افغانستان سے امریکہ کی پسپائی، یا مزید تباہی

۱۱ستمبر 2001ءکے واقعے کے بعدامریکہ نے مسلم دنیا پر دہشت گردی کے خلاف اپنی مسلط کردہ نام نہاد جنگ کومزید پھیلادیا اور سنجیدہ تحقیقات اور ٹھوس ثبوت کے بغیر اسامہ بن لادن اور اسکے تنظیم القاعدہ کو تباہ کرنے کے بہانے بھاری بھرکم جدید ہتھیاروں کے ساتھ افغانستان پر ایک نئی جنگ کی صورت میں مسلط ہوگیا۔افغانستان میں امریکی آمد کا مقصد طالبان حکومت کا خاتمہ اور اُن کا نام و نشان مٹانا تھا۔سپر طاقت کہلانے والا امریکہ طاقت کے نشے میں شایدیہ بھول چکا تھا کہ وہ جس طالبان کو نیست و نابود کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے وہ اس سے قبل سابق سپر پاور رُوس کے غرورکی دھجیاں بکھیر چکا ہے۔اور روس کو افغانستان سے شرمسارکر کے بھاگنے پر مجبور کرچکا ہے۔ لیکن اپنی طاقت ،بے پناہ وسائل ،دنیا پر حکمرانی کے خواب اورطاقتور اتحادیوں کے غول کے دھوکے میں آکر امریکہ نے غلط اندازے اخذ کرلیئے۔امریکیوں کا خیال تھا کہ بے سر و سامانی اور جدید جنگی سہولیات سے محروم طالبان کو اپنے لامحدود وسائل ،جدید ٹیکنالوجی سے لیس فوجی طاقت کے ذریعے با اسانی شکست سے دوچار کر دے گا۔لیکن گزشتہ 10سالہ اعصاب شکن جنگ اور کھربوں ڈالر پھونکنے کے باوجود بھی امریکہ اور اس کے اتحادی طالبان کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کوانکے اندازے سے کئی گنازیادہ مالی ،جانی اور معاشی نقصانات اٹھانے پڑے۔7 اکتوبر 2001ءکو شروع ہونے والی اس افغان جنگ پر امریکہ اب تک تقریباً 288 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے ،یعنی امریکہ اس جنگ میں ماہانہ 2 ارب 40ہزار ڈالر سے زیادہ خرچ کرچکا ہے۔امریکی قیادت اس خرچے کو امن کے لیے سرمایہ کاری قرار دیتے ہیں ،جبکہ مغربی دانشور اسے امریکیوں کی کمائیوں کا زیاں سمجھتے ہیں۔خود امریکی قوم اس جنگ کو معیشت پر بوجھ اور لا حاصل جنگ قرار دیتے ہیں۔اس جنگ میں امریکہ کے 1500 سے زائدفوجی ہلاک ہوچکے ہیں،بے حساب اہلکار معذور ہوچکے ہیں،بے شمار سپاہی لاپتہ ہوچکے ہیں۔اعصابی تناﺅ اور احساس ندامت کے باعث انگنت سپاہی خودکشی کر چکے ہیں، لاتعداد فوجی افغانستان سے فرار ہو کر دیگر ملکوں میں روپوش ہو چکے ہیں۔اس مجموعی صورتحال کے سبب امریکہ کو اپنی ہار صاف نظر آنے لگی اور وہ افغانستان سے خودساختہ باعزت واپسی کے بہانے تلاش کرنے لگا۔اور آخر کار امریکی صدر اُبامہ نے افغانستان سے فوجی انخلاءکا اعلان کرکے اپنی پسپائی کا نقارہ بجادیا۔افغانستان میں بھاری مالی ،جانی نقصانات اورملک کی تباہ حال معیشت امریکہ کی پسپائی کی اصل وجہ ہے ۔ایک رپوٹ کے مطابق افغان جنگ کی وجہ سے امریکہ میں قرضوں کا حجم 14کھرب 32ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔جبکہ امریکہ کی مجموعی پیداوار 14 کھرب66ارب ڈالر ہے۔ان قرضوں پر امریکہ کو ہر سال تقریباً 2کھرب ڈالر کا نیا قرضہ لینا پڑتا ہے۔امریکی صدر نے اعلان میں کہا کہ 2014ءتک امریکی فوج مرحلہ وار افغانستان سے واپس چلی جائے گی۔پہلے مرحلے میں 2011ءتک 10ہزار امریکی فوجی افغا نستان سے چلے جائیں گے۔دوسرے مرحلے میں ستمبر 2012ءتک مزید23ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلایا جائے گا۔اسی طرح 2014ءتک تمام امریکی افواج افغانستان سے نکل جایئں گے۔افغانستان سے امریکہ کی پسپائی افغان طالبان کی جیت اور امریکہ کی ہار مانی جاتی ہے ،جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے ہمارا انخلاءطالبان سے مذاکرات کی ایک کھڑی ہے۔امریکہ کے اس فیصلے کے بعد افغانستان کی کیا صورتحال ہوگی؟خطے میں آباد دیگر ممالک اور خاص کر پاکستان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگیں؟کیا افغانستان سے امریکہ کا انخلاءحقیقت ہے یا یہ بھی امریکہ کی کوئی نئی چال ہے؟یہ تمام پہلوں قابل غور ہیں۔اگر امریکہ واقعی افغانستان میں اپنی ہار تسلیم کرتا ہے تووہ 2014 ءتک اپنی تمام فوج کو افغانستان سے واپس بلا کر افغانستان کی تعمیر نو پر توجہ دےگا۔اور اگر امریکہ کے نیت میں کوئی کھوٹ ہوگی تو وہ افغانستان میں نئی سازشوں کا آغاز کردے گا، اس موضع پر تجزیہ کرتے ہوئے جنرل ریٹایئرڈ مرزا اسلم بیگ نے انکشاف کیا کہ امریکہ کا افغانستان سے واپس جانے کا اعلان محض ایک فریب ہے ۔ 2014ءتک امریکہ اپنے زیادہ تر فوجیوں کو واپس بُلا لے گا، لیکن مکمل طور پا افغانستان کی جان نہیں چھوڑے گا۔یہ امریکہ کی ایک خفیہ سازش ہے جس کے تحت انخلاءکے بعدبھی امریکی فوج افغانستان میں موجود رہے گی ۔اس سازش کے تحت امریکہ افغانستان کو تین حصوں میں تقسیم کردیگا ۔افغانستان کے شمالی علاقاجات جہاں تاجک،ازبک اقوام آباد ہیں ان علاقوں کو امریکہ شمالی اتحاد کے سپُرد کر دے گا۔جنوب مغربی علاقے جہاں پختونوں اور طالبان کی اکثریت ہے یہ علاقے طالبان کے کنٹرول میںچھوڑ دیئے جائے گیں۔اور درمیان میںمرکزی علاقے جوکابل ،قندھار پر مشتمل ہیں یہاں امریکہ اپنے تسلط کو برقرار رکھتے ہوئے 10سے15ہزار فوجیوں کو قلعہ بند کرکے طالبان کے خلاف ڈرونز اور دیگرفضائی کاروائیوں کو جاری رکھے گا۔اس طرح امریکہ افغانستان سے انخلاءکے باوجود بھی جنوبی ایشیاءمیں اپنے اثر و سوخ کو قائم رکھنے کی کوشش کرے گا ۔افغانستان سے انخلاءکے بعد امریکہ پاکستان میں اپنی جاری حکمت عملی میں تیزی اور وسعت لانے کا خواہش مند ہے اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکہ کو پاکستان میں اپنی حمایت یافتہ حکومت اور تابعدار فوجی قیادت کی ضرورت ہوگی تاکہ اپنے مفادات کو حاصل کرنے میں اُسے اسانی رہے۔جنرل ریٹایئرڈ مرزا اسلم بیگ نے اس امریکی وارگیم کے مستقبل کے بارے میں کہا کہ یہ امریکی سازش کبھی بھی کا میاب نہ ہوسکے گی ۔ طالبان اس امریکی حکمت عملی کی دھجیاں اڑاکر رکھ دیں گے۔امریکہ کی یہ نئی چال طالبان سمیت پاکستان ،ایران اور چین کے لیے بھی ناقابل قبول ہے۔پاکستان اس امریکی جنگ میں کافی جانی ،مالی اور معاشی نقصانات اٹھا چکا ہے اور وہ مستقبل میں مزید کسی نئی امریکی سازش کا حصہ بننے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے۔ریمنڈ ڈیوس اور پھر2 مئی 2011ءا یبٹ آباد واقعے میں پاکستان کے ساتھ امریکی ہتک آمیزرویے کے بعدپاکستانی حکومت اور اعلیٰ فوجی قیادت امریکہ کے بارے میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو چکی ہے۔اور اب وہ امریکہ کا مزید ساتھ دینے میں نہایت احتیاط سے کام لیں گے۔طالبان سے امریکی مذاکرات کے متعلق جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ طالبان افغان جنگ جیت چکے ہیں اور جیتے ہوئے کھبی ہارے ہوئے ٹولے سے مذاکرات نہیںکیاکرتے ہیں۔طالبان سے امریکی مذاکرات محض جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔CIAکے سابق سربراہ اور افغان اُمور کے ماہرجنرل ریٹایئرڈحمیدگل نے جنرل ریٹایئرڈ مرزا اسلم بیگ کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اورطالبان امریکہ کے اس منصوبے کو کھبی بھی قبول نہیں کریں گے۔بلکہ افغانستان میں خود امریکی کٹھ پتلی کرزئی حکومت بھی اس امریکی منصوبے کوردکر دے گی۔ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل ریٹایئرڈحمیدگل نے کہا کہ جب رُوس کو افغانستان میںشکست ہوئی اور وہ پسپائی پر مجبور ہوا تو اُس وقت بھی رُوس نے رُخصت ہوتے وقت افغانستان کو پانچ حصوں میں تقسیم کردیا تھا ،جسے اُس وقت کی رُوس نواز ڈاکٹر نجیب کی حکو مت نے مستردکردیا تھا۔ امریکہ کے اس نئی جنگی حکمت عملی کی وجہ سے خطے پر نہایت منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔افغانستان میں طالبان سے دُوبدُو لڑائی کے بجائے بینکر نما محفوظ قلعوں سے ڈرونز اور فضائی جنگ کی صورت میں بڑے پیمانے پر افغانستان میںبے گناہ انسانی جانوں کے ضیاع کے خدشات ہیں جو کسی بھی صورت میں افغانی قوم اور حکومت کے لیے قابل برداشت نہیں ہونگے۔اورامریکہ کا یہ عمل خود افغانستان میں پائی جانے والی امریکی حمایت کے لیے بھی شدید نقصان کا موجب بن سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکہ پاکستان میں اپنی جاری جنگی حکمت عملی میں کچھ تبدیلی کرکے اسے مزیدجاری رکھنے کا خواہش مند ہے،خدشہ ہے کہ امریکہ پاکستان میں اپنی فوج اور خفیہ ایجنٹوں کی تعداد میں کمی کر کے ڈرون حملوں پر بھر پور توجہ دے گا ۔اور ڈرون حملوں کے سلسلے کوتمام تر مخالفت کے باوجود نہ صرف جاری رکھے گا بلکہ اس کو ملک کے دوسرے حصوں بلوچستان ،سندھ ، پنجاب تک پھیلا دے گا۔ 2004ءسے اب تک امریکہ پاکستان میں 253ڈرون حملوں میں 2ہزار359افراد کو ہلاک کر چکا ہے ،مستقبل میں امریکہ کے ان اقدامات سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ اُس وقت کی پاکستانی حکومت اور فوج کے رد عمل سے مشروط ہے۔ امریکہ اپنی نام نہادعزت کو بچانے کے لیے خطے میں چاہے کوئی بھی حکمت عملی اختیار کرلے ،کوئی بھی سازش کرلے لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ افغانستان میں امریکہ افغان جنگ ہار چکا ہے اور شکست خوردہ کبھی عزت سے نہیں بلکہ ذلیل ہو کر بین کرتے ہوئے میدان جنگ سے واپس جاتے ہیں۔مزید معاشی و جانی نقصانات اور شرمساری سے بچنے کے لیے امریکہ کے پاس افغانستان سے مکمل اور حقیقی انخلاءکے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
جان عالم سوات
About the Author: جان عالم سوات Read More Articles by جان عالم سوات: 21 Articles with 26315 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.