قُرآن کی ہدایتِ اٙمن برائے اٙمن

#العلمAlilmسُورٙةُالمُمتحنة ، اٰیت 7 تا 9قُرآن کی ہدایتِ اٙمن برائے اٙمن اور اجازتِ جنگ بھی برائے اٙمن !!اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
عسی
اللہ ان یجعل
بینکم و بین الذین
عادیتم منھم مودة واللہ
قدیر واللہ غفور رحیم 7 لا ینہٰکم
اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین و
لم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوا
الیھم ان اللہ یحب المقسطین 8 انما ینہٰکم اللہ عن
الذین قاتلوکم فی الدین و اخرجوکم من دیارکم و ظاھروا
علٰی اخراجکم ان تولوھم و من یتولھم فاولٰئک ھم الظٰلمون 9
اے رشتوں کے فراقِ جان سے گزرنے والے انسانو ! تُمہارا وصالِ جان تُمہارے اعتبارِ ذات کے اعتبار سے اگرچہ ایک اٙمرِ بعید ہے لیکن اللہ کے اختیارِ ذات کے اعتبار سے بالکُل بھی اٙمرِ بعید نہیں ہے اِس لئے عجب نہیں ہے کہ اللہ جلد ہی تُمہارے درمیان اور تُمہارے دشمنوں کے درمیان دوبارہ وہی محبت پیدا کر دے جس سے تُمہارے فراق کے رشتے تُمہارے وصال کے رشتے میں بدل جائیں ، اللہ تُم پر اپنی جو بھی مہربانی کرنا چاہتا ہے وہ اپنی اُس مہربانی پر قُدرت رکھتا ہے اور اسی بنا پر تُم کو ہدایت دیتا ہے کہ جن لوگوں نے تُم سے ایک ظالمانہ جنگ کر کے تُم کو جلا وطن نہیں کیا ہے اُن کے ساتھ فتحِ مکہ کے بعد تُم نے حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کرناہے کیونکہ اللہ متواوزن انسانوں کے متوازن طرزِ عمل کی قدر کرتا ہے اور اللہ نے تُم کو صرف اُن لوگوں کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے سے روکا ہے جنہوں نے تُمہارے ساتھ اپنی دین دشمنی کے باعث وہ ظالمانہ طرزِ عمل روا رکھا ہے جس ظالمانہ طرزِ عمل کی بنا پر تُم اپنے گھر سے بے گھر اور اپنے وطن سے بے وطن ہوئے ہو لہٰذا تُم میں سے جو شخص اللہ کے اُن دشمنوں کے ساتھ دوستی بڑھائے گا وہ تو ضرور ایک دینی و قانُونی جُرم کا مُرتکب ہو گا لیکن جو شخص اُن کے ساتھ معمول کے انسانی تعلقات رکھے گا وہ کسی بھی دینی و قانونی جرم کا مُرتکب نہیں ہو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اللہ تعالٰی نے اپنے اِس جہان کو اٙمن کے اٙعلٰی اصول پر قائم رہنے اور اٙمن کے اٙعلٰی اصول پر قائم رکھنے کے لئے قائم کیا ہے اِس لئے اِس جہان کی بُنیاد صرف اٙمن ہے لیکن انسان کی حرص و ہوس اور جنگ و جدل سے وقتا فوقتا اِس جہان میں جو فتنے اُٹھتے رہے ہیں اُن فتنوں کے بعد اٙمن کا یہ جہان جنگ و جدل کی ایک آماج گاہ بن گیا ہے اِس لئے قُرآن نے اِس سُورت کی اِن اٰیات میں اپنے جو اصول اور جو ضابطے بیان کیئے ہیں اُن اصولوں اور ضابطوں میں جو پہلا مُستقل بالذات ضابطہ بیان بیان کیا ہے وہ قیامِ اٙمن کا وہی ضابطہ ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اور قُرآن نے اپنے اِس ضابطے میں اہلِ ایمان کو اُن کے اُن بدترین حالات میں بھی یہ بہترین حُکم دیا ہے کہ تُمہارے رشتوں کے فراق نے تُم کو اگرچہ دل گرفتہ بنا رکھا ہے لیکن یہ زندگی کے وہ مٙد و جزر ہیں جن سے انسان نے گزرنا ہی گزرنا ہے چاہے وہ خوشی کے ساتھ گزرے یا غم کے ساتھ گزرے لیکن انسان کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اِن حالات سے صبر کے ساتھ گزرے اور زمین پر زمین کے جو لوگ اِس بد امنی کے ذمہ دار ہوں وہ اُن کو برداشت کر کے اپنے پیدا کئے ہوئے اُن حالات کی تفہیم کا موقع دے تاکہ وہ اپنے پیدا کیئے ہوئے اُن حالات کو سمجھ کر اپنی تبدیلیِ ذات کے بارے میں غور و فکر کر سکیں اور عجب نہیں ہے کہ وہ اپنے اِس غور و فکر کے نتیجے میں خود کو بدل کر اِس دُنیا کے پائدار اٙمن کے لئے تُمہارے معاون و مدد گار بن جائیں اِس لئے کہ تُمہاری پہلی ترجیح بہر حال اٙمن قائم کرنا ہے اور معاشرے کے دُوسرے انسانوں کو حتی الامکان اٙمن قائم کرنے کا موقع دینا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب زمین کی ایک انسانی جماعت کی جانی و اٙنجانی غلطیوں سے کوئی دُوسری انسانی جماعت اپنی محبت کے رشتوں سے دُور ہو جاتی ہے تو اللہ تعالٰی اُن مُتحارب انسانی جماعتوں کو دوبارہ قریب لانے کا اہتمام بھی کرتا رہتا ہے تاکہ اِن انسانی جماعتوں کی وقتی عداوتیں اُن کی دائمی رقابتیں نہ بن جائیں اور انسان قیامِ اٙمن کے راستے سے زیادہ دُور ہو کر زمین پر مزید بد امنی کا باعث نہ بن جائے ، قُرآن نے اِن اٰیات میں بیان کیئے گئے اپنے اِس پہلے آفاقی ضابطے کے بعد دُوسرا آفاقی ضابطہ یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اہلِ ایمان کو ہر قوم کے ساتھ لڑنے کی کوئی کُھلی چُھٹی نہیں دی ہے بلکہ اِن کو صرف اُس قوم کے ساتھ ایک محدُود جوابی جنگ کی اِس شرط کے ساتھ مشروط اجازت دی ہے کہ وہ صرف اُس قوم کے ساتھ جنگ کر سکتے ہیں جس نے اُن کے ساتھ محض کسی قومی یا علاقائی دشمنی کی بنا پر جنگ نہیں کی بلکہ اللہ کے دین کو زمین سے مٹانے کے لیئے اُن کے ساتھ ظلم کر کے اُن کو گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن کیا ہے لیکن اُن کی اِس محدُود اور مشروط جنگ میں بھی اُن کو انتقام کے بجائے صبر اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے اور چونکہ یہ حالات فتحِ مکہ سے پہلے کے حالات ہیں اِس لئے اِن حالات میں اُن کو اِن اٙحکام میں اِس اٙمر کی مزید تلقین بھی کی ہے کہ فتحِ مکہ کے بعد وہ اپنے پرانے دشمنوں کے ساتھ ایک نئی طرح کی محبت اور ایک نئے طرزِ تعلق کی بنا ڈالیں تا کہ تُمہارے ہر فریق کے پرانے زخم مُندمل ہو جائیں اور دونوں فریق باہمی محبت کے ساتھ ایک دُوسرے کے ساتھ رہ سکیں لیکن اِس معاملے میں یہ احتیاط بہر حال ضرور برتی جائے کہ جو لوگ ابھی تک اللہ کے قانون کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں اُن کے ساتھ معمول کے انسانی مراسم سے بڑھ کر ایسے مراسم قائم نہ کر لیئے جائیں کہ وہ دوست بن کر اپنی دوستی کے پردے میں اٙمن کے اُس آفاقی نظریئے کو نقصان پُہنچا سکیں جس کو بچانا لازم ہے ، اِس سلسلہِ کلام کی آخری ہدایت یہ ہے کہ ہمارے اِن واضح اٙحکام کے بعد اہلِ ایمان کے جو اٙفراد اِن اٙحکام کی خلاف ورزی کریں گے وہ عنداللہ اور عندالناس قومی مُجرم تصور کیئے جائیں گے اور اُس سزا کے مُستحق ہوں گے جو سزا قانون کی اسی کتاب کے مُختلف مقامات پر موجُود ہے اور اِس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اٙمن کی یہ قُرآنی ہدایت اٙمن برائے اٙمن ہے اور جنگ کی جو محدُود اجازت ہے اُس کا مقصد بھی اٙمن کا قیام ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467685 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More