پاکستان کی تاریخ کے منفرد ضمنی انتخابات

پاکستان کی تاریخ کے منفرد ضمنی انتخابات
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
صوبہ پنجاب میں ہونے والے 17جولائی 2022ء کے ضمنی انتخابات پاکستان کی تاریخ کے منفرد، مثالی اور سیاست دانوں کی آنکھیں کھول دینے والے ہوئے۔ بظاہر شکست نون لیگ کی ہوئی جس نے 20میں سے صرف 4 نشستیں حاصل کیں، در حقیقت یہ شکست نون لیگ کی نہیں بلکہ ان لوٹوں کی ہوئی ہے جنہیں نون لیگ نے تحریک انصاف سے توڑ کر اپنے کلیجے سے لگایاتھا، چمکاراتھا، پیار کیا، دلاسہ دیاتھا کہ پیارے پیارے لوٹو غم نہ کر و تم نے عمران خان سے بغاوت کی اور ہماری جھولی میں آن گرے ہو، ہم تمہیں اس کا ایساصلہ دیں گے کہ تم زندگی بھر نہیں بھولوگے۔ تم ہی نہیں بلکہ تاریخ میں تمہارا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لکھا جائے گا۔ لوٹے تو پھولے نا سمائے، شروع شروع میں تو ادھر ادھر چھپتے پھرے، جہاں یہ لوٹے جاتے لوٹا، لوٹا کی آوازیں سننے کو ملتیں، چور چور سننے کو ملتا۔جب مرکز میں اور پنجاب میں حکومت قائم ہوگئی تو انہیں بھی آزادی ملی اور وہ دندناتے ہوئے کوئی وزیر بن گیا، کوئی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیرئ مین تو کوئی قائد حزب اختلاف، قائد حزب اختلاف کی جو کارکردگی سامنے آئی اس کے بارے میں کچھ لکھنا بے سود ہے۔ جتنی صلاحیت جس میں ہے وہ اسی کا تو اظہار کرے گا وہ آئندہ بھی کریں گے۔
پنجاب میں ضمنی انتخابات کا مرحلہ آن پہنچا۔ حکومتی کارندے ایک سے ایک بڑھ کر پیش گوئی کررہے تھے۔ کسی نے کہا نون لیگ کلین سوئیپ کرے گی یعنی 20سیٹیں حاصل کرے گی، کسی نے کہا کہ 18، کوئی گویا ہوا تحریک انصاف کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ رانا ثناء اللہ کی پیش گوئی تھی کہ چار عمران خان کو اور 16نون لیگ کو ملیں گی۔ان کی پیش گوئی الٹ ہوگئی۔ نون لیگ کے لیڈر، مریم نواز کو چھوڑ کر سب پیش گوئیوں میں لگے ہوئے تھے، انتخابات کی جانب توجہ کسی کی بھی نہیں تھی۔ مریم نوازنون لیگ کی واحد لیڈر تھی جو انتخابی جلسے کررہی تھی، عمران خان کو آڑے ہاتھو ں لے رہی تھیں۔ان کی تقریروں کا محور صرف اور صرف عمران خان ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے اپنی کارکردگی، مستقبل کی حکمت عملی، مہنگائی پر کنٹرول، آئی ایم ایف سے معاملات، معیشت پر گفتگو، عوام کے مسائل پر کم کم گفتگو کی، ان کی گفتگو جارہانہ اندازلیے ہوئے تھی۔ اتحادی جماعتوں کو ایک طرف رہنے دیں اس لیے کہ ان کا انتخابات میں کوئی لینا دینا نہیں تھا،کم ہی اتحادی لیڈر کسی جلسے میں شریک ہوئے۔ رات ایک ٹی وی ٹاک شو میں پی پی کے رہنما قمر الزماں قاہرہ نے فرمایا کہ انتخابات میں ہمارا کوئی امیدوار ہی نہیں تھا، بات تو درست کہ موصوف نے، صرف اقتدار میں شریک کار ہیں۔نون لیگ کی کشتی ڈوبتی ہے تو ڈوب جائے۔ یہاں تک کہ میاں شہباز شریف بھی انتخابات کی سرگرمی سے دور رہے، وہ حکومتی امور میں ہی دلچسپی لیتے رہے،یا تو یہ نون لیگ کی پالیسی تھی کہ شہبازشریف حکومتی معاملات اور پالیمانی امور ہی دیکھتے رہیں گے اور مریم نواز سیاسی محاز پر ڈٹی رہیں گی۔ البتہ ملتان میں سید یوسف رضا گیلانی اور ان کا خاندان نون لیگ کے نمائندے کے حق میں خون پسینہ ایک کرتارہا، اس کے باوجود کامیابی نہیں ہوئی اور شاہ محمود قریشی کے بیٹے نے میدان مارلیا۔ مجموعی طور پر 20میں سے 15تحریک اتحاد نے جیتیں، 3نون لیگ کے مقدربنیں اور ایک آزاد امیدوار کے حصے میں آئی۔
عمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا جانا، تحریک انصاف کے کارکنوں کوپابند سلاسل کیا جانا، 25مئی کو حکومتی بربریت، خواتین اور بچوں اور تحریک انصاف کے کارکنوں پر تشدد، آنسوں گیس کا اندھا دھند استعمال، تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ پولیس کی بد سلوکی، اس سے قبل حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد، تحریک انصاف کے منتخب اراکین کو لوٹا بنانا، لوٹوں کا نون لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنا،عدالتوں کا رات 12بجے لگنا، طاقت ور قوت کا خاموش رہنا، امریکہ بہادر کا کردار اور اس پرعمل درآمد، شہباز حکومت کا قائم ہونا، وزارتوں کی بندر بانٹ، سب سے بڑھ کر شروع میں مشکل فیصلوں سے فرار پھر مشکل فیصلے کرناجس سے مہنگائی کا طوفان ملک میں آجاناایسے اقدامات اور فیصلے تھے کہ جن سے عوام کی ہمدردیاں عمران خان کی جانب بڑھتی چلی گئیں۔ اس دوران نون لیگ نے اپنا بیانہ جو میاں نواز شریف کا بیانیہ تھا ’ووٹ کو عزت دو‘ کو پس پشت ڈال دیا اس کی جگہ خدمت کو اپنا بیانیہ بنایہ، ساتھ ہی مزاحمتی بیانیہ کو زیادہ سامنے لایا گیا۔ میاں نواز شریف صاحب کا بیان روز نامہ جنگ میں فرمایا کہ ”مشکل فیصلوں کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم عوام کی رائے کا احترام کرتے ہیں“۔ ایک سمجھدار اور منجھے ہوئے سیاست داں کا یہی طرز عمل ہونا چاہیے۔ بعض ناعاقبت اندیش اب بھی عمران خان کو مزاہ چکھانے کی باتیں کر رہے ہیں۔نون لیگ کے لیڈروں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسارہے ہیں جو کسی طور بھی درست نہیں۔
انتخابی مہم کا کپتان نے بھر پور فائدہ اٹھایا، اس نے سخت محنت کی، ہر انتخابی حلقے میں بڑے بڑے جلسے کیے، مخالفین کی خامیوں کو بھر پور انداز سے بے نقاب کیا۔ جلسوں میں نون لیگ کے سر کردہ لیڈروں کی نہ اہلی کی ویڈیو عوام کو دکھائیں۔ یہ وجوہات باعث بنیں کپتان کی فتح کی۔ پنجاب تو نون لیگ کا گڑ ھ تھا، یہاں سے 1970ء کے عام انتخابات میں تو پاکستان پیپلز پارٹی جیت گئی تھی اس کے بعد پنجاب نواز شریف کا اٹوٹ انگ تھا۔ اس کا جس قدر افسوس نواز شریف کو ہوا ہوگا شاید کسی کو نہ ہوا ہو۔ یہ جنگ مریم نواز نے تن تنہا لڑی، نواز شریف کے قریبی ہونے کے دعوے دار اور ساتھی جو پاکستان میں تھے وہ جلسوں میں مریم نواز شریف کے کبھی دائیں کبھی بائیں کھڑے ہوکر یہ تاثر دیتے رہے کہ شاید نون لیگ کے ووٹرز انہیں دیکھ کر اپنی ہمدردریاں ان کے جانب کرلیں گے۔ میرا اشارہ پرویز رشید کی جانب ہے۔ان کے علاوہ بھی نون لیگ کے بڑے لیڈر انتخابی جلسوں میں دکھائی نہیں دیے۔ پوری مہم کابوجھ صنف نازک کے کاندھوں پر ڈال کر خود اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے درست کہا کہ نون لیگ کو پنجاب میں شکت ایسے ہی ہے جیسے پاکستان پیپلز پارٹی لاڑکانہ سے ہار جائے ویسے پی پی لیاری کی سیٹ ہارچکی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پہلی وفاقی حکومت ہے جس کی کسی بھی صوبے میں حکومت نہیں، اس لیے کہ موجودہ وزیر اعلیٰ اپنے عہدہ سے فارغ ہوچکے، پرویز الہٰی کے وزیر اعلیٰ بن جانے میں کوئی رکاوٹ دکھائی نہیں دے رہی۔
جن لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو کے 1970کے انتخابات یاد ہیں وہ گواہی دیں گے کہ رات جب پنجاب کی صرف 20سیٹو ں کا نتیجہ آرہا تھا 70کے انتخابات کا نقشہ سامنے آگیا۔ اس میں پی پی اسی طرح پورے ملک سے برتری حاصل کررہی تھی۔ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد سب سے اچھی بات یہ سامنے آئی کہ سب سے پہلے نون لیگ کے ملک احمد خان نے قومی ٹی وی پر آکر شکست تسلیم کی انہوں نے کہا کہ انتخابی نتائج بتارہے ہیں عوام نے پی ٹی آئی کا بیانہ قبول کیا، انہیں کیوں ووٹ ملے اس کا جائزہ لینا ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ بات عام انتخابات کی طرف جاتی ہے تو فیصلہ پارٹی قیادت کرے گی۔ اسی طرح نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز کا بیان بھی خوش آیند ہے انہوں نے انتخابی نتائج کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ ”عوامی فیصلے کے سامنے سرجھکانا اور کمزوریوں کی نشاندھی ہونی چاہیے“۔ دوسری جانب سے بھی جیت کی خوشی میں منفی بیانات سامنے نہیں آئے۔ تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر، فواد چودھری اور دیگر نے مثبت بیانات دیے۔ نون لیگ کے لیڈر وزیر داخلہ خاموش ہیں۔ دیکھا جائے تو نون لیگ کو اس حال کو پہچانے میں ایک کردار وزیر داخلہ کا بھی۔ نون لیگ کے بعض لیڈروں نے رانا ثناء اللہ کو تحریک انصاف کے لیے خوف کی علامت بناکر پیش کیا، بعض نے کہا کہ تحریر انصاف کچھ بھی کر لے ہمارے پاس رانا ثنا ء ہے۔یہی نہیں بلکہ رانا صاحب نے بھی اسی قسم کے بیانات دیے جیسے وہ تاحیات وزیر داخلہ کے عہدہ پر فائز ہوچکے ہوں۔ عوامی سیلاب بڑوں بڑوں اور طاقت وروں کو بھا کر لے جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کے انتخابات میں مخالفین کے بڑے بڑے پہاڑ ریت کی مانند انتخابی نقشہ سے غائب ہوگئے تھے۔ سیاست دانوں کو ایسے واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے۔
اب سیاست کا منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ کل شہباز شریف کے بیٹے صاحب لوٹ کے بدھو و گھر کو آئے۔ اگر پھر کسی قسم کی توڑ جوڑ، سودے بازی، گندی سیاست نہ کھیلی گئی تو عمران خان کی حمایت یافتہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بن جائے گا وہ چودھری پرویز الہٰی ہی سامنے آرہے ہیں۔ اب وفاق میں چھوٹے میاں صاحب کو حکومت چلانا یقینا مشکل ہوجائے گا۔ ادھر خیبر پختونخواہ بیچ میں اسلام آباد یعنی وفاقی حکومت ادھر پنجاب کی حکومت،بلوچستان میں ’باپ‘ کی حکومت، سندھ پی پی کاراج۔ کیا کریں گے چھوٹے میاں صاحب اور کیا کرے گا نون لیگ کا شیر وزیر داخلہ۔ نون لیگ اور اتحادی جماعتیں اب کیا فیصلہ کرتی ہیں۔ چند دن میں سامنے آجائے گا۔ محاز آرائی، لوٹا کریسی کا انجام سامنے آچکا، اب سیاسی جماعتوں کو افہام و تفہیم سے کام لیتے ہوئے عام انتخابات کی جانب بڑھنا چاہیے۔ ایک جانب 13جماعتیں دوسری جانب تنہا کپتان اور نتیجہ سامنے۔وفاق میں جو لوٹے اقتدار کے مزے لے رہے ہیں انہیں بھی تائب ہوجانا چاہیے۔ از خود مستعفی ہوجاناچاہیے، پنجاب میں لوٹوں کا انجام سامنے ہے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ لوٹے از خود مستعفی ہوجائیں، نون لیگ کے ٹکٹ کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ لوٹوں کے انجام سے سبق سیکھیں۔(18جولائی2022ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1287923 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More