" بھارت"... ایک اوباش آوارہ مزاج ریاست

اس خطہ ارض پر سب سے بڑے فتنہ و فساد کی آماجگاہ, شریر, ہنگامہ پرور اور اقلیتوں کی نسل کشی کرنے والی ریاست اگر کوئی موجود ہے تو وہ بلاشبہ بھارت ہے, کوئی بھی محقق یا تاریخ دان اپنی تحقیق و تدقیق کی کدال سے حقائق کی زمین کھود کر اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہاں "ہندو توا" کے پودے کو اقلیتوں کے خون سے کس طرح سے سینچا کیا گیا, اور اس مہلک اور زہریلے درخت کے سائے میں " آر ایس ایس " اور "بجرنگ دل" جیسی تنگ نظر درندہ صفت تنظیمیں کیسے پلتی بڑھتی رہیں, اور اقلیتوں کے مذہبی تشخص اور پہچان کو مسخ کر کے ہندو ازم کے فروغ میں کس طرح کے باؤلے پن کا مظاہرہ کیا گیا, یہ سب ہندوستانی تاریخ میں ایک سیاہ باب کی شکل میں اب محفوظ ہو چکا ہے۔

بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے ظالمانہ ، امتیازی اور شرمناک سلوک کے بے شمار واقعات چپے چپے پر بکھرے پڑے ہیں۔ جون 1984ء کو امرتسر میں سکھوں کی ایک بہت بڑی عبادت گاہ ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ پر انڈین آرمی نے چڑھائی کر کے اسے نہ صرف مسمار کر دیا, بلکہ اسی پاداش میں مظاہرہ کرنے والے ہزاروں نہتے سکھوں کو گولیوں سے بھون ڈالا, ایک اندازے کے مطابق ان واقعات میں 5 ہزار سے زائد سکھوں کا خون اس وقت کی بھارتی سرکار کے سر تھا, جو بعد میں سکھوں کی علیحدگی کی تحریک کو تقویت دینے کا سبب بنا۔ اسی طرح اکتوبر 2015ء کو بھارتی پنجاب کے علاقے فریدکوٹ میں متعصب ہندوؤں نے ایک گردوارے کے قریب سکھوں کی مقدس کتاب "گرو گرنتھ" کے سو سے زائد مسخ شدہ نسخے پھینک دئیے۔ اطلاعات کے مطابق ان نسخوں کو گردوارے سے کچھ روز پیش تر چور ی کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے خلاف احتجاج کرنے پر پولیس نے مظاہرین پر گولی چلا دی جس سے درجنوں سکھ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ لاتعداد مظاہرین کو گرفتار کرکے ان پر تشدد کیا گیا۔ بعد ازاں پے در پے "گرو گرنتھ" کی بے حرمتی کے واقعات بڑھے اور جالندھر، لدھیانہ ، امرتسر، کوٹ کپور میں فسادات نے زور پکڑا, اور قتل و غارت گری کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے, اس کے بعد سکھوں کی اس مقدس کتاب کی بے حرمتی کر کے چھے مزید بڑے واقعات ہوئے جن میں سکھ کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو شدت کے ساتھ مجروح کیا گیا تھا۔

اسی طرح بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ تو ویسے ہی زبان زد عام ہے جس میں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بے دردی سے کچلا گیا, اس واقعے میں ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ہندو انتہا پسندوں کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی, اور کس طرح سے یہ ملیچھ ہندو خانہ خدا میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے اور اس کے در و دیوار کو اپنے ناپاک ہاتھوں سے مسمار کرتے رہے, اس سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی ساری دنیا پر عیاں ہو گئی۔ 2002ء میں بھارتی ریاست گجرات میں پانچ ہزار مسلح ہندوؤں نے سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کی آبادیوں پر حملے کر کے کئی بستیوں کو آگ لگا دی, جس میں سینکڑوں نہتے مسلمان بچے اور عورتیں زندہ جل کر راکھ ہو گئے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی کس قدر بدقسمتی ہے کہ اس وقت کا گجرات کا وزیر اعلیٰ "نریندر مودی" جس کی آشیر باد پر یہ سارا سانحہ ہوا اب آج کے بھارت کا وزیر اعظم ہے۔

بھارت میں عیسائیت بھی ایک بڑی اقلیت کی شکل میں موجود ہے جو اسی طرح ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہے۔ ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا، جلانا ، مذہبی کتابوں کی بے حرمتی اور انہیں زبردستی ہندو دھرم میں شامل کرنا جیسے واقعات بھی عام ہیں اور خوف و ہراس پر مشتمل تحریری مواد مسیحی آبادیوں میں تقسیم کرکے انہیں ہراساں کیاجانا تو ایک معمول کی بات ہے, ہندوؤں کا خیال ہے کہ اکھنڈ بھارت کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام اقلیتوں کو ٹھکانے نہ لگا دیا جائے, اس کے لیے ان کے پاس جواز ہے کہ بھارت دنیا میں واحد ایک خالص ہندو ریاست ہے, کسی اور مذہب کے ماننے والے یا تو ہندو مت اختیار کر لیں یا انہیں اپنے ہم مذہب ممالک کی طرف ہجرت کرنا ہو گی, اس کے علاوہ تیسری کوئی صورت ممکن نہیں۔

2014ء کے اواخر میں دہلی کے بڑے گرجا گھر سینٹ سیستان چرچ میں آگ لگا کر اس کی بے حرمتی کی گئی اور 2015ء کے اوائل میں دلی کے ایک اور چرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی ‘ مجسموں کو توڑا گیا۔ چر چ میں لگے خفیہ کیمرے کی آنکھ نے حملہ آوروں کا ریکارڈ محفوظ کر لیا مگر ریاستی اداروں نے پھر بھی مجرموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا۔ دلی میں مسیحی سکول ہولی چائلڈ پر بھی حملے ہوئے اور پولیس و دیگر ادارے ملزموں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں رہے۔ اس سے قبل ریاست کیرالہ ، آندھرا پردیش کے واقعات کسے یاد نہیں جن میں درجنوں گرجا گھروں پر بم برسائے گئے اور مسیحی قبرستانوں کو اکھاڑ دیا گیا۔ ایسے سینکڑوں واقعات بھارت کے اس مکروہ چہرے سے نقاب الٹانے کے لیے کافی ہیں جس میں بھارت کو ایک سیکولر ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اور دنیا کے سامنے ایک ذمہ دار ریاست کا ناٹک رچایا جاتا ہے۔

متذکرہ بالا تمام واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حقیقت کا سراغ پانا مشکل نہیں کہ دنیا کے نقشے پر بھارت ایک اوباش, بدقماش اور آوارہ مزاج ریاست کے طور پر ابھری ہے جس کے متشدد مزاج جنونی ہندوؤں کے شر سے کوئی اقلیت محفوظ نہیں, اور نہ انہیں انسانیت اور دوسرے دوسرے مذاہب کے عقائد و نظریات کے پاس ولحاظ کا کچھ شعور و ادراک ہے, بلاشبہ ایسی ریاستیں دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہوا کرتی ہیں اور بلاشبہ ایسی ریاستیں ہی فساد فی الارض کا باعث بنا کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال حالیہ دنوں میں حکمران جماعت بی جے پی کی ایک ذمہ دار لیکن غلیظ طرز فکر کی حامل خاتون نوپور شرما کی ہے جس نے لائیو ایک ٹی وی شو میں مسلمانان عالم کی مقدس و محترم ہستی کے متلعق اپنی ناپاک زبان سے گستاخانہ کلمات کہے, اب بلاشبہ انڈیا اور دوسرے ممالک کے کروڑوں مسلمان اس ناپاک جسارت پر مشتعل ہیں, اگرچہ یہ قصہ آج کا نہیں گزشتہ 75 سالوں سے بھارت میں اقلیتوں کے مذہبی جذبات و احساسات کا ایسے ہی استحصال کیا جا رہا ہے لیکن جب سے بدنام زمانہ ریاست گجرات کے دہشت گرد نریندر مودی نے زمام اقتدار سنبھالی ہے، اقلیتوں کا مستقبل مزید داؤ پر لگ گیا ہے, اور ان کے مذہبی جذبات کی برآنگیختی کا ہر ممکن سامان وافر مقدار میں مہیا کر دیا گیا ہے۔ جس سے تشدد, تعصّب اور نفرت آمیز رویوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ انہی حالات کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ مذہب کا رنگ کسی بھی انسان پر اس کے موجود رنگوں میں سب سے گہرا اور پختہ ہوتا ہے, اور یقیناً اس کے لیے انسانی جان کی حیثیت بھی معمولی ہوتی ہے, ایسے میں کل کسی نئے تنازعے اور انسانی المیے کے پیدا ہونے سے پہلے اقوام عالم کو اس اوباش اور آوارہ مزاج ریاست کو نکیل ڈالنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاھیے۔

Tahir Ayub Janjua
About the Author: Tahir Ayub Janjua Read More Articles by Tahir Ayub Janjua: 5 Articles with 3511 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.