مہنگائی اور ایف اے ٹی ایف


ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی کامیابی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو چکے ہیں جو کہ ایک حوصلہ افزا بات ہے لیکن یاد رہے کہ فیصلہ جولائی میں آنے والی ٹیم نے کرنا ہے جو پاکستان کے معروضی حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرے گی کے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھنا ہے یا نکالنا ہے ہم دعا گو ہیں کہ آنے والی ٹیم کو موجودہ حکومت کے وزیر اعظم جو منی لانڈرنگ کے کیس میں ضمانت پر ہیں نظر نا آئیں اور نیب کے قوانین کو تبدیل کرنے کے عمل کی پردہ پوشی رہے تو پھر یقیناً ہم یہ معرکہ سر کرنے میں کامیاب وہ جائیں گیں۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ایف اے ٹی ایف میں ممکنہ کامیابی کی سب سے بڑی وجہ پچھلی حکومت کی بہترین کارکردگی اور سول ملٹری تعلقات کی بہترین مثال ہے جس کا برملا اظہار آئی ایس پی آر بھی کر چکا ہے ایسے حالات میں کچھ دوست اس معاملے کو گڈ مڈ کرنے کے لئے ایک سوال گڑھ لائے ہیں کہ اگر پچھلی حکومت کی کارکردگی سے ایف اے ٹی ایف میں کامیابی ملی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آج کل معیشت کی تباہی کا ذمہ دار پچھلی حکومت کو نا ٹھہرایا جائے؟ اس ضمن میں کچھ باتیں ہیں جن کو سمجھنے کے بعد بات واضح ہو جائے گی۔

پچھلی حکومت کے اقدامات سے معیشت کا معاملہ سنبھلا ہوا تھا عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھنے کے باوجود بھی پچھلی حکومت نے اسے ایک حد تک منجمند کیا ہوا تھا اس سلسلے میں ساڑھے سات سو ارب روپے کی ایک خطیر رقم سبسڈی کے لیے مختص کی گئی تھی جو کہ زیادہ ٹیکس کلیکشن اور کچھ ترقیاتی فنڈ سے کٹوتی کرکے حاصل کی گئی تھی اس کے علاوہ روس سے سستا تیل خریدنے کے معاہدے پر بھی بات چیت چل رہی تھی جس کا یقینا فائدہ پاکستان کی عوام تک پہنچتا اب معاملات یہیں سے بگڑنا شروع ہوئے حکومت کو گھر بھیج دیا گیا اور ایک آہنی دیوار جو بین الااقوامی اداروں اور پاکستانی عوام کے درمیان موجود تھی اسے جانتے بوجھتے ہوئے گرا دیا گیا اور جن لوگوں کو اقتدار کے مسند پر بٹھایا گیا ان کی اپنی ساکھ دنیا میں کہیں نہیں تھی۔ نتیجتاً اورسیز پاکستانیوں نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے رقم کی ترسیل کم کر دی جس کی وجہ سے ڈالر کے ریٹ اوپر جانا شروع ہوئے سرمایہ داروں نے سرمایہ مارکیٹ سے نکالنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے اسٹاک ایکسچینج کریش کر گئی موجودہ حکومت نے آتے ہی سب سے پہلا کام سی پیک اتھارٹی کو ختم کر دیا یہ ادارہ پاکستان اور چائنا کے درمیان سی پیک کے معاملات کو براہ راست دیکھتا تھا نتیجتاً چین نے سستے بجلی گھر بند کر دیے جس کی وجہ سے پورا ملک لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہو گیا اس وقت سی پیک پر کام مکمل طور پر بند ہو چکا ہے اور تمام سرمایہ دار اپنا بوریا بستر لپیٹ کر چین واپس جا چکے ہیں۔ ملک میں اس وقت کوئی انویسٹمنٹ نہیں ہورہی ڈالر باہر سے پاکستان نہیں آرہا اور پاکستان نے جو دنیا سے خریداری کرنی ہے اس کا بوجھ قومی خزانے پر آ رہا ہے نتیجہ قومی خزانے میں دن بدن کمی ہوتی جارہی ہے خداناخواستہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔

جس بھونڈے انداز میں پاکستان میں رجیم چینج کیا گیا اور عوام نے سڑکوں پر آکر اس بات کی گواہی دی کہ وہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں غیر مستحکم سیاسی حالات پیدا ہو گئے ان غیر مستحکم سیاسی حالات کے پیش نظر پاکستان کے روایتی دوست ممالک سعودی عرب، چین، یو اے ای، قطر نے پاکستان کی امداد کرنے سے انکار کر دیا ان کا مطالبہ تھا کہ آپ پہلے آئی ایم ایف سے معاہدہ طے کریں اور پھر ہم آپ کی مدد کے لیے تیار ہیں لہذا حکومت کو آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر ناک رگھڑنا پڑی وہ آئی ایم ایف جو پچھلی حکومت کے دور میں اپنی بات منوانے میں ناکام رہا تھا موجودہ حکومت سے ہر جائز ناجائز بات منوانے میں کامیاب رہا نتیجہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ٹیکس میں اضافہ اور پھر مہنگائی میں اضافہ۔

پچھلی حکومت نے میانہ روی کی پالیسی اپناتے ہوئے سرکاری اشتہارات کی بندربانٹ پر پابندی لگا دی تھی جس سے پاکستان کے خزانے کو سالانہ اربوں روپے کی بچت ہو رہی تھی موجودہ حکومت نے آتے ہی صحافیوں کے لیے خزانے کے دروازے کھول دیے اور نتیجہ پچھلی حکومت کا بلیک آؤٹ ہم میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں پچھلی حکومت نے سرکاری خرچ پر ظہرانوں، عشاؤں اور غیر ملکی دوروں کا سلسلہ بند کیا ہوا تھا لیکن موجودہ حکومت نے آتے ہی اپنی سابقہ روایات کے مطابق اسے دوبارہ شروع کر دیا مطلب جو پیسہ پچھلی حکومت بچا کر عوام پر خرچ کر رہی تھی وہ موجودہ حکو مت نے آکر اپنے اللوں تللوں پر خرچ کرنا شروع کردیا سرکاری اخراجات پر وزیروں کے گھروں کی تزئین و آرائش کی خبریں تو آپ پڑھ چکے ہوں گے۔

غرض کے اس وقت موجودہ حکمرانوں پر دنیا کا کوئی ملک اور ادارہ بھروسا کرنے کے لئے تیار نہیں پاکستانی عوام نے جوک درجوک سڑکوں پر آکر فیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ اس حکومت اور نظام کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اوورسیز پاکستانیوں نے جو پچھلی حکومت کے دوران تیس ارب ڈالر سے زیادہ رقم پاکستان بھجوائی تھی اس میں شدید کمی بھی اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ اوورسیز پاکستانی جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں بھی ان حکمرانوں پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں اسٹاک ایکسچینج کے کریش ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ دار بھی اس حکومت پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں ٹیکسٹائل کی صنعت جو پچھلی حکومت کے دور میں ریکارڈ ایکسپورٹس کر رہی تھی بند ہونے کے دہانے پر آ چکی ہے گاڑیوں کی صنعت جو پچھلی حکومت کے دور میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی تھی تباہی کے دہانے پر ہے گاڑیوں کی بین الاقوامی کمپنیاں اپنے یونٹ بند کر کے ملک سے جانے کے لیے تیار ہیں۔ کسانوں کی خوشحالی کے لیے جو اقدامات پچھلی حکومت نے اٹھائے تھے اس کے نتیجے میں پاکستان میں دو سال سے بہترین فصل (bumper crop) ہو رہی تھی لیکن موجودہ حکومت نے آتے ہیں وہ تمام مراعات کسانوں سے واپس لے لیں جس کی وجہ سے کسان بھی سراپا احتجاج نظر آتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دوست ممالک سے قرض کے حصول کے لیے پچھلی حکومت کی معاونت کرتی رہی ہے لیکن موجودہ حکومت کی قرض کے حصول کے لیے معاونت کرنے میں اسٹیبلشمنٹ بھی اب تک ناکام رہی ہے یہ تمام اشارے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ رجیم چینج اور اس کے نتیجے میں لاکر بٹھائے گئے لوگوں کو دنیا قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت سرمایہ کاری نا ہونے کے برابر ہے اور جو سرمایہ کار موجود تھے وہ بھی اپنا سرمایہ نکال کر واپس جا رہے ہیں اب فیصلہ کرنے والے فیصلہ کر لیں کہ موجودہ تباہی عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے یا پھر رجیم چینج کا نتیجہ۔

موجودہ تباہ کن حالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ فوری اور شفاف انتخابات کرائے جائیں اور حکومت عوامی نمائندوں کے حوالے کی جائے تاکہ دور رس پالیسیوں کے ذریعے ملک کی راہ کو ایک مرتبہ پھر ترقی کی طرف گامزن کیا جا سکے۔
 

Imran Ahmed Memon
About the Author: Imran Ahmed Memon Read More Articles by Imran Ahmed Memon: 8 Articles with 5981 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.