وزرائے اعظم کی نااہلی ۔۔؟

ملک کی بدقسمتی ہے کہ ریاستی اداروں نے جہاں ’’جمہوریت ‘‘کواپنی رکھیل بنا رکھا ہے ،وہاں سیاستدانوں کو بکاؤ مال سمجھ کر استعمال کیا جاتا ہے ۔ان سیاستدانوں کی حیثیت ایک ’’کٹھ پتلی ‘‘سے زیادہ ہرگز نہیں ہوتی ۔سیاستدانوں کے ساتھ اس کھلواڑ کی ابتداء جنرل یحییٰ خان کے دور ِحکومت سے ہوئی ۔جب انتخابی عمل کے نیتجے میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ۔اس وقت بھی اقتدار کی منتقلی میں بڑی رکاوٹ یہ پیدا ہوئی کہ ذوالفقار علی بھٹو کسی بھی قیمت پر اقتدار عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کو دینے پر رضامند نہ تھے ۔اپنی اس سوچ کو انہوں نے لاہور میں ایک جلسے کے دوران اجاگر کیا جب انہوں نے ’’اُدھر تم، اِدھر ہم ‘‘کا فارمولہ پیش کیا اور واضح طور پر دھمکی دی کہ ’’جو بھی رکن قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کیلئے ڈھاکہ (مشرقی پاکستان ) جائے گا ،میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا ‘‘۔اس ضد اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا ۔شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کرکے اسلام آباد لایا گیا ،بعد ازاں بھٹونے شیخ مجیب الرحمن کو میڈیا پرسنز سے ملاقات کروائے بغیر ہی مشرقی پاکستان روانہ کر دیا ۔ ادھر تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے جنرل یحییٰ خان کے سر پر پستول رکھ کر انہیں مجبور کیا کہ وہ اقتدار بھٹو کے حوالے کریں ۔یوں ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی ۔ان کی حکومت کی مقررہ مدت میں ابھی چند ماہ ہی باقی تھے کہ اپوزیشن جماعتوں نے ان کے خلاف تحریک شروع کر دی ۔اسی دوران بعض اختلافات کی بناء پر بھٹو نے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کی برطرفی کا حکم نامہ تیارکیا ۔اس حکم نامہ پر مزید کارروائی سے قبل ہی سیکرٹری دفاع غلام اسحاق خان نے حق ِنمک ادا کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو آگاہ کر دیا ۔جنہوں نے راتوں رات بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا اور انہیں مری ریسٹ ہاؤس پہنچا دیا ۔بعد ازاں بھٹو کے ساتھ جو ہوا وہ سبھی جانتے ہیں ۔

اسی طرح نواز شریف کو بھی اداروں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بھاری مینڈیٹ سے نوازااور انہیں ملک کا وزیر اعظم بنا دیا ۔نواز شریف تین بار وزیر اعظم بنائے گئے اور تینوں بار ہی انہیں رسوا کرکے اقتدار سے نکال باہر کیا گیا ۔وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بھی ایک بار برطرفی کے صدمے سے دوچار ہونا پڑا ،سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو بھی نااہل قرار دیا گیا ۔ نواز شریف نے جب بطور وزیر اعظم جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کے احکامات جاری کئے تو ضیاء دورکی مانندانہیں بھی جنرل پرویز مشرف نے اُٹھا کر باہر پھینک دیا ۔وزیر اعظم کوان لوگوں کی تقرری اور برطرفی کا اختیار حاصل ہے جبکہ انہیں یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ وزیر اعظم کو کسی بھی صورت میں برطرف یا معزول کردیں ۔لیکن پاکستان میں یہ پریکٹس معمول بن چکی ہے کہ جہاں وزیر اعظم نے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے کسی کو برطرف کیا ،اس نے وزیر اعظم کو بھی مسند اقتدار سے اٹھا کر پھینک دیا ۔یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب قومی سلامتی کولاحق خطرات کو جواز بناء کر منتخب وزیر اعظم کو ہی چلتا کردیا جاتا ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کا آئین منظور کرتے ہوئے خوشخبری سنائی تھی کہ ’’اب اس ملک میں مارشل لاء کوہمیشہ کیلئے دفن کر دیا گیا ہے ۔اور آئندہ بغاوت کی صورت میں مذکورہ فرد کی سزا ’’موت‘‘ ہو گی‘‘ ۔لیکن دنیا نے دیکھا کہ بغاوت کا راستہ روکنے کیلئے آئین میں باقاعدہ شق شامل کئے جانے کے باوجودکسی باغی کا تو کوئی بال بھی بیکا نہ کرسکا، الٹا ذوالفقار علی بھٹو کو ہی تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ کے ساتھ ملک کا وزیر اعظم بنا یا گیا لیکن بعد ازاں انہیں برطرف کیا گیا ۔

اب پھر یہی پریکٹس منتخب وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ دہرائی گئی ہے ۔جسے آئین کی حکمرانی کا نام دیا گیا ہے ۔جبکہ اس ساری کارروائی کا مقصد محض ایک منتخب وزیر اعظم کو نکال باہر کرنا ہی تھا ۔ورنہ ملک کا کونسا شعبہ ہے کہ جہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے اور لوگ اپنے فرائض منصبی فرض شناسی کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔ہماری روایت بن چکی ہے کہ اراکین اسمبلی جس منتخب وزیر اعظم کے زیر سایہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں ،تین چار سال بعد انہیں اپنا ہی وزیر اعظم ’’نااہل ‘‘ نظر آنے لگتا ہے ۔جبکہ اراکین اسمبلی کی اپنی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان رہی ہے۔وقت پڑنے پر یہ لوگ اپنے ذاتی مفاد یا مخصوص لابی کی خواہشات کو پائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے وزیر اعظم پر ’’عدم اعتماد ‘‘کر دیتے ہیں جو انصاف کے منافی ہے ۔اگر وزیر اعظم نااہل ہے تو اراکین اسمبلی بھی ہرگز اہل نہیں قراردئیے جا سکتے ۔کیا زمانہ آیا ہے کہ وزیر اعظم تو ’’عدم اعتماد‘‘کے نتیجے میں اپنے عہدے سے الگ ہو گئے لیکن اراکین اسمبلی بدستور اپنی جگہ پر ڈٹے ہیں ۔انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر ’’علی بابا ‘‘وزارت اعظمیٰ کے قابل نہیں رہا تھا تو اس کے ساتھ 40چوروں کو بھی ان کی رکنیت سے فارغ کر دینا چاہئے ۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جن افسران کی تعیناتی بھی وزیر اعظم کے احکامات یا نظر عنایت کی مرہون منت ہے ۔وہی لوگ اٹھ کر وزیر اعظم کو چلتا کر دیتے ہیں ۔اس قسم کی من مانیاں کرنے والے کسی ایک بھی فرد کا کبھی کوئی احتساب نہیں کیا گیا اور نہ اسے کوئی سزا دی جا سکی ہے جبکہ منتخب وزیر اعظم کو ذلیل و خوار کرکے گھر بھجوانے کی روایت اب پختہ ہوچکی ہے جو کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔منتخب وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرنے والے فلاسفر اراکین اسمبلی اور وزرا ئے کرام یا کسی عہدے کے طلب گار لیڈران کو ایک لمحے کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ ان کا یہ عمل انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے بھی یا نہیں ۔

آئین کی بالادستی اور حکمرانی کے نام پر ہم خود آئین کی دھجیاں بکھیرنے میں ا پنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔روز محشر ہمیں ان کارناموں اور منافقانہ طرز ِعمل کا حساب دینا ہوگا ۔اور یہ وہ عدالت ہے کہ جہاں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔ ربّ کائنات کے دربار میں خود انسان کے اعضاء ،ہاتھ پاؤں،زبان وغیرہ گواہی دیں گے کہ اس بندے نے اپنی دنیاوی زندگی میں ہمیں کس کس طرح استعمال کیا ۔اس عدالت میں کوئی بچ نہیں سکتا ۔ہمیں روز ِمحشر حقوق العباد میں کی گئی کوتاہیوں اور زیادتیوں کا حساب دینا ہوگا ۔اس روزہمیں کوئی دنیاوی سپر طاقت ،کوئی جنرل ،کرنل یا وزیر ،مشیر ،آئی جی ، ڈی سی نہیں بچا پائے گا ۔سب کچھ آئینے کی طرح صاف شفاف ہمارے سامنے رکھ دیا جائے گا ۔اور وہ لمحہ ایساہوگا کہ انسان کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا ۔ہم اپنے گناہوں کی سزا پائیں گے اس کے بعد شائد اﷲ ہم پر رحم فرما کر ہمیں جنت میں رہنے کی اجازت دے دے ۔اب بھی وقت ہے کہ ہم صدق دل سے توبہ کرلیں ۔لوگوں کے ساتھ کی گئی ناانصافیوں کے ازالے کی کوئی تدبیر کریں تاکہ قیامت کے دن ہمیں کسی قسم کا پچھتاوا نہ ہو۔اور ہم عذاب آخرت سے بچ سکیں ۔

 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 115943 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.