سری لنکا: میں معاشی بحران اور پرتشدد مظاہروں کے بعد ایمرجنسی نافذ

ہمیں سری لنکا کے موجودہ بحرانی کیفیت سے سیکھنے کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ہم بھی سری لنکا جیسے حالات سے دوچار ہوں اور سیاسی اور معاشی بحران ہمیں لے دوبے۔ آئیں سری لنکا کیحالات پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیں۔

سری لنکا نے 1948 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ اپنی آزادی کے بعد سے اب تک کے بدترین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے اور کئی ماہرین نے موجودہ مسائل کا ذمہ دار غلط اقتصادی فیصلوں کو قرار دیا ہے۔ سری لنکا جسکی آبادی 21۔2 ملین ہے یہ 25332 مربع میل پر محیط ہے یہاں سنہالی، تامل اور انگریزی بولی جاتی ہے۔ یہ خطہ بدھ، ھندو، عیسائی اور مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مردوں کی اوسط عمر 72 جب کہ خواتین کی اوسط عمر 78 سال ہے۔یہاں کی کرنسی روپیہ کہلاتی ہے۔ 1905 میں پرتگیزی کولمبو میں تجارت کی غرض سے یہاں آئے۔1833 میں یہ جزیرہ برطانیہ کے زیر تسلط رہا. 1949 میں ہندوستان نے سنہالیوں کو تیار کیا اور انہوں نے ایک مہم شروؑع کی جسکے نتیجے میں یہاں کے تامل لوگ جو اقلیت میں تھے وہ اجنبی بن کے رہ گئیے۔ اسکا پرانا نام سیلون تھا جسے 1972 میں تبدیل کر کے سری لنکا رکھ دیا گیا۔ 1976 میں تاملوں نے ایک تنظیم بنائی جسکانام لبریشن اف تائیگرز تامل رکھا گیا جو مختلف اوقات میں اپنی جدو جہد میں مصروف رہے اور کارروائیاں کرتیرہے پھر ایک وقت آیا جب 1983 میں خانہ جنگی کی کیفیت شروؑع ہو گئی اور وقفے وقفے سے 70،000 سے 80000 لوگ لوقمۂ اجل بنے۔ اپریل 2019 میں تامل ٹائگرز نے عبادتگاہوں اور ھوٹلوں پر حملہ آور ہو کر 350 لوگوں کو خود کش حملے میں ہلاک کر دیا۔ علیحدگی پسند تامل ٹائگرز کی ٹیم کے ایک لیڈر ویلوپیلا پربھا کرن ایک جھڑپ میں مارا گیا۔

سری لنکا کے وزیراعظم مہنداراجاپکشے نے پیرکو تجارتی دارالحکومت کولمبو میں حکومت نوازاورمخالفین کے درمیان پُرتشدد جھڑپوں کے چند گھنٹے کے بعد اپنے عہدے سے استعفا دے دیا ہے۔ انکیخاندان کے خلاف کرپشن کے الزامات تھے۔ مہندا راجاپکشے نے ملک کی دولت لوٹنے کے لیے اپنے خاندان کا راستہ ہموار کیا۔‘ سری لنکا میں مظاہروں کے دوران خاندان سے ملک کا ’لوٹا پیسہ‘ واپس کرنے کے لیے بورڈز اور نعروں کی صورت میں مطالبات سامنے آتے رہے۔

دوکروڑ بیس لاکھ نفوس پر مشتمل جزیرہ نما سری لنکا بھر میں گذشتہ کئی روزسے حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اورمظاہرین صدر گوتابایا راجاپکشے اور ان کے بڑے بھائی وزیراعظم مہندا راجاپکشے سے ملکی معیشت کو غلط طریقے سے چلانے پر عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کررہے تھے۔
مظاہرین نے جمعرات کو کولمبو میں صدر گوتابایا راج پکشے کی ذاتی رہائش گاہ کے قریب رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی۔ جس کے بعد سے فوج کو تعینات کیا گیا ہے اور اب اسے بغیر وارنٹ کے مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ سری لنکا ایک بڑے معاشی بحران سے دوچار ہے جو کہ جزوی طور پر غیر ملکی کرنسی کے زخائر میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ 2 کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس ملک کو بڑے پیمانے پر بجلی کی لوڈشیڈنگ، ایندھن، ضروری اشیائے خوردنی اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے جس کے سبب عوام کا حکومت کے خلاف غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہپے۔ جمعرات کو صدر راج پکشے کے گھر کے باہر احتجاج پرامن طور پر شروع ہوا، لیکن شرکاء کا کہنا تھا کہ پولیس نے آنسو گیس، واٹر کینن فائر کیے اور وہاں موجود لوگوں کو زدوکوب کیا جس کے بعد معاملات پرتشدد ہو گئے۔ اور مظاہرین نے احتجاج کے دوران پولیس پر جوابی پتھراؤ کیا تھا۔جسکے نتیجے میں ان جھڑپوں کے دوران مبینہ طور پر کم از کم دو درجن پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں گذشتہ رات 5000 سے زیادہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور صدر گوتابایا راج پکشے کے گھر کی طرف ریلی نکالی۔ ہزاروں افراد نے سری لنکا کے صدر راج پکشے کے گھر کی طرف ایک احتجاجی ریلی نکالی اور ملک میں جاری شدید معاشی بحران کے باعث ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ ان مظاہرین میں کئی نامعلوم سوشل میڈیا کارکن بھی شامل تھے۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں مرد اور خواتین صدر راج پکشے اور ان کے خاندان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے، اور مطالبہ کر رہے تھے کہ طاقتور راج پکشے خاندان کے تمام افراد مستعفی ہو جائیں۔

سری لنکا میں جمعرات کے روز ہونے والے صدارتی الیکشن میں موجودہ صدر مہندا راجا پکشے کو شکست ہو ئی ہے۔ انہوں نے انتخابات میں اپنی ناکامی تسلیم کر لی ہے۔ اُنہیں صدارتی الیکشن میں شکست اُن کی کابینہ کے سابق وزیر صحت میتھری پالا سری سینا (Maithripala Sirisena) نے دی ہے۔ مہندا راجا پکشے نے گزشتہ برس نومبر میں قبل از وقت صدارتی الیکشن کروانے کا اعلان کیا تھا۔ نئے منتخب ہونے والے صدر امکاناً جمعے کو شام چھ بجے آزادی چوک میں اپنا حلف اٹھائیں گے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق الیکشن میں کامیابی کے حصول کے لیے سری سینا نے ملک کی بچی کھُچی اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لیا تھا۔ جمعرات کے الیکشن میں نو منتخب صدر میتھری پالا سری سینا کو 52 فیصد سے زائد ووٹ حاصل ہوئے جبکہ مہندا راجا پکشے کے حق میں 46 فیصد سے زائد ووٹ پڑے۔ نو منتخب صدر سری سینا نے صدارتی الیکشن کے شفاف انعقاد پر مہندا راجا پکشے کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ راجا پکشے نے شفاف الیکشن کی راہ ہموار کر کے میری کامیابی کو ممکن ہونے دیا۔ گزشتہ روز کے انتخابات کو سری لنکا کی تاریخ میں انتہائی پرامن اور شفاف الیکشن قرار دیا گیا ہے۔ سری لنکن الیکشن کمیشن کے مطابق سری سینا نے اپنی کامیابی کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ الیکشن ہارنے والے صدر نے انتقال اقتدار پرامن انداز میں منتقل کرنے کا یقین دلایا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ مہندا راجا پکشے کی مقبولیت میں اُس وقت بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا جب انہوں نے تامل علیحدگی پسندوں کی تحریک کا مکمل صفایا کر دیا تھا۔ اب اُن کی غیر مقبولیت کی وجہ اقربا پروری بیان کی جاتی ہے۔

تنازعات کے باوجود راجاپکشے خاندان سری لنکن سیاست پر اجارہ داری قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ گوتابایا راجاپکشے کے چار بھائیوں کے علاوہ بھی اس خاندان کے کئی ارکان عوامی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں مہندا کے بیٹے نمل اور یوشیتھا ہیں۔ نمل حال ہی میں سری لنکا کے وزیرِ کھیل رہ چکے ہیں اور یوشیتھا اپنے والد کے استعفے تک وزیرِ اعظم کے چیف آف سٹاف تھے۔ لیکن اس خاندان کو سنہ 2015 میں صدارتی انتخاب میں مہندا کی غیر متوقع شکست سے دھچکا پہنچا تھا۔ وہ چار سال بعد ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آئے اور اس مرتبہ اقتدار کی باگ ڈور گوتابایا کے ہاتھ میں تھی۔ سری لنکن آئین کے تحت سابق صدر دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ نئے صدر بھی راجا پکشے کی طرح سنہالی اکثریتی آبادی سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کو خاص طور پر اقلیتوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ الیکشن کا نتیجہ سامنے آنے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے نومنتخب صدر سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں مبارک باد دیتے ہوئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سری لنکا کے صدارتی الیکشن میں شکست کھانے والے صدر مہندا راجا پکشے کی جانب سے اقتدار کی پرامن منتقلی کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ پکشے کی جانب سے شکست تسلیم کرنے کو بھی امریکی وزیر خارجہ نے تحسینی انداز میں لیا ہے۔ کیری نے انتخابات کے کامیاب انعقاد کا پورا کریڈٹ عوام کو دیا ہے جنہوں نے جُوق در جُوق پولنگ میں شریک ہو کر اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ انتخابات سے قبل امریکی وزیر خارجہ نے مہندا راجا پکشے سے کہا تھا کہ وہ صدارتی الیکشن کو تشدد سے پاک رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔۔

سری لنکاکے وزیراعظم مہندا راجاپکشے جھڑپوں کے بعد کرفیو نافذ کر دا گیا ہے۔اور وہ مستعفی،ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ 76 سالہ تجربہ کار سیاستدان نے اپنے عہدے سے استعفادے دیا ہے اور انھوں نے اپنا استعفا صدرگوتابایا راجاپکشے کو بھیج دیا ہے۔ ’مہندا راجاپکشے کا استعفیٰ ایک ایسے شخص کی قسمت میں شرمناک تبدیلی ہے جو کئی برسوں سے ملک کا طاقتور ترین شخص تھا۔‘

انھوں نے اپنے استعفا کے لیٹر میں لکھا ہے کہ وہ عبوری، اتحادی حکومت کی تشکیل میں مدد کے لیے عہدہ چھوڑ رہے ہیں لیٹر میں کہا گیا ہے کہ متعدد متعلقہ فریقوں نے موجودہ بحران کا بہترین حل عبوری کل جماعتی حکومت کی تشکیل کوقراردیا ہے۔اس لیے میں نے عہدے سیاستعفا دے دیا ہے تاکہ آئین کے مطابق اگلے اقدامات کیے جا سکیں۔ دریں اثناء تشدد کے واقعات کے پیش نظرپولیس نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔اس تصادم کا آغازحکمران جماعت کے سیکڑوں حامیوں اور صدارتی دفتر کے باہر حکومت مخالف احتجاجی مظاہرین کے درمیان تشدد آمیز جھڑپوں سے ہوا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے جائے وقوعہ کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ پر وقت سے پہلے ایک لکیر کھینچ دی تھی لیکن اس نے حکومت نواز مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ حکومت نوازوں نے، جن میں سے کچھ لوہے کی سلاخوں سے لیس تھے، گذشتہ ماہ شروع ہونے والے’’گوٹا گو گاما‘‘خیمہ بستی میں حکومت مخالف مظاہرین پرحملہ کیا تھا اوراس کے بعد ملک گیر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ پولیس نے تصادم کوروکنے کے لیے آنسو گیس کے گولوں اور پانی توپ کا استعمال کیا۔کولمبو میں مارچ کے آخرمیں مظاہرے شروع ہونے کے بعد حکومت کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان یہ پہلا بڑا تصادم تھا۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.