ایک بچے کو کھو دینا ایسا ہے جیسے کسی نے آپ کی روح کو چیر دیا ہو

امریکی نظام معاشرت کا بھیانک چہرہ گن لابی ۔۔۔۔

 بڑے پیمانے پرتواتر سے فائرنگ کی تعداد میں اضافے کے رجحان نے پورے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسلحہ رکھنے کے رجحانات کو حقوق کے نام پر رکھنے سے ایک متنازعہ بحث چلی آرہی ہے۔ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن جیسے گروپ واشنگٹن میں طاقت ور تنظیم تصورکئے جاتے ہیں جو ملک بھر میں بندوق کے مالکان کے حقوق کے لئے ایک مضبوط آواز رہی ہے اور حکومت کی ہر سطح پر گن کنٹرول کرنے کی قانون سازی کی کوششوں کے خلاف متحرک ہے۔ این آر اے کے علاوہ اسلحہ رکھنے کی حقوق کی وکالت کرنے والے دیگر بڑے گروپوں میں نیشنل شوٹنگ اسپورٹس فاوندیشن اور نیشنل ایسوسی فارگن رائٹس بھی شامل ہیں۔ 25 مئی 2022 کو امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک ایلیمنٹری اسکول میں فائرنگ کے نتیجے میں 19 بچے اوردو افراد ر ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ رواں برس کسی اسکول پر ماس شوٹنگ کا 27واں حملے کا واقعہ ہے۔جب کہ ماس شوٹنگ کے رواں برس 213واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ خیال رہے کہ ٹیکساس میں فائرنگ کے اس واقعے سے صرف دس روز پہلے ریاست نیو یارک کے شہر بفلو کے ایک گروسری اسٹور میں ایک سفید فام نوجوان نے نفرت کی بنا پر فائرنگ کر کے 10 افریقی امریکیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔امریکہ میں اسکول شوٹنگ کا اب تک کا بد ترین واقعہ دسمبر 2012 میں ریاست کنیٹیکٹ میں پیش آیا جہاں سینڈی ہُک ایلیمنٹری اسکول میں ایک نوجوان نے فائرنگ کر کے 20 بچوں اور چھے بڑوں کی جان لے لی تھی۔ صدر بائیڈن نے قوم سے خطاب میں گن لابی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسلحے کے قوانین میں تبدیلی پر زور دیا ہے۔ واقعے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹیلی ویژن پر قوم سے مختصر خطاب میں گن لابی پر تنقید کرتے ہوئے زور دیا کہ ایسے سانحوں کو روکنے اور ''اس درد کو اقدامات میں بدلنے کا وقت آ گیا ہے''۔ صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ، ''ایک بچے کو کھو دینا ایسا ہے جیسے کسی نے آپکی روح کو چیر دیا ہو۔''امریکی معاشرتی نظام میں تشدد کے بڑھتے واقعات، بالخصوص ماس شوٹنگز کے جرائم نے اخلاقی اقدار کو کھوکھلا کردیا ہے۔ نارتھ یونیورسٹی اور امریکی روزنامے یو ایس اے ٹو ڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے پندرہ برسوں کے دوران تشویش ناک حد تک بڑھتے جا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے مطالعہ کے لئے نیشنل کنسورشیمم اور مریوری لینڈ یونیورسٹی میں گلوبل دہشت گردی کے ڈیٹا بیس کے مطابق، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سب سے زیادہ شوٹنگ کے واقعات نجی شہریوں اور ملکیت کو نشانہ بناتے ہیں، لیکن امریکہ میں اس قسم کے واقعوں کو نفسیاتی مسائل سے جوڑا جاتا ہے اور اگر فائرنگ کرنے والا امریکی شہری ہے تو اُسے کوئی نفسیاتی عارضہ یا پھر کوئی دماغی بیماری یا معاشرتی مسائل کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔
گن وائلنس آرکائیوکے مطابق امریکہ کی مختلف ریاستوں میں گن تشدد سے رواں برس مئی2022تک 17496افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ان میں 7626 کو قتل کیا گیا جب کہ 9570واقعات خودکشی کے ہیں، 14247افراد زخمی ہوئے جب کہ ماس شوٹنگ کے213واقعات رونما ہوئے، جس میں گیارہ برس کی عمر تک 140کو ہلاک اور 289بچوں کو زخمی کیا گیا۔جب کہ بارہ سے 17برس کی عمر تک 507بچے ہلاک اور1305زخمی کئے گئے۔ نیز148پولیس اہلکار ہلاک اور148 زخمی بھی ہوئے۔گن کلچر کی اصطلاح 1970میں متعارف ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ2014میں 12418، 2015میں 18537۔2016میں 15112، 2017میں 15679، 2018میں 14896، 2019میں 15448اور2020میں 19411افراد گن تشدد سے ہلاک ہوئے۔ 33کروڑ والے ملک میں 40کروڑ گنزہیں۔ گن کلچر کی کئی بنیادی وجوہ میں یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ سماجی طور پر اس معاملے کو بڑا سنجیدہ لیا جاتا ہے کہ خاندان یا دوست احباب کیا سوچیں گے کہ اس کے پاس بندوق نہیں ہے۔1998سے امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں گن کلچر سے متعلق متغیرات پر مبنی سالانہ ڈیٹا متشکل کردیا تھا۔بنیادی طور پر پہلی جنگ عظیم کے بعد آتشیں اسلحہ بنانے والوں نے اپنی پیداور میں جہاں اضافہ کیا وہاں قیمتوں میں نمایاں کمی بھی کی، اشرافیہ نے اس عمل کو محدود کرنے کی کوشش کی لیکن یہ شوق اور ضرورت نچلے طبقے تک پھیل چکا تھا۔ امریکی آئین ہر امریکی کو ہتھیار رکھنے کا حق دیتا ہے، جب کہ ایک تہائی امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی طور پر اسلحہ کے مالک ہیں۔ صدر بائیڈن نے گن کلچر کے تشدد سے نمٹنے کی کوشش میں آتشیں اسلحے پر نئی پابندیوں کی تجویز پیش کی جس کی بنیادی وجہ ہی قتل کی بڑھتے واقعات اور بڑے پیمانے پر فائرنگ ہے۔تاہم گن لابی قانون سازی کے لئے مزاحمت کرتی ہے۔
جون 2021میں پیوریسرچ سینیٹر کے مطابق ہر چار میں سے ایک امریکی مسلح ہے، بشمول30فیصد امریکی جن کا ماننا ہے کہ وہ اسلحے کے ذاتی طور پر مالک ہیں۔ سیاسی طور پر بھی 44فیصد ریپبلکن کا ماننا ہے کہ ان کے پاس اسلحہ ہے جب کہ20 فیصد ڈیمو کرٹیکس، جب کہ مردوں میں 39 فیصد جب کہ 22 فیصد خواتین شامل ہیں شہری علاقوں مں ہر دس میں سے دو کے پاس اسلحہ جب کہ دیہی علاقوں میں 41فیصد افراد کے پاس آتشیں اسلحہ ہے۔یہاں ایک امر اور بھی سامنے آیا ہے کہ انسٹنٹ کرمنل بیک گراؤنڈ چیک سسٹم کے مطابق کرونا وبا کے دوران اسلحہ کی فروخت میں 20فیصد اضافہ ہوا۔ سب سے بڑا تقابلی فرق جولائی2020میں دیکھنے میں آیا جب قریباََ 3 اعشاریہ6ملین افراد کی جانچ پرٹال کی گئی، جو کہ جولائی 2019کے مقابلے میں 44فیصد زیادہ رہی۔
امریکہ میں نسل پرستی و تعصب و توہم پرستی کے متعدد واقعات رونما ہوتے ہیں، جس کو روکنے کے لئے امریکی انتظامیہ قریباََ ناکامی کا سامنا کررہی ہے، جو امریکی نظام معاشرت کا بھیانک چہرہ کی عکاسی کررہا ہے۔ امریکہ اپنے معاشرتی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو درست کرنے میں ناکام ہوا اور امریکی شہریوں میں مہلک ہتھیار بڑے پیمانے میں قانونی طور پر منتقل ہوئے،تحفظ کے نام امریکی سیکورٹی اداروں کی کارکردگی صرف نسلی تعصب کے نام پر ایشیائی امریکیوں و مسلمانوں کے خلاف محدود رہتی ہیں۔ امریکی سیکورٹی اداروں نے اپنے معاشرے میں متشدد واقعات کی کمی کے لئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں اور آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جنہیں مغربی پیمانے کے مطابق دہشت گردی کے واقعات قرار دیا جاسکتا ہے، انتہا پسندی صرف کسی خود ساختہ سوچ سے جڑی ہوئی نہیں، بلکہ انتہا پسندی سے مراد یہی ہے کہ وہ مذہب، نسل امتیاز و اپنے نظریات میں فسطائیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔امریکہ میں گن شوٹنگز کے واقعات اسکول، گرجا گھر، مساجد، کلب اور عوامی مقامات میں ہوتے رہتے ہیں، ان میں ملوث افراد خودکشی کرلیتے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ انتہا پسندی سے متاثر شخص اپنی زندگی کی پرواہ نہیں کرتا اور خود کش حملے میں بے گناہوں کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرلیتا ہے، اس صورت میں امریکہ کا ان واقعات کو سطحی انداز میں لینا خود ان کے معاشرے کے لئے خطرناک بنتا جارہا ہے، متشدد و نفسیاتی مریضوں کو مہلک ہتھیار دینے اور انہیں رکھنے کے خلاف قانون موجود ہے، تاہم انتہا پسند، اپنے سخت گیر نظریات کی وجہ سے بے گناہ افراد کو جانی نقصان پہنچاتے ہیں۔امریکی مہلک گن لابی کے سدباب کے ضروری ہے کہ امریکہ اپنی ریاستوں میں تشدد کے خاتمے کے لئے موژر پالیسیاں اپنائے، اگر کسی بھی ملک کے خلافپرتشدد کاروائیوں کا موجب و سرپرستی کے رجحان میں فروغ کا موجب بننے سے گریز کی راہ اختیار کرے گا تو خو د امریکہ کے معاشرت کے لئے بہتر ہوگا۔اس سے دنیا بھر میں تشدد کے خاتمے کے لئے انتہاپسندی کی ہر شکل کو ناکام بنانے کے لئے عوام کے وسائل درست سمت خرچ کئے جاسکیں گے۔

 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 660747 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.