ان کو وزير اعظم کی کرسی کبھی نہیں مل سکتی، پاکستان کی وہ سیاسی جماعتیں جو اقتدار تو لے لیتی ہیں لیکن ان کا وزيراعظم نہیں بن سکتا

image
 
پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو ایک حیرت انگیز بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں جب بھی جمہوری حکومت قائم ہوئی تو وزیر اعظم کی گدی پر بیٹھنے والوں کا تعلق یا تو پیپلز پارٹی سے ہوا یا پھر مسلم لیگ سے ان دو پارٹیوں کے علاوہ کسی اور جماعت کو پاکستان بنے سے لے کر 2018 تک اقتدار کا موقع نہ ملا- میوزيکل چئير کی طرح یہ لوگ باریاں اور کرسیاں بدلتے رہے اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہے تاہم 2018 کے الیکشن کے بعد پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا موقع ملا اور یہ دونوں پارٹیاں بیک وقت اپوزیشن میں نظر آئيں جو کہ تاریخ میں پہلی بار ہوا-
 
کچھ سیاسی جماعتیں جو ہمیشہ ہی اقتدار میں نظر آتی ہیں
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور حیرت انگیز مشاہدہ بھی پاکستان کی سیاست میں کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی منظر نامے پر کچھ سیاسی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو کہ کبھی بھی اقتدار سے الگ نہ ہوئيں۔ یہ جماعتیں ہمیشہ اقتتدار میں آنے والی پارٹی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیتیں جس کی وجہ سے یہ جماعتیں ہمیشہ اقتتدار کے مزے لوٹتی رہیں اور ان کے ارکان وزرا اور مشیر کے پروٹوکول انجوائے کرتے رہتے ہیں مگر اقتتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود یہ جماعتیں کبھی بھی وزیر اعظم کی مسند پر نہ بیٹھیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں بیٹھتی نظر آرہی ہیں-
 
1: ایم کیو ایم
ایم کیو ایم جس کو ابتدا میں مہاجر قومی مومنٹ کا نام دیا گیا سندھ کے شہری علاقوں کی جماعت بن کر ابھری۔ اس جماعت کا قیام 1978 میں ایک طالب علم الطاف حسین نے رکھی۔ ابتدا میں یہ جماعت کراچی یونیورسٹی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے طور پر رکھی گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ قومی سیاست کے دھارے میں شامل ہوتی گئی- 1988 میں ضیا الحق کی موت کے بعد ہونے والے الیکشن میں 13 سیٹوں کے ساتھ یہ جماعت کراچی اور شہری حلقوں میں سے ایک اہم جماعت بن کر ابھری اور اس کے بعد سے گزشتہ چونتیس سالوں سے اگرچہ اس جماعت کی سیاست سندھ کے شہری حلقوں سے باہر تو نہ نکل سکی مگر ہر اقتتدار سنبھالنے والی جماعت کی حمائتی بن کر یہ ہمیشہ اقتتدار میں شامل رہی اس دوران ان کو ایک بڑے عرصے تک سندھ کی گورنر شپ بھی ملی مگر اس کے باوجود وزیر اعظم کی سیٹ اس جماعت کے لیے نہیں بنی اور نہ ہی ایسے کچھ آثار نظر آرہے ہیں-
image
 
2: جمعیت علمااسلام (ف)
جمعیت علما اسلام (ف ) کی بنیاد 1988 میں رکھی گئی یہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی مذہبی جماعت ہے- اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت پی ڈي ایم کے سر براہ ہیں یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ 2018 میں یہ صرف ایک قومی اسمبلی کی سیٹ حاصل کر سکے-اس پارٹی کی بھی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اقتدار چاہے جمہوری ہو یا مارشل لا ہو دونوں صورتوں میں یہ حکمرانوں کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں- تاہم 2018 میں قائم ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وہ واحد حکومت تھی جنہوں نے اقتتدار کے لیے مولانا فضل الرحمان کی شمولیت نہیں کروائی یہی وجہ ہے کہ 2022 میں پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثيت سے پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے میں ان کا ایک بہت اہم کردار تھا- ان کو امید تو یہی تھی کہ اس تحریک کی کامیابی کے بعد وہ وزیر اعظم کی نہ تو صدر کی نشست پر بیٹھنے میں ضرور کامیاب ہو جائيں گے- مگر ان کی یہ خواہش کامیاب نہ ہو سکی اور نہ ہی ایسی کوئی امید نظر آرہی ہے کیوںکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی پارٹی کی قومی اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کم سے کم ہوتی جا رہی ہے-
image
 
3: مسلم لیگ ق
مسلم لیگ (ق) کا قیام 2001 میں اس وقت عمل میں آیا جب کہ ایک معاہدے کے نتیجے میں نواز شریف جلاوطن ہو چکے تھے اور مسلم لیگ ن کے لوگ بغیر کسی قیادت کے تتر بتر ہو چکے تھے- اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے چوہدری شجاعت کے ساتھ ایک ملاقات کی اور ان کو مسلم لیگ (‍ق) بنانے کا مشورہ دیا- اس جماعت کو عوامی مقبولیت تو حاصل نہ ہو سکی مگر اس وقت کے فوجی حکمران کے آشیر باد کے سبب ایک بے ضرر سے شخص جمالی کو جماعت کے بننے کے صرف ایک سال کے بعد وزير اعظم کی سیٹ مل گئی جب کہ پنجاب کے وزیر اعلی کی سیٹ پر چوہدری پرویز الہی کو بٹھا دیا گیا- تاہم اس کے بعد سے یہ جماعت مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت تو کر کے مختلف عہدے تو حاصل کرتی رہی مگر مسلم لیگ ن کے ساتھ اس کی جنگ برقرار رہی اور حالیہ دنوں میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی مدد سے صرف دس سیٹوں کی بنیاد پر پنجاب کے وزارت اعلی کی کرسی سنبھالنے میں کامیاب ہو گئی-
image
 
4: عوامی نیشنل پارٹی
قومی جمہوری پارٹی جب مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوئي تو اس کے ایک دھڑے سے عوامی نیشنل پارٹی بنائی گئی جس کی صدارت خیبر پختونخواہ کے قوم پرست خان عبدالولی خان اور جنرل سیکریٹری کی سیٹ سندھ کے قوم پرست رسول بخش پلیجو نے سنبھالی- اقتدار کے مزے لوٹنے کا اس جماعت کا سفر 1988 سے پیپلز پارٹی کے ساتھ اشتراک کی صورت میں سامنے آیا اور اس کے بعد جب مسلم لیگ ن اقتتدار میں آئی تو یہ اس کے بھی ہمنوا بن بیٹھے- اور اس طرح سے ان کا یہ سفر گزشتہ کئی سالوں سے کسی نہ کسی طرح اقتتدار میں شامل تو رہی مگر ان کے قوم پرست نظریات کے سبب ان کے وزیر اعظم کی مسند پر بیٹھنے کا امکان نظر نہیں آرہا ہے-
image
 
ایک جماعت جو اقتدار میں بھی نہیں آتی اور چین سے بیٹھتی بھی نہیں
جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے پرانی اور نظریاتی تحریک ہے جو اب ایک سیاسی جماعت کے طور پر بھی کام کر رہی ہے اس جماعت کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہ سب سے زيادہ منظم جماعت ہے- اس جماعت کا منشور ملک میں اسلامی نظام کا قیام ہے جس کے لیۓ وہ قیام پاکستان سے قبل سے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے کسی قسم کا سمجھوتہ کیا اور نہ ہی اقتدار کی چڑیا کو اپنے کاندھے پر بٹھایا بلکہ مستقل اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں- تاہم صوبائی اور قومی اسمبلی میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اس وجہ سے ان کےوزیر اعظم کی سیٹ پر بیٹھنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اس جائزے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب بھی وزیر اعظم کی سیٹ پر بیٹھنے والی پارٹیوں کی تعداد صرف تین ہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار کی چڑیا اس بار کس کے سر پر بیٹھتی ہے-
image
YOU MAY ALSO LIKE: