انا بعثت معلما!!

ایک مدت سے پڑھتے اور سنتے آئے ہیں۔ کہ استاد معمار قوم ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی طاقت اور اختیار کو استعمال نہ کرے تو یہی استاد قوم کو ذلت کی گہرائیوں میں دھکیل سکتا ہے۔

استاد کے پاس پاور ہے اور وہ اگر اس پاور کو استعمال کرے تو وہ ملک و قوم کی تاریخ بدل سکتا ہے۔ آج ہر استاد معاشرے کی برائیاں کرتا نظر آتا ہے۔ ملک میں بدعنوانی ہے، رشوت ہے، امیر کے لیے جج ہیں اور غریب کے لیے جیل، ملاوٹ، جھوٹ، جرائم وغیرہ۔ لیکن استاد اگر اپنا گریبان میں جھانکے اور دیکھے کہ اس کے ہاتھ میں پاکستان کا مستقبل ہے اور اس کے پاس ملک کو سنوارنے کا سنہری موقع ہے۔ لیکن وہ اس مستقبل کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ ایک سروے اور تحقیق کے مطابق ہمارا تعلیمی نظام ایسے ہونہار پیدا کر رہا ہے جو ملک کی ذلت اور پستی کے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ سکول ہی سے ہیروز نکلتے ہیں اور سکول ہی سے تخریب کار نکلتے ہیں سکول ہی سے رشوت خور اور بدمعاش نکلتے ہیں۔ سکول ہی سے چور اور جھوٹے لوگ نکلتے ہیں، سکول ہی سے کام چور اور لٹیرے نکلتے ہیں۔ ہمارے ملک کے تمام مسائل میں سے اگر کوئی کہے کہ صرف ایک مسئلہ بتاو جس کو ٹھیک کر دیں تو ملک میں تمام مسائل خود ہی ختم ہو جائیں گے تو وہ صرف تعلیم ہے۔ جس کے مکمل طور پر ذمہ دار استاد ہیں۔ بچوں کی اخلاقی، معاشی، معاشرتی، سماجی تربیت استاد کی ذمہ داری ہے اور اسکے بارے میں وہ جوابدہ ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ " تم میں سے ہر ایک سے اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا"۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جائیں تو وہاں ہر شخص کھڑا ہو کے آپکو سلوٹ پیش کرے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ واپڈا سنٹر جائیں اور وہاں آپکو سلوٹ پیش کیے جائیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کسی بھی دفتر میں جائیں اور آپکو سلوٹ پیش کیے جائیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات بہتر ہوں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو معاشی استحکام ملے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ مرتے وقت خوشی سے مر سکیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکی دین و دنیا سنور جائے تو اسکا ایک ہی حل ہے کہ آپ طلبا کو لے کر اپنا مزاج بدل لیں ان میں محبت انڈیلیں، نفرت اور غصہ نہیں، کیونکہ بچے والدین اور اساتذہ کا عکس ہوتے ہیں۔ بچے نہیں بگڑتے بچے بگاڑے جاتے ہیں۔ چاہے آپ استاد ہیں یا ہیڈ ماسٹر آپ اپنی رعیت کے ذمہ دار اور جوابدہ ہیں۔ ہمیں اپنے رویوں کی نظر ثانی کرنا ہو گی اور انکو درست کرنا ہو گا۔ ورنہ پہلے سے ہی ہم ڈوب رہے ہیں اور پھر شاید ہماری لاش تک نہ ملے۔

چند گزارشات۔
1۔ معاشی استحکام کیلئے ایک زبردست قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں زیر تعلیم طلبا کی تعداد 70 ملین ہے۔ جس طرح پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے موٹر سائیکل کا خرچ انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے سکول میں بچوں پر موٹر سائیکل کی پابندی لگائی جائے۔ اور سائیکل کے لیے ترغیب دی جائے۔ استاد یا ہیڈ ماسٹر کے لیے یہ کام بس ایک آرڈر کی دوری پر ہے۔ اس سے بچوں کی صحت میں خاطر خواہ بہتری آئے گی۔ جسم جتنا چاق و چوبند ہوتا ہے اتنا ہی دماغ مضبوط ہوتا ہے۔ یادداشت میں بہتری آتی ہے۔ سوچنے کا ڈھنگ بدلتا ہے۔ اور پھر ہر گھر کے اخراجات میں کمی آئے گی۔ فضائی آلودگی میں کمی آئے گی۔ تیل کی کھپت میں کمی آئے گی۔ درآمد میں کمی کی وجہ سے ملک کی معیشت بہتر ہو گی۔ جب مسائل ہوتے ہیں تو انکو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں جادو کی چھڑی سے مسائل ختم نہیں ہوتے۔

2۔ بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ دیں۔ خلیل جبران کہتا ہے بچوں کو جتنی محبت دے سکتے ہیں دیں مگر اپنا تخیل انکے حوالے کبھی نہ کریں انکو تمہارے تخیل کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اپنا تخیل اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ اس کے لیے سرکار ﷺ کا اسوہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے کہ کس طرح وہ بچوں سے شفقت اور پیار سے پیش آتے تھے۔

3۔ بچے تعلیم میں دلچسپی نہیں لے رہے تو اسکے لیے مارنے سے بہتر ہے آپ انکو تعلیم کے لیے قائل کریں انکے اندر تعلیم کا شوق بیدار کریں استاد وہ نہیں جو پیاس بجھا دے استاد وہ ہے جو پیاس جگا دے۔ مار کر پڑھانا انتہائی آسان کام ہے۔ اور محبت سے پڑھانا انتہائی مشکل کام ہے۔ مار کا اثر 2 دن تک رہتا ہے۔ محبت کا اثر ساری زندگی رہتا ہے۔ برٹرنڈ رسل کہتا ہے کہ ہم گھوڑے کو سدھانے کے لیے چابک استعمال کرتے ہیں جبکہ ایک انسان کو سنوارنے کے لیے چھڑی استعمال کرتے ہیں۔ یوں انسان کو ہم جانور بنا دیتے ہیں۔ اور جانور سے پھر تخلیقیت اور دانش مندی کی توقع رکھنا بے کار ہے۔

4۔ بچوں کی گفتگو کو شائستہ بنانے میں بھرپور کردار ادا کریں۔ بچوں کی زبان بہت آلودہ ہو چکی ہے، گالی دینا اور غلط نام سے پکارنا ہر بچہ اپنا فرض سمجھتا ہے۔ لڑائی جھگڑے کی بنیادی وجہ ہی زبان کا آلودہ ہونا ہے۔ اس پر قابو پانا استاد اور ہیڈ ماسٹر کی ذمہ داری ہے۔

5۔ بچوں کو رٹو طوطا نہ بنایا جائے بلکہ انکی تخلیقی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا سائنس اور ایجادات میں کردار بالکل زیرو ہے۔ اسکے ذمہ دار استاد اور ہیڈماسٹر ہیں۔ سارا بوجھ سسٹم پہ ڈال کر خود کو جھوٹی تسلیاں مت دیں۔ باہر سے بھیک لیں گے تو سسٹم بھی باہر والوں کی مرضی کا چلے گا۔ وہ بھلا کیوں چاہیں گے کہ یہ اوپر آئیں اور ہمارا سود کا روزگار ختم ہو۔ لہذا سسٹم سے کوئی توقع رکھنا بہت بڑی حماقت ہو گی۔ جو ہے جتنا ہے جیسا ہے آپ اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس گندے سسٹم سے بھی ہیروز پیدا کیے جا سکتے ہیں اگر اساتذہ ٹھان لیں تو۔۔۔ اور پھر کم سے کم آپ خود کو تسلی تو دے سکیں گے کہ میں اپنا کردار ادا کر دیا۔ جو کہ بہت بڑی بات ہے۔

باقی میری دعا ہے اگر آپ شروع کریں گے تو اللہ آپکا ساتھ دے گا۔۔ منزل آپکے پہلے قدم کی منتظر ہے۔
شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
~ابن محمد یار
 

Usman Nadeem
About the Author: Usman Nadeem Read More Articles by Usman Nadeem: 4 Articles with 2795 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.