جہنم کی دُھائی اور جنت کی رُونمائی !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ قٓ ، اٰیت 30 تا 45 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یوم
نقول لجھنم
ھل امتلات و
تقول ھل من مزید
30 و ازلفت الجنة للمتقین
غیر بعید 31 ھٰذا ما توعدون
لکل اوّاب حفیظ 32 من خشی
الرحمٰن بالغیب و جاء بقلب منیب
33 ادخلوھا بسلٰم ذٰلک یوم الخلود
34 لھم ما یشاءون فیھا ولدینا مزید
35 و کم اھلکنا قبلھم من قرن ھم اشد
منھم بطشا فنقبوا فی البلاد ھل من محیص
36 ان فی ذٰلک لذکرٰی لمن کان لهٗ قلب او القی
السمع و ھو شھید 37 ولقد خلقنا السمٰوٰت و الارض
و ما بینھما فی ستة ایام و ما مسنا لغوب 38 فاصبر
علٰی ما یقولون و سبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس و
قبل الغروب 39 و من الیل فسبحهٗ و ادبار السجود 40
و استمع یوم یناد المناد من مکان قریب 41 یوم یسمعون
الصیحة بالحق ذٰلک یوم الخروج 42 انا نحن نحیٖ و نمیت و
الینا المصیر 43 یوم تشقق الارض عنہم سراعا ذٰلک حشر علینا
یسیر 44 نحن اعلم بما یقولون و ما انت علیھم بجبار فذکر بالقراٰن
من یخاف وعید 45
اے ہمارے رسُول ! جہنم مَنفی اہلِ عمل کی وہ وسیع دُنیا ہے جس میں مَنفی عمل کے حامل اپنے مَنفی عمل کے ساتھ جمع ہوتے رہتے ہیں اِس لیۓ قیامت کے روز جب اُس جہنم سے اُس جہنم کی کشادگی کے بارے میں پُوچھا جاۓ گا تو وہ کہے گی کہ میرے پاس تو ابھی بھی ایک بڑی جگہ خالی پڑی ہے اور اسی قیامت کے دن مُثبت اہلِ عمل کے مُثبت نتیجہِ عمل سے قائم ہونے والی وہ وسیع جنت بھی اُن اہلِ عمل کے قریب کردی جاۓ گی جو رحمٰن کی نارضی سے ڈرکر مَنفی عمل سے اجتناب کرتے ہیں اور اُسی روز اُن اہلِ جنت کو یہ بھی بتا دیا جاۓ گا کہ یہ تُمہارے مُثبت عمل کا وہی مُثبت نتیجہ اور دائمی ٹھکانا ہے جس کا تُم سے ہم نے وعدہ کیا تھا لہٰذا اَب تُم سلامتی کے ساتھ سلامتی کی اِس بستی میں داخل ہو جاؤ ، اہلِ جنت کی اِس بستی میں اَب تُم جس چیز کی بھی خواہش کرو گے اُس چیز کو تُم اپنی خواہش سے بڑھ کر یہاں موجُود پاؤ گے ، یہ ہمارا عمل و رَد عمل کا وہی قدیم قانون ہے جس کے بارے میں آپ اپنی قوم کو ضرور بتادیں کہ اُن سے پہلی اُن طاقت ور قوموں پر بھی ہمارے اسی قانونِ عمل و رَدِ عمل کا اطلاق ہوتا رہا ہے جو اپنے اُن مضبوط شہروں میں رہتے تھے جن پر جب ہمارا یہ قانونِ مکافات جاری ہوا تو وہ اپنے اعمالِ بَد کے نتائجِ بَد سے بچنے کے دوران اپنے اُن ہی مضبوط شہروں کی گلیوں اور کوچوں میں ایک ذلت کی موت مارے گۓ ، اہلِ عبرت کے لیۓ انسانی تاریخ کا یہ وہ سامانِ عبرت ہے کہ جس پر ہر ہوش مند انسان کو براہِ راست بھی غور کرنا چاہیۓ اور دُوسرے اہلِ عبرت سے سُن کر بھی عبرت پکڑنی چاہیۓ اور آپ اپنے زمانے کے لوگوں کو یہ بات بھی بتادیں کہ یہ خالقِ عالَم کا وہ عالَمِ عمل و رَدِ عمل ہے جو اُس خالق نے تاریخ کے چھ طویل اَدوار میں بلا تکان بنایا ہے اور پھر یہاں تک پُہنچایا ہے ، اگر وہ لوگ آپ کی بات مان لیں تو مان لیں نہ مانیں تو آپ صبر کریں لیکن انسانی حیات کی دینی و اخلاقی بقا کے لیۓ ہر دن کی ہر شام اور ہر شب کی ہر صُبح تک اپنی اِس سعی و عمل کو جاری رکھیں یہاں تک کہ جس دن دُشمنانِ حق کی طرف سے جنگ کا بگل بج جاۓ تو اُس دن اہلِ حق بھی اِس یقین کے ساتھ اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں کہ ہماری زندگی اور موت کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے اور جس دن اہلِ حق و اہلِ باطل کے کے درمیان یہ معرکہ برپا ہوگا تو اُس دن سے پہلے ہی نواحِ مدینہ کی زمین شَق ہو کر اہلِ باطل کے قدموں کو زمینِ مدینہ کے باہر ہی روک دے گی اور اُن جارح دُشمنوں کا کوئی بھی جنگی لشکر مدینے میں داخل نہیں ہو سکے گا اور ہم جانتے ہیں کہ عرب قبائل کے یہ شکست خوردہ لشکر آپ پر سخت گیری کا الزام بھی عائد کریں گے لیکن آپ اِن کی باتوں پر توجہ دینے کے بجاۓ قُرآن کی تعلیم و تفہیم جاری رکھیں اور لوگوں کو قُرآنی اَحکام سناتے رہیں اور قُرآنی اَحکام کے وہ سچے وعدے بھی یاد دلاتے رہیں جو اللہ نے اُن کے ساتھ کیۓ ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا مفہومِ بالا جو متنِ اٰیات کے زیرِ متن ہم نے تحریر کیا وہ اگرچہ ایک مُکمل مفہوم ہے لیکن اِس مفہوم پر ایک اضافی کلام کی صورت میں جو اضافی بات کی سکتی یا کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اِس سُورت کا آغازِ کلام یومِ محشر کے جس حَشرِ اَجساد کے حوالے کے ساتھ کیا گیا تھا اِس سُورت کا اَنجامِ کلام بھی یومِ محشر کے اُسی حَشرِ اَجساد کے حوالے کے ساتھ کیا گیا ہے اور اِس سلسلہِ کلام میں جنت و جہنم کو اِس مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ اُس حَشرِ اَجساد میں اہلِ خیر کا جو اَنجامِ اَجساد ہو گا وہ مقامِ جنت ہو گا اور اہلِ شر کا جو اَنجامِ اَجساد ہو گا وہ مقامِ جہنم ہو گا لیکن قُرآنِ کریم نے جس طرح گزشتہ اٰیات میں انسانی حیات کی رَگِ حیات { حبل ورید } کی تعلیم و تفہیم کے لیۓ رَگِ حیات { حبل ورید } کو تاریخ کے ماضی و حال اور تاریخ کے مُستقبل کا ایک علمی حوالہ بنایا تھا اسی طرح قُرآنِ کریم نے موجُودہ اٰیات میں اہلِ حیات کے حَشرِ اَجساد کی تعلیم و تفہیم کے لیۓ بعض اہلِ حیات کے حشرِ اَجساد کو بھی تاریخِ ماضی و حال اور تاریخ مُستقبل کا ایک علمی حوالہ بنایا ہے جس سے یہ اَمر واضح کرنا مقصود ہے کہ جس طرح ماضی میں جس قوم نے جو کُچھ کیا ہے وہ سب کا سب ہمارے پاس جمع ہوتا رہا ہے اسی طرح مُستقبل میں بھی جو قوم جو کُچھ کرے گی وہ سب کا سب بھی ہمارے پاس جمع ہوتا رہے گا یہاں تک کہ موت سے پہلے یا موت کے بعد جس وقت بھی انسان کے مُثبت اعمال کے مُثبت نتائج کا عمل کوئی وقت آۓ گا تو اُس وقت انسان کے مُثبت عمل کا مُثبت نتیجہ دُنیا میں ایک کامل فتح اور عُقبٰی میں اُس کے بلند ترین مقامِ جنت کی صورت میں سامنے آۓ گا اور اسی طرح موت سے پہلے یا موت کے بعد جس وقت انسان کے مَنفی عمل کے کسی مَنفی نتیجے کا وقت آۓ گا تو اُس وقت بھی دُنیا میں اُس کی ایک مُکمل شکست اور عُقبٰی میں اُس کے ایک بدترین مقامِ جہنم کی صورت میں ہی سامنے آۓ گا ، قُرآنِ کریم نے اِس سلسلہِ کلام کے ضمنِ کلام میں ماضی کی سرکش اقوام کے بدترین اَنجام کا ذکر کر کے مُستقبل کی سرکش اقوام کو بھی اُس بدترین نتیجہِ عمل سے ڈرایا ہے لیکن اِس سارے سلسلہِ کلام کی اصل مُخاطب وہ قوم ہے جو عہدِ نبوی میں نبی علیہ السلام کے مقابلے میں ایک عملی مقابلے کے لیۓ کھڑی تھی اور اُس قوم نے اللہ تعالٰی کے نظامِ حق کو مٹانے اور اُس کے رسُولِ برحق کو پیغامِ حق کو نیچا دکھانے کے لیۓ مدینے پر ایک اجتماعی اور فصلہ کُن حملے کا فیصلہ کیا تھا اور اِس عزم کے ساتھ کیا تھا کہ اُن کے اِس اجتماعی حملے کے بعد حق فنا ہو جاۓ گا اور باطل غالب آجاۓ گا اِس لیۓ قُرآن نے حَشرِ اَجساد کے ماضی و مُستقبل کے بعد اسی حوالے سے عہدِ نبوی کے اُس عہدِ حال کو بھی موضوعِ سُخن بنایا ہے اور عملی دُنیا میں حق کے اُن مخالف لشکروں کا عملی طور پر جو حَشرِ اَجساد ہوا ہے اُس حَشرِ اَجساد کو بھی اپنا عنوانِ سُخن بنا کر اِس حقیقت سے پردہ اُٹھایا ہے کہ قُرآنِ کریم کی سُورَةُالاَحزاب میں جس جنگِ اَحزاب کا جو ذکر ہوا ہے اور اُس جنگ کے حوالے سے اِس سُورت کی اِن اٰیات میں زمین پَھٹنے کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ اُن تمام روایات کی مُکمل نفی کرتا ہے جو روایات مدینے کو بچانے کے لیۓ اہلِ ایمان کے ہاتھوں سے شہرِ مدینہ کے ارد گرد ایک خندق بنانے کی خبر دیتی ہیں کیونکہ قُرآنِ کریم اُن روایات کے بالکُل برعکس اِس اَمر کا اعلان کر رہا ہے کہ وہ خندق اہلِ ایمان نے زمین کھود کر نہیں بنائی تھی بلکہ اللہ تعالٰی کے حُکم سے زمین نے شق ہو کر قبائلِ عرب اور شہر مدینہ کے درمیان ایک ایسی عظیم خندق قائم کردی تھی جس عظیم خندق کو پاٹ کر کفر کے وہ لشکر شہرِ مدینہ کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں کر سکتے تھے لیکن اہلِ روایات نے اپنی من گھڑت روایات میں چونکہ ایک روایتی خندق بنائی ہوئی ہے اِس لیۓ اِس سُورت کی اِن اٰیاتِ حال کو اُنہوں نے مُستقبل کی قیامت کے ساتھ جوڑ دیا ہے لیکن اِن اٰیات کے اِس سیاق و سباق سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اِن اٰیات کا تعلق قیامت کے ساتھ نہیں ہے بلکہ مدینے پر مُسلط کی گئی اُس جنگ کے ساتھ ہے جس کا سُورَةُالاَحزاب میں ذکر ہوا ہے اور اِس اَمر کی دلیل یہ ہے کہ اِس کلام کے خاتمہِ کلام پر اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کو یہ حُکم دیا ہے کہ آپ اِن اہلِ فساد کی فسادی باتوں کو نظر انداز کر کے اپنے عہدِ کے تمام انسانوں کو قُرآنی اَحکام کی نوید اور وعید سناتے رہیں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی کے اِس حُکم کا قیامت کےحشرِ اَجساد سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اِس کا دُنیا کے اُس حشرِ اَجساد کے ساتھ تعلق ہے جو مدینے پر حملہ کرنے والے لشکروں کا حشرِ اجساد ہوا تھا جو مدینے پر اجتماعی حملہ کرنے کے لیۓ اپنے سارے قبائل اور سارے وسائل کے ساتھ آۓ تھے اور اُن کا یہ حشرِ اَجساد اُس وقت اِس لیۓ بھی ضروری تھا تاکہ انسان کو دُنیا کے اِس حشرِ اَجساد سے عُقبٰی کا وہ حشرِ اجساد بھی اچھی طرح سمجھ آجاۓ جس نے یومِ محشر میں آنا ہے ، اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں جہنم کی طلبِ مزید کے معاً بعد دُوسری اٰیت میں جنت کو قریب کر دینے کی جو ایک موہُوم سی نوید دی گئی ہے عجب نہیں ہے کہ وہ نوید بھی شاید اِس اُمید کی حامل ہو کہ جنت کے قریب لاۓ جانے کے بعد انسان کے حق میں اللہ تعالٰی کی کوئی خاص ہی رحمت و مہربانی ظاہر ہو جاۓ جس رحمت و مہربانی سے انسان کو کوئی خاص ہی رُو رعایت مل جاۓ کیونکہ اِس اُمید کی تائید اِس سُورت کی اٰیت 28 اور اٰیت 29 کے اُس مضمون سے بھی قرینِ قیاس نظر آتی ہے جس مضمون میں اللہ تعالٰی نے شیطان کو مُخاطب کر کے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تیری فتنہ پردازی کی وہ مُدت آج ختم ہو چکی ہے جس مُدت میں تُجھے انسان کو بہکانے کی چُھوٹ دی گئی تھی اِس لیۓ اِس وقت تُو مزید فتنہ پھیلانے کی کوشش نہ کر کہ تُجھ سے تُجھ پر آنے والے جس عذاب کا وعدہ کیا گیا تھا تُجھ پر اُس عذاب کا وقت آچکا ہے اِس لیۓ آج تُجھے گم راہی پھیلانے کی اجازت دینے والے تیرے رَب کا تیرے مذمُوم ارادے کے مطابق اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 459382 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More