میں بندھی ہوئی ہیں تُم بھی اپنی تقریبِ نکاح کے اخراجات اُن کی تقریبِ نکاح کے اخراجات کا مذاکرات کے ذریعے حساب برابر کر سکتے ہو ، تُمہارے اِختلافی امور کا یہ فیصلہ اللہ کے علم و حکمت پر مبنی ہے اِس لئے تُم نے ہر حال میں اِس پر عمل کرنا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اگر انسانی زندگی میں جبری و اختیاری ہجرت کا عمل انسان کے غار کے زمانے سے شروع نہ ہوا ہوتا تو عہدِ حاضر کا مُتمدن انسان آج بھی غار کے زمانے میں زندگی گزار رہا ہوتا اور انسانی ہجرتوں کے نتیجے میں وسیع ہونے والی یہ وسیع و عریض دُنیا آج اتنی وسیع و عریض نہ ہوتی جتنی وسیع و عریض یہ ہو چکی ہے اور جتنی وسیع و عریض یہ ہو رہی ہے ، قُرآن نے اپنی اٰیاتِ بالا میں جن عورتوں کی جس ہجرت کا ذکر کیا ہے وہ ہجرت بھی اُن ہی انسانی ہجرتوں میں سے ایک ہجرت ہے جن انسانی ہجرتوں میں کبھی کُچھ اٙفراد کے کُچھ خاندان باہم مل کر ہجرت کرتے ہیں اور کبھی کُچھ خاندانوں کے کُچھ اٙفراد فردا فردا بھی ہجرت کرتے ہیں ، اِن مہاجر انسانی قافلوں میں کبھی کُچھ مرد و زن کے مُشترکہ قافلے بھی باہم مل کر ہجرت کرتے ہیں اور کبھی کُچھ مرد و زن کے انسانی قافلے اپنے اپنے مقامی حالات کے مطابق ایک دُوسرے سے بچھڑ کر بھی ہجرت کرتے ہیں ، اِن مہاجر انسانی قافلوں میں اگرچہ اکثر مرد اکثر عورتوں سے پہلے ہی ہجرت کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی کُچھ کم کم عورتیں اُن زیادہ مردوں سے بھی زیادہ جلدی ہجرت کے اِس مرحلے سے گزر جاتی ہیں اور اِس طرح اہلِ ہجرت کے یہ انسانی قافلے ایک جگہ سے دُوسری جگہ پر ، دُوسری جگہ سے تیسری جگہ پر اور پھر تیسری جگہ سے کسی چوتھی جگہ پر ہمیشہ سے اسی طرح پر آتے جاتے رہے ہیں اور ہمیشہ ہی اسی طرح آتے جاتے رہیں گے ، انسانی تاریخ کا یہ نقلِ واقعہ بھی قُرآنِ کریم کا نقل کردہ وہ واقعہ ہے جس کے مطابق کُچھ لوگ مکے سے مدینے جانے والے پہلے مہاجر تھے اور کُچھ لوگ اِس کے بعد ہجرت کر کے مکے سے مدینے پُہنچتے رہے تھے اور یہ خواتین بھی اُن ہی مہاجر قافلوں کی وہ مہاجر خواتین تھیں جو وقتا فوقتا اِس واقعے سے پہلے بھی مکے سے ہجرت کر کے مدینے پُہنچتی رہی تھیں اور اِس کے بعد فتحِ مکہ تک مکے سے ہجرت کر کے مدینے پُہنچ رہی تھیں لیکن اہلِ روایت نے اِس انسانی ہجرت کے اِس عام انسانی واقعے کو صُلح حدیبیہ کے خاص واقعے کے ساتھ جوڑ کر ایک ایسا خاص واقعہ بنا دیا ہے جس نے صلح حدیبیہ کے معاہدے کے بارے میں ایسے بہت سے خاص سوالات پیدا کر دیئے ہیں جن کا ایک عام سا جواب بھی اہلِ روایت کی طرف سے آج تک سامنے نہیں آسکا ، اِن اٰیات کا اٰیاتی پس منظر صرف یہ ہے کہ اِن اٰیات میں پہلی بار اللہ تعالٰی نے اپنا یہ قانونِ معاشرت نازل کیا ہے کہ اِس سے پہلے جن مُسلم مردوں کے جن مُشرک عورتوں کے ساتھ اور جن مُشرک عورتوں کے جن مُسلم مردوں کے ساتھ نکاح و طلاق کے جو خاندانی فیصلے ہوتے تھے آج سے وہ تمام خاندانی فیصلے کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں اور اسلامی ریاست کے مُسلم مرد و زن کو اِس اٙمر کا پابند بنایا جاتا ہے کہ اِس حُکم کے بعد وہ کسی کافر مرد و زن کے ساتھ نکاح نہیں کر سکیں گے اور اِس مُمانعت کے بعد کافر مرد و زن بھی کسی مُسلم مرد و زن کے ساتھ مناکحت نہیں کر سکیں گے ، مزید براں یہ کہ اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں اہلِ ایمان کو اِن مہاجر عورتوں کے ایمان کے بارے میں جس جانچ پرکھ کے بارے میں جو ہدایت دی گئی ہے اُس ہدایت سے بھی اہلِ روایت نے یہ غلط استدلال و استنباط کیا ہے کہ عدالت کا ایک جج صرف اُن ظاہری شواہد کے مطابق تو فیصلے صادر کرنے کا پابند ہوتا ہے لیکن وہ اپنے علمِ معاشرت کی بنا پر کسی معاملے کی تحقیق و تفتیش کا پابند نہیں ہوتا لیکن اہل روایت کا یہ استنباط بھی اُن کے پہلے استدلال کی طرح ایک باطل استنباط ہے کیونکہ عدالت کا جج اپنے ذاتی فکر و نظر کے اعتبار سے ایک ایسا اندھا و بہرہ جج کسی عدالت کا جج بننے کا اہل ہوتا ہی نہیں ہے جو چند اندھے گواہوں کی لاٹھی پکڑ کر چلنے کا پابند ہو بلکہ اِس کے برعکس اہلِ عدل کی عدالت کا جج تو ہوتا ہی وہ بیدار مغز انسان ہے جو عدالت کے سامنے پیش کیئے جانے والے شاہد و شواہد کے سچے یا جھوٹے ہونے کے بارے میں بذاتِ خود بھی اپنی سوچ کو اپنے استعمال میں لا سکتا ہو اور اپنی سچی سوچ کو شاملِ فیصلہ بنا سکتا ہو اور یہی وہ نُکتہ ہے جس نُکتے کی بُنیاد پر اُس جج کے کسی فیصلے سے متاثر ہونے والے فرد یا افراد کو اُس کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جج کے سامنے لائے جانے والے مُجرد شواہد بھی حرفِ آخر نہیں ہوتے اور اُس جج کی مُجرد سوچ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی بلکہ حرفِ آخر وہ حقیقی تحقیق و تفتیش ہوتی ہے جو اُس معاملے کو امکان کی حد تک اُس نتیجے تک پُہنچا سکتی ہے جو نتیجہ انسانی فکر کے لئے قابلِ فہم ہوتا ہے اور اُس قابلِ فہم و فکر فیصلے میں منصف کا انصاف اہلِ نظر کو ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور یہ اُسی صورت میں مُمکمن ہوتا ہے جب عدالت کا ایک جج سننے والا ربوٹ نہیں ہوتا بلکہ سُننے اور سمجھنے والا ایک فعال انسان ہوتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467732 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More