ضمیر کا قیدی

شہر قصور میں ابدی نیند سوئے ہوئے پنجابی کے نامور صوفی شاعر اور اﷲ کے ولی بابا بلھے شاہ صاحب فرماتے ہیں بلھے شاہ اسی مرنا ناہیں۔گور پیا کوئی ہورکی عملی تصویر دیکھنی ہو توسندھ کے گاؤں منگر میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں ضمیر کا قیدی مٹی کی چادر اوڑھے سکون سے سو رہا ہے جسے دنیا رسول بخش پلیجو کے نام سے جانتی ہے جو ایک سچے کھرے اور پکے پاکستانی تھے بائیں بازوسے تعلق رکھنے والے ایسے مارکسی رہنما، اسکالر اور مصنف تھے جنہوں نہ صرف پسے ہوئے پسماندہ لوگوں کو شعور کی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ انکی بچیوں کوبھی تعلیم کے زیور سے بھی روشناس کروانے کے لیے انتھک کوشش کی وہ انسانی حقوق کے وکیل ، ترقی پسند اور بائیں بازو کی جماعت عوامی تحریک کے رہنما اور بانی تھے۔استقلال پارٹی کے سربراہ اور بہت سی سیاسی جماعتوں کے بنے ہوئے اتحاد پاکستان پیپلز موومنٹ کے چیئرمین سید منظور علی گیلانی کی دعوت پر سندھ میں رسول بخش پلیجو کی برسی پر جانے کا موقعہ ملا تو وہاں میلے کا سماں تھاخوبصورت لوگوں کا ایک گلدستہ اسٹیج پر موجود تھا اورانکے سامنے جس شوق سے ہزاروں کا مجمع بیٹھا لیڈروں کے خطابات سن رہا تھا وہ بھی قابل رشک محسوس ہوا خاص کر اپنے لیڈر کے لیے خواتین کا جو جذبہ دیکھا وہ بہت کم کہیں اور نظر آیارسول بخش پلیجو 21 فروری 1930 کو جنگ شاہی سندھ کے گاؤں منگر خان پلیجو میں علی محمد پلیجو کے گھر پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں اور ثانوی تعلیم کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی پلیجو نے سندھ لاء کالج کراچی سے قانون کی ڈگری حاصل کی سندھی، اردو اور انگریزی میں روانی رکھنے کے ساتھ ساتھ ہندی، عربی، بلوچی، بنگالی، پنجابی اور فارسی زبانوں پربھی انہیں عبور حاصل تھاایک نامور مصنف اور اسکالر پلیجو نے سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر خدمات انجام دیں انہوں نے تقریبا 11 سال سے زائد سیاسی الزامات کے تحت جیل میں بندوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں خاص طور پر پاکستان میں تحریک بحالی جمہوریت (MRD) کے دوران ان کی زیادہ تر زندگی قید میں گذری 1980 میں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں بھی بند رہے انہیں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 1981 میں ''ضمیر کا قیدی'' قرار دیا تھارسول بخش پلیجو کا شمار جنوبی ایشیا کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے جاگیرداری، مارشل لا، استعماری اور سامراجی قوتوں کے خلاف جدوجہد میں لازوال مثالیں قائم کی شہرت کی بلندیاں حاصل کیں پوری زندگی انکی تحریکوں کی نظر رہی محاذ سندھ قومی اتحاد، بزم صوفیہ سندھ، PONM، سندھی ادبی سنگت، MRD، اینٹی ون یونٹ موومنٹ، اور 4 مارچ موومنٹ۔ سندھی شگردتحریک، سندھی ہاری تحریک، پاکستان عوامی جمہوری اتحاد، پاکستان عوامی تحریک، سندھی مزدور تحریک، سندھ انٹلیکچوئل فورم، سندھی عوام قومی اتحاد، سندھی گرلز اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، سجاگ بار تحریک، سندھ واٹر کمیٹی، 1940 پاکستان عوامی قرارداد نفاذ جمہوری تحریک اور اینٹی گریٹر تھل کینال اور کالاباغ ڈیم ایکشن کمیٹی جیسی تحریکوں کے وہ روح رواں تھے انہوں نے نیلم بینڈ کریو اور ووٹر لسٹوں میں سندھی مرد چھپاو تحریک بھی شروع کی رسول بخش پلیجو تحریک برائے بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے انہوں نے اور ان کی جماعت عوامی تحریک نے بنگلہ دیش اور بلوچستان میں غیر قانونی فوجی آپریشن ، جنرل ضیاء کے خلاف بھٹو بچاؤ تحریک اور صحافیوں کی تحریک میں بھی فعال کردار ادا کیا وہ برصغیر کے مایہ ناز مقررین، پاکستان کے اعلیٰ ترین آئینی اور فوجداری وکلاء اور پہلے سندھی اور جنوبی ایشیائی سیاست دان تھے جنہوں نے کالاباغ ڈیم، تعلیمی اداروں میں تشدد اور شہری بنیادوں پر منظم دہشت گردی کے خلاف تحریک چلائی اور اسے منظم کیا انہوں نے لانگ مارچوں کے ذریعے سندھ میں جمہوری جدوجہد کا ایک نیا عدم تشدد کا رجحان متعارف کرایا وہ پہلے سیاسی قیدی ہیں جنہوں نے سیاسی الزامات کے تحت ایک لمبے عرصے تک 11 سال سے زائد عرصہ جیل میں رہے وہ کانٹ، ہیگل، کارل مارکس، ولادیمیر لینن، ماؤ زی تنگ، موہن داس گاندھی اور محمد علی جناح کو پڑھ کر ادب سے خوب واقف تھے ''ادب سے لے کر سیاست، جیل ڈیری، فلسفہ، ثقافت اور شاعری تک متعدد موضوعات پر چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف'' ہیں وہ جاگیردارانہ نظام اور بیوروکریٹس کے کھلم کھلا نقاد تھے ان کی شادی سندھی گلوکارہ اور مصنفہ زرینہ بلوچ سے 25 اکتوبر 2006 کو ہوئی 7 جون 2018 کو کراچی کے ایک اسپتال میں ان کا انتقال ہوگیا اپنی موت سے پہلے وہ دل اور سانس کی پیچیدگیوں میں مبتلا ہونے کے بعد طویل عرصے تک ہسپتال میں داخل رہے 8 جون 2018 کو انہیں ان کے آبائی گاؤں منگر خان پلیجو ضلع ٹھٹھہ میں سپرد خاک کیا گیاانہیں کی چوتھی برسی پر اسٹیج پر بیٹھا زندہ ہے پلیجو زندہ ہے کے فلک شگاف نعرے سن کر بابا بلھے شاہ کی شاعری کی عملی جھلک دیکھ رہا تھا جہاں بچیوں اور بچوں نے سرخ چادر اور پھولوں کے گلدستے ہاتھوں میں پکڑے اپنے لیڈر کو سیلیوٹ کیا اور عقیدت سے انکی قبر پر چادرچڑھائی انکی برسی پر سیاسی درویش سید منظور علی گیلانی ،اظہر جمیل ،غلام فرید گوریجہ ،نامور ٹی وی اینکر ایک لغاری سب پہ بھاری ،سید زین شاہ اور صدام حسین سمیت درجنوں سیاسی قائدین نے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے رسول بخش پلیجوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک کا قیام 5 مارچ 1970 کو حیدرآبادسندھ کے معروف ادیبوں، کارکنوں اور دانشوروں کے ہاتھوں ہوا تھا پارٹی کے پہلے اجلاس میں سرکردہ نظریاتی رسول بخش پلیجو کو اس کا پہلا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیااور پھر بتدریج یہ ایک قومی جماعت بنتی چلی گئی سندھ پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کے خلاف جاگیردار مخالف عناصر کی حمایت کی ہے 2013 میں عوامی تحریک کو قومی عوامی تحریک (QAT) کا نام دیکران کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو اس کے مرکزی رہنما بن گئے مگر 2016 میں کچھ اندرونی رنجشوں کی وجہ سے رسول بخش پلیجو نے بیٹے کی قیادت والی QAT سے دوری اختیار کرکے عوامی تحریک کو دوبارہ زندہ کردیاعوامی تحریک ایک سیاسی جماعت ہے جو مارکسزم – لینن ازم – ماؤ ازم کے سائنسی اور انقلابی اصولوں کے ذریعے عوام کی آزادی کے حصول کے لیے اپنی جمہوری جدوجہد میں عدم تشدد کے لیے وقف ہے یہ عوامی جمہوریت، معاشی اور سماجی انصاف اور ایک ایسے ملک میں فلاحی ریاست کے قیام کے لیے پرعزم ہے جہاں لوگوں کو مساوات، سیاسی آزادی، معاشی مواقع اور حقیقی صوبائی خودمختاری حاصل ہواس جماعت کابنیادی منشور یہ ہے کہ فلاحی ریاست کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے معاشرے کی ایک جامع اوور ہالنگ کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ تب سے اب تک عوامی تحریک جنس، طبقے، رنگ، زبان، عقیدے یا مسلک کی تفریق کے بغیر تمام شہریوں کے مساوی حقوق کے لیے کھڑی ہے عوامی تحریک سرمایہ داری، سامراج، فوجی حکمرانی، آمریت، دہشت گردی، بدعنوانی، نسل پرستی، صنفی امتیاز اور مذہبی تعصب کے سخت خلاف ہے عوامی تحریک نے سندھ کی تقسیم کی مخالفت کرتے ہوئے اسکی تقسیم کے خلاف ''محبت سندھ ریلی'' (سندھ دھرتی سے محبت اور تقدس) کا انعقاد بھی کیا تھا اسی عرس کا کمال ہے کہ کراچی میں دو بڑے سیاسی اتحاد پی پی ایم اور این ڈی اے بھی آپس میں مل گئے ان دونوں بڑے سیاسی اتحادکی تفصیل انشاء آئندہ چند روز میں لکھوں گا۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 514767 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.