صدقِ اٰیات !

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمجادلة ، اٰیت 12 تا 13 (((((( صدقِ اٰیات و کذبِ روایات )))))) اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا الذین اٰمنوا
اذا نا جیتم الرسول فقدموا
بین یدی نجوٰکم صدقة ذٰلک خیر
لکم و اطھر فان لم تجدوا فان اللہ
غفوررحیم 12 ءاشفقتم ان تقدموا بین
یدی نجوٰکم صدقٰت فاذلم تفعلوا و تاب اللہ
علیکم و اقیموا الصلٰوة و اٰتواالزکٰوة و اطیعوا
اللہ ورسولہ واللہ خبیر بما تعملون 13
اے ایمان دار لوگو ! اگر تُم اللہ کے رسول کے ساتھ تخلیے میں جا کر بات اور ملاقات کرنا چاہتے ہو تو اِس ملاقات کے لئے جانے سے پہلے تُم اپنے مُتعارف اٙفراد کے ساتھ اپنا تعارف کرایا کرو اور اُس تعارف کے بعد اُس ملاقات کے لئے جایا کرو ، تُمہارا یہ عمل تُمہارے پاکیزہ ارادے کا اظہار اور تُمہارے عملِ خیر کا آئینہ دار ہو گا ، اگر تُم اپنے تعارفِ ذات کا اہتمام نہ کر سکو تو اِس کے با وجُود بھی اللہ کی ذات سے اپنی خطا پوشی اور مہربانی کی اُمید قائم رکھو اور اگر تُمہارے لئے اِس ملاقات سے پہلے تعارف کا یہ آسان سا عمل بھی مُمکن نہ ہو تو اصل چیز تو اللہ کا وہ نظامِ اطاعت ہے جس کا تُم حصہ بن چکے ہو اِس لِے تُم اُس نظامِ اطاعت کی اطاعت جاری رکھو اور اپنے نفس کی تطہیر بھی کرتے رہو ، تُمہاری اطاعت و تطہیر کا یہ عمل ہی تُم کو اُس صاحب ہدایت ہستی تک پُہنچا دے گا اور یاد رکھو کہ تُم جو بھی اعمال اٙنجام دے رہے ہو وہ اعمال اللہ کے علم میں ہیں اور تُمہارے اعمال کا صلہ بھی اللہ کے پاس موجُود ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
مُحوّلہ بالا اٰیات میں سے پہلی اٰیت میں لفظِ { نجوٰ } بمعنی سر گوشی کے بعد جو لفظ { صدقة } وارد ہوا ہے اُس کا مصدر { صدق } ہے اور صدق انسان کی وہ قلبی کیفیت ہے جس قلبی کیفیت کے اظہار کے لئے انسان جو لفظ کہتا ہے یا جو عمل کرتا ہے اگر اُس انسان کا وہ لفظ و عمل کہنے اور کرنے کے دونوں حوالوں سے درست ہوتا ہے تو اُس انسان کے اُس قولی و عملی اظہار کو اُس کی صداقت کہا جاتا ہے اور یہ صداقت اُس کا وہ ذاتی اعزاز ہوتا ہے جس ذاتی اعزاز کی بنا پر اُس انسان کی ذات اور اُس کی کسی بات کے بارے میں صدق و کذب کا حُکم لگایا جاتا ہے لیکن اہلِ روایت نے قُرآن کے اِس لفظِ { صدقة } سے اپنا وہ فقہی صدقہ مُراد لیا ہے جو صدقہ ایک صاحبِ مال انسان کی طرف سے نقدِ مال یا جنسِ مال کی صورت میں اُس مفلوک الحال انسان کو دیا جاتا ہے جس کی ذات کے لئے وہ صدقہ منفعت کا باعث ہوتا ہے اور اِس منفعت سے اہلِ روایت نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ عہدِ نبوی کے ایک خاص دور میں اللہ تعالٰی کا یہ حُکم آیا تھا کہ جو لوگ اللہ کے نبی کے پاس حاضر ہو کر اللہ کے نبی کے ساتھ سر گوشی کرنا چاہتے ہیں وہ پہلے نبی علیہ السلام کی خدمت میں صدقہ پیش کیا کریں اور اُس کے بعد نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے ساتھ سر گوشی کیا کریں اور ان اہل روایت و تفسیر نے اِس حُکم کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ نبی علیہ السلام سے جو لوگ حاضرِ خدمت ہوکر سر گوشی کرنا چاہتے تھے اُن لوگوں میں شہر کے اُن منافقین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہو چکی تھی جن کا مقصد نبی علیہ السلام کو محض تنگ کرنا اور آپ کا وقت ضائع کرنا ہوتا تھا اِس لئے اللہ تعالٰی نے یہ حُکم نازل کیا تھا تا کہ اُن لوگوں پر مالی بوجھ ڈال کر اُن کی حوصلہ شکنی کی جائے ، اہلِ روایت نے اپنی اِس روایت کو درست ثابت کرنے کے لئے سیدنا علی کے حوالے سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ جب اللہ تعالٰی کا یہ حُکم آیا تو نبی علیہ السلام نے مُجھ سے دریافت کیا تھا کہ اِن ملاقات کرنے والوں کے لئے کتنا صدقہ مقرر کیا جائے لیکن سوال کے بعد آپ نے خود ہی فرمایا کہ کیا اِس کے لئےایک دینار لینا کافی ہو گا ، جس پر میں نے عرض کیا کہ یہ بہت زیادہ ہے ، پھر آپ نے پوچھا کہ نصف دینار کے بارے میں تُمہارا کیا خیال ہے ، میں نے عرض کیا کہ یہ بھی زیادہ ہے جس کے بعد آپ نے مُجھ سے یہ پوچھا تھا کہ تُمہارے خیال میں اِس صدقے کی مقدارہ کتنی ہونی چاہیئے جس پر میں نے یہ عرض کیا کہ میرے خیال کے مطابق تو اِس صدقے کی مقدار ایک جٙو کے برابر سونا کافی ہوگا جس پر آپ نے فرمایا کہ تُم نے بہت کم مقدار مقرر کی ہے اور اہلِ روایت نے ایک دُوسری روایت سیدنا علی کی طرف یہ بھی منسوب کی ہوئی ہے کہ میرے سوا کسی نے بھی اللہ کے اِس حُکم پر عمل نہیں کیا کیونکہ میں نے اِس حُکم کے آتے ہی صدقہ پیش کیا اور نبی علیہ السلام سے ایک مسئلہ بھی پوچھ لیا حالانکہ اہلِ روایت کا یہ فقہی صدقہ اہلِ روایت کی اپنی روایات کے مطابق بھی نبی علیہ السلام کے لئے حلال نہیں ہے اور اُن کی اپنی ہی استعمال کی ہوئی اِس اصطلاحِ حلال کے مطابق جو چیز جس ہستی کے لئے حلال نہیں ہوتی ہے وہ چیز اُس ہستی کے لئے حرام ہوتی ہے اِس لئے اِس مُشکل سے بچنے کے لئے اہلِ روایت نے یہ روایتی حیلہ سازی کی ہے کہ یہ حُکم نازل ہونے کی کُچھ دیر بعد ہی منسوخ ہوگیا تھا اور قتادہ کے نزدیک اِس حُکم کے نافذ العمل رہنے کی مُدت ایک دن سے بھی کم رہی ہے اور مقاتل بن حیان کے نزدیک اِس حُکم کی زیادہ سے زیادہ مُدت دس دن تھی ، یعنی اللہ کا وہ حُکم تو زیادہ سے زیادہ دس دن تک ہی قائم رہا تھا جب کہ اِن اہلِ روایت کی یہ روایات آج تک قائم ہیں جنہوں نے اللہ کے اُس حُکم کو منسوخ کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگ کے دنوں میں رسول اللہ کی حفاظت کے نقطہِ نظر سے یہ حُکم آیا تھا کہ جو لوگ اِس جنگی ماحول میں رسول اللہ سے ملاقات کریں وہ پہلے اپنے مقاصدِ ملاقات کی تصدیق کرائیں اور اُس کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور اِس تعارف کے بغیر کسی شخص کو آپ کے قریب نہ جانے دیا جائے اور یہی وہ صدقِ آیات و کذبِ روایات ہے جس کو ہم نے اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں واضح کیا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467888 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More