خیالا ت اور وسوسوں کا آنا ، ہر وقت سوچتے رہنا ، نیند کا غلبہ اورڈپریشن کی وجہ؟؟

گر آپ سوچتے ہیں تو آپ ٹھیک ہیں اللہ نے انسان کو صرف سوچنے والی مشین بنائی ہے عمل بہر حال بندے کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے اگر آپکو سوچ آتی ہے "اچھی یا بری" تو اس میں کوئی بھی پریشانی والی بات نہیں ۔

اگر آپ سوچتے ہیں تو آپ ٹھیک ہیں اللہ نے انسان کو صرف سوچنے والی مشین بنائی ہے عمل بہر حال بندے کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے اگر آپکو سوچ آتی ہے "اچھی یا بری" تو اس میں کوئی بھی پریشانی والی بات نہیں ہے۔

ایک شیطان کی طرف سے سوچ ہوتی ہے اور ایک رحمان کی یعنی اللہ کی طرف سے سوچ ہوتی ہے اب یہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کے آپ کس سوچ پر عمل پہرہ ہونگے۔ اگر آپ بری سوچ والا کام کرینگے تو آپ شیطان کے دوست لیکن اس کے برعکس اگر آپ اچھی سوچ والا کوئی بھی کام کریں گے تو آپ اللہ کے دوست ۔

آپ کا مثلہ یہ ہے کے آپ سوچتے رہتے ہیں پر عمل نہیں کرتے جسکی وجہ سے آپ ڈپریشن میں رہتے ہیں۔

ڈپریشن کیوں ہوتی ہے اسکو جانا بہت ضروری ہے ۔ ہر نفسیات کا علاج اپکے اپنے پاس ہے یعنی نفسیات کو نفسیاتی طریقے سے ڈیل کریں۔ سائکائٹرسٹ دوا دے کر آپکو سلا دیگا جو کہ ایک بھیانک عمل ہے جس وقت آپکو پریشانی کا مقابلہ کرنا تھا اس وقت آپ دوا کھا کر سو چکے ہوتے ہیں یا پھر مثلے سے دور بھاگ چکے ہوتے ہیں پھر جب دوا کا عصر ختم ہونے پر آتا ہے تو آپ دوبارہ اسی جگہ پر کھڑے ہوتے ہیں۔ تو دوا اس کا حل نہیں یا مثلے سے دور بھاگنا بھی حل نہیں ۔ پھر حل ہے کیا ؟؟؟؟؟

حل صرف اور صرف مقابلے میں ہے ہار یا جیت کی صورت میں۔ لیکن اگر یہ معلوم ہوجائے کے مقابلہ کرنا کیوں ہے ، کیسے کرنا ہے، ہھتیار کون سے ہونے چاہیے اور دشمن کے پاس کیا کیا چیزیں ہیں تو آپ مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ اب یہ کون بتائیگا ؟؟ جی تو یہ آپکو صاحب علم لوگ ہی بتاسکتے ہیں پہلے آپکو مقابلے کی پریکٹس سکھائی جائیگی ہتھیار کیسے اور کس وقت کون سے ہتھیار کو چلانا ہے ان سب کی ٹرینگ ہوگی پھر آپکو دشمن کے مدمقابل کھڑا کردیا جائے گا۔ آپ خود اپنا دفع کریں اور دشمن کو چاروں خانے چت کردیں۔ میرا کام صرف دماغ کی بتی جلانا ہے اب آپکا کام شروع ۔۔ آپ بلکل نارمل ہیں ،بہت سے لوگ مشورے اور علاج بتائینگے ۔ آپ بلکل نارمل ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ آپ ہی نارمل ہیں کہ آپ کے زہن میں سوالات آرہے ہیں ۔ لیکن نیند کا آنا بھی ایک اچھی علامت ہی ہے انسانی دماغ بہت ہی کوئی زبردست چیز ہے اگر اسکو مسلے کا حل نہیں ملتا تو یہ خود آٹو فیصلہ کرتا ہے کے اب نیند ہی بہتر ہے ورنہ تو جسم یا دماغ میں کچھ اور پیچیدگیاں پیدا ہو جانے کا ڈر ہے تو اسلئے زیادہ سوچتے سوچتے خود سے لڑتے لڑتے اگر پروگرام کسی لوپ میں پھنس جائے اوراس عمل میں غصے کا آنا نارمل بات ہے اس لوپ کے دوران ہمارا دماغ خودکار فیصلہ کرتا ہے کے اب اس انسان کے لئے سونا بہتر ہے لیکن یہ بات یاد رکھیں سونا وقتی طور پر نروس سسٹم کو بچانے کے لئے بہترین آٹو میٹک سسٹم ہے ۔ آپ کو معلوم ہے ایسا ہر کسی نارمل انسان کے ساتھ ہوتا ہے سمجھانے کے لئے یہ مثال دے رہا ہوں کے ہمارے سوالوں کا جواب ہی قرآن ہے۔ ہمارے نبی کے زہن میں بھی سوالات آتے تھے انہی سوالوں کا جواب قرآن کی شکل میں ان کو تحفے کے طور پر عطا کیا گیا۔ اور جو آپ کو یہ کہے کہ قرآن پڑھنے کے بعد آپکو اچھی نیند آجائیگی تو یقین جانیے اگر قرآن آپ کو سمجھ آگیا تو آپکی نیندیں ہی اڑ جائینگی جیسے صحابہ کی حالت تھی ۔ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا پر امید کرتا ہوں میری بات سمجھ آگئی ہوگی۔

وسوسے آنا سوچنا غور فکر کرنا ایک فطری عمل ہے ہاں آپ ان وسوسوں پر عمل کیا کررہے ہیں یہ ایک الگ بات ہے۔ شیطان کی طرف سے بھی سوچ آتی ہے اور اللہ کی طرف سے بھی سوچ ہی آتی ہے جسکا میں اوپر بار بار زکر کر چکا ہوں لیکن اب آپ نے دیکھنا ہے کس پر عمل کرنا ہے اگر شیطان کی سوچ یا جسے وسوسے کھ لو اس پر عمل کیا تو آپ نے شیطان کا ساتھ دیا اگر جو سوچ اللہ کی طرف سے آئی اور جو آپ کے مینول یعنی قرآن کے اور اللہ کے مطابق ہے اس پر عمل کیا تو آپ مومن اب فیصلہ آپ نے خود کرنا ہوگا کےکس سوچ پر عمل کریں۔ ایک اچھے استاد اور ایک شیطان مردود دونوں کا کام سوچ پیدا کرنا ہے عمل بہرحال آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے اسی چیز کا نام تو امتحان ہے۔ ایک وقت میں دو سوچیں آپ کے پاس ہوتیں ہیں ۔ now choice is yours .نہ اللہ آپکا ہاتھ پکڑ کے کوئی کام کراتا ہے نہ شیطان اور نہ ہی کوئی استاد یا معالجین ، کام یا عمل آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ خدا کی قسم جب تک آپ سوچ رہے ہیں آپ سو فیصد نارمل ہیں۔ ہاں سوچوں کا انبار لگا لینا اور عمل نہیں کرنا ڈپریشن اور انزائٹی اور غصے کو ہی بڑھاتا ہے آپ عمل کرنا شروع کردیں آپ سے شیطان یا اللہ کوئی کام لینا چاہ رہا ہے جو آپ کر نہیں رہے بہترین کام صرف سوچ کو سمجھنے کا ہے کہ کون سی سوچ اللہ کی طرف سے ہے اور کون سی شیطان کی طرف سے۔

انسان کے نفسیاتی مسائل کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ انسان کی نفسیات کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے۔ انسان کرہ ارض پہ وہ واحد مخلوق ہے جو جسم کے ساتھ ساتھ شعور کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ صلاحیت انسان کے لیے جتنی فائدہ مند ہے اتنی ہی باعثِ اذیت بھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک تو یہ کہ انسان کی جسمانی صلاحیتوں سے میل نہیں کھاتی اور دوسرا اس کا جسم پہ انحصار ہے۔ انسان کو قدرت نے ہر معاملے میں ادھورا تخلیق کیا ہے اور ان میں سے ایک یہ شعور بھی ہے۔ اسی لیے انسان کی بنیاد تشکیک پہ ہے نہ کہ ایمان پہ۔ علم کہ جستجو پہ ہے نہ کہ وہ کامل علم رکھنے والا ہے، طاقت کے حصول کی جستجو پہ ہے کہ نہ کہ وہ قادرِ مطلق ہے۔ اسی لیے ہر انسان کے ذہن اپنے متعلق، دنیا میں اپنے مقصد کے متعلق، خدا کے متعلق، دنیا کے وجود کے متعلق مسلسل خیالات آتے رہتے ہیں اور ہم میں سے اکثریت انہیں مسلسل اگنور کرتے رہتے ہیں جس کہ وجہ سے دماغ آہستہ آہستہ یہ سوالات پسِ منظر میں لے جاتا ہے۔ ایمان کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان کے پاس علم کے ذرائع کون سے ہیں۔ انسان چونکہ مادی جسم رکھتا ہے اس لیے یہ علم اسی جسم کا محتاج ہے۔ وہ چیزیں جو جبلت میں رکھ دی گئی ہیں ان سے ہٹ کر ہم اپنے ماحول سے علم دو طرح سے حاصل کرتے ہیں۔ اول یہ کہ اپنے سامنے کوئی چیز ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اسے ابزرو کر کے، یا کوئی ہمیں اس کے متعلق بتلاتا ہے۔ دوم عمل کر کے۔ہم جب کوئی عمل کرتے ہیں تو اس کے نتائج کی صورت میں ہمارے پاس نئی انفارمیشن حاصل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے اسے پتہ ہے کہ دودھ کیسے پینا ہے یہ چیز اس کی جبلت میں رکھ دی ہے لیکن اس سے آگے وہ کئی چیزیں اپنے ماں باپ کو ابزرو کر کے، ان سے سنی سنائی باتوں پہ یقین کر کے اور رسمی تعلیم اور معاشرے سے سن کر یقین کرتا چلا جاتا ہے۔ چھوٹی عمر میں ہر انسان ہر چیز کو یقین کہ نظر سے دیکھتا اور سنتا ہے کیونکہ اس کے پاس اس کو نہ ماننے کے لیے کوئی انفارمیشن اس کے پاس پہلے سے نہیں ہوتی جس سے وہ موازنہ کر سکے۔ یہیں سے ہمیں مذہب کے متعلق پتہ چلتا ہے، ماں باپ، معاشرہ، سکول، درسی کتابیں سب ہی مذہب کے متعلق بتاتے ہیں اور بچہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر ساری باتیں یقین کی حد تک نقش ہوتی جاتی ہیں۔ دوسرہ علم کی قسم وہ عمل کرنے سے سیکھتا ہے جیسے جب وہ چلنے کی کوشش کرتا ہے تو آہستہ آہستہ ہر اسٹیپ اس کے پاس نئی انفارمیشن آتی جاتی ہے اور وہ بتدریج چلنا سیکھ جاتا ہے، یہی کام بائیک چلانے سے گاڑی چلانے تک ہر موڑ پہ ہوتا ہے۔ اونچی جگہ سے گرتا ہے تو سیکھتا ہے کہ اونچی جگہ سے چھلانگ لگانے سے ہرٹ ہو سکتا ہے۔ مختصراً سیکھنے کے یہی دو طریقے ہیں۔ مذہب پہلے طریقے سے جڑ پکڑتا ہے اور دوسرے طریقے پہ مسلسل اثر انداز ہوتا ہے۔ اب اگر کسی انسان کا شعور کسی بھی وجہ سے پھر بیدار ہو جائے تو وہ بچپن میں دی گئی انفارمیشن کو مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ بالکل فطری ہے۔ مختلف خیالات اور وسوسوں کا آنا کسی بھی لحاظ سے انسانی فظرت کے خلاف نہیں ہیں لیکن یہ بہت اذیت ناک مرحلہ ہے اور اس کا حل صرف اور صرف غیر جانبدار ہو کر مسلسل مطالعہ کرنا ہے، اور سوچتے رہنا ہے اور ساتھ ساتھ دل ہی دل میں راہِ راست پہ رہنے کے لیے یہ دعا بھی کرتے رہنا ہے کہ اے خدا اگر تو موجود ہے تو مجھے ہدایت نصیب فرما۔ حتیٰ کہ اگر آپ کو خدا پہ یقین نہ بھی ہو تو بھی راہِ حق کی جستجو اور دعا برقرار رکھنی ہے۔ ان شاءاللہ آہستہ آہستہ یہ خیالات دم توڑتے جائیں گے۔ سلامت رہیں۔
 

IBY-Ismail Bin Yousuf
About the Author: IBY-Ismail Bin Yousuf Read More Articles by IBY-Ismail Bin Yousuf: 7 Articles with 2788 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.