متحدہ حکومت کی عمر کیا ہوسکتی ہے؟

متحدہ حکومت کی عمر کیا ہوسکتی ہے؟
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
سابقہ متحدہ اپوزیشن کی متحدہ حکومت قائم ہوچکی، سابقہ حکومت کو دھبڑ دھوس کرنے کے بعد شہباز شریف وزیر اعظم کے عہدہ پر براجمان ہوئے۔ فوری بعد پنجاب میں وزیراعظم صاحب نے اپنے برخوردار کو میدان میں اتارا۔ دل ِناتواں نے مقابلہ خوب ہی نہیں بلکہ بہت خوب کیا۔ اسمبلی ہال مچھلی بازار، غیر متعلق لوگوں کے علاوہ پولیس بھی اسمبلی ہال کے اندر اجلاس میں شریک ہونے آن پہنچی،یہ منتخب ایوان کی تاریخ کا انوکھا واقعہ، پھر جو میدان سجا، دنیا نے دیکھا، لوٹوں کی بارش ہوئی، ایک دوسرے پر تھپڑ، گھونسے، لاتیں اور ڈپٹی اسپیکر کی بڑی بڑی زلفوں سے بعض لوگ جھولتے دکھائی دیے۔ سب سے افسوس ناک بات یہ تھی کہ چودھری پرویز الہٰی اپنے ایک ہاتھ پر پٹی لپیٹے جس پر پائیو ڈین لگا دکھائی دے رہا تھا۔ دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر مخالفین کو دعا یا بد دعا درے تھے۔ کچھ دیر بعد اسی ٹوٹے ہاتھ کو اوپر اٹھائے، سہارے سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ ظالموں نے میرا ہاتھ توڑ دیا۔ اس کا ذمہ دار وزیر اعظم صاحب کے صاحبزادے اور پنجاب کے نامذ دوزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو ٹہرایا۔ پرویز الہٰی کا ہاتھ ٹوٹا یا نہیں لیکن یہ جو کچھ بھی ہوا انتہائی برا ہوا۔ پرویز الہٰی پاکستان کے سینئر سیاست داں ہیں ان کاخاندان سیاست میں رواداری، مروت، ادب و اداب کے حوالے سے معتبر ہے۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کئی اورلوگ بھی ذخمی ہوئے۔ اس واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ معاملہ عدالت میں ہے، عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی فریقین کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ سیاست دانوں کی زبان میں ملک نئے پاکستان سے پرانے پاکستان کی جانب لوٹ گیا، یہ بھی عجیب بیانیہ، عجیب منطق ہے نہ تو پاکستان نیا ہے اور نہ ہی پرانا۔بلکہ کوئی ملک بھی ناتو نیا ہوتا ہے اور نا ہی پرانا۔ ملک تو اپنے قیام سے آگے بڑھتا ہے، جیسے پاکستان اب 74برس کا ہوچکا ہے۔ اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ پاکستان پرانا ہوگیا۔حکومت نئی آگئی، یا قیادت نئی آگئی تو ملک نیا ہوگیا۔ یہ محض ایک دوسرے کی ضد میں، اپنا بیانیہ بنانے کے لیے اس قسم کی گفتگوسیاست دان کیا کرتے ہیں۔اس لیے پاکستان اپنی عمر کے اعتبار سے 74ویں سال میں ہے، اللہ پاک اسے قائم و دائم رکھے اور یہ بہتر انداز سے آگے کی جانب بڑھتا چلا جائے۔ نئی آنے والی حکومت کو کہنا چاہیے کہ پاکستان اب ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا، یہ ہر اعتبار سے ترقی کرے، اس کے عوام خوش حال ہوں۔ اس پر حکمرانی کرنے والے آتے رہیں، اپنا حصہ اس کی ترقی میں ڈالتے رہیں
پاکستان میں سیاسی حالات کب، کیسے، کس طرح نیا رخ اختیار کر لیں،کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ پاکستان میں اب تک کسی بھی وزیر اعظم نے اپنی آئینی مدت مکمل نہیں کی۔ فوجی انقلاب، صدارتی حکم (آئینی آرٹیکل58/2Bاب آئین سے ختم کردیا گیا)، عدالت سے نہ اہلی اور اب تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ حکومت کو گھر بھیج دینا۔ عمران خان کی حکومت 2018میں قائم ہوتی ہے اور پہلے ہی دن سے اپوزیشن نے اسے قبول نہیں کیا، اسے سلیکٹڈ قرار دیتی رہی۔ عمران خان کی حکمرانی3سال 8ماہ پر محیط رہی، متحدہ اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف ایسا محاز بنایا جس میں 11سیاسی جماعتوں کے علاوہ،کچھ حکومتی تحادیوں، عمران کی اپنی جماعت سے منحرف ہوجانے والے لوٹوں اور دیگر احباب جن کا تعلق بلوچستان سے رہا کو ملا کر، سب نے خان کی حکومت کو زمین بوس کردیا۔بقول عمران خان اس میں بیرونی سازش بھی شامل رہی، عدالتوں نے بھی اپنے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے اقدامات کیے جس کے لیے عدالتیں رات میں کھولی گئیں۔ چیف جسٹس نے درست کہا کہ عدالت 24گھنٹے کی ہوتی ہے۔ سرکاری ملازم کو انتظامیہ جب چاہیے بلاسکتی ہے۔ خاص طور پر مردم شماری اور انتخابات میں سرکاری ملازمین دن رات کام کرتے ہیں۔یہ بات بھی سپریم کورٹ نے درست کہی کہ ’کلچر بن گیا فیصلہ حق میں ہو تو انصاف کا بول بالا،خلاف ہو تو انصاف تار تار‘۔
شہباز شریف کی حکومت یا متحدہ حکومت کی عمر کیا ہوگی؟ اگر اقتدار سے چمٹنے اور اس کے مزے لینے میں بھانت بھانت کے سیاسی لوگوں یکجا بھی رہے تو اس نے 2023ء میں تو ہر صورت میں ختم ہوناہی ہے اس لیے کہ آئینی پابندی ہے، اسمبلی کی مدت خود بہ خود ختم ہوجائے گی اور نئے انتخابات لازمی ہونا ہوں گے۔ لیکن زمینی حقائق جو موجودہ حکومتی کے بارے میں یہ پتا دے رہے ہیں کہ متحدہ حکومت چند ماہ کی ہی ہوگی۔ جس طرح عمران خان کی جماعت کے اندر ٹوٹ پھوٹ ہوئی، اس کے اراکین باغی بنے، اتحادیوں نے ساتھ چھوڑا اور حکومت چلی گئی۔متحدہ حکومت کی بنیاد چوں چوں کے مربے پر ہے۔ ایک دو نہیں درجن بھر سیاسی جماعتیں، کئی گروپس، سابقہ حکومت کے اتحادی، خوشامد درآمد، منت سماجت کر کے لائے ہوئے اراکین۔ یہاں تو ایک جماعت میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہتا ہے، کیا نون لیگ میں ناراض اراکین نہیں، پیپلز پارٹی، مولانا صاحب کی جماعت میں ناراض لوگ نہیں پھر اس وسیع تر اتحاد میں مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے، مختلف مذہبی عقائد رکھنے والے، بعض لوگوں میں دشمنی در دشمنی چلی آرہی ہے۔ طویل عرصہ کیسے ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔ سب کو چھوڑیں شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان اختلافات نہیں۔ مریم نواز شریف مزاحمت اور شہباز شریف ہمیشہ سے صلاح پسند اور مفاہمت پسند ہیں جب کے دوسرں کا کہنا ہے کہ مزاحمت ہوگی تو مفاہمت کی طرف آیا جائے گا۔ شہباز شریف کی کابینہ نے حلف اٹھالیا جس میں ن لیگ کے16، پی پی کے11، جے یو آئی (ف)4، ایم کیو ایم2، بی اے پی، جمہوری وطن پارٹی کا ایک ایک رکن کابینہ میں شامل۔ باقی اتحادی کہاں گئے؟ جمعیت علماء پاکستان کے مولانا نورانی کے بیٹے کہاں گئے۔اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں بغیر وزارت کے کیسے ساتھ چلیں گی۔ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو نے حلف نہیں اٹھایاوہ لندن چلے گئے ہیں۔ کیا کرنے گئے نہیں معلوم۔ نواز شریف سے صلاح مشورہ ہوسکتا ہے، صدر کے لیے صدارت کی بات ہوسکتی ہے۔ اسی طرح محسن داوڑ، این پی بی، این پی مینگل کابینہ کا حصہ نہیں۔ جنہیں وزارت مل گئی وہ خوش جنہیں نہیں ملیں وہ ابھی دل ہی دل میں کوس رہے ہوں گے، اس کا بر ملا اظہار کچھ دن میں کرنے لگ جائیں گے۔ کابینہ کے حوالہ سے یہ بات کہیں جارہی ہے کہ اس میں ایسے احباب بھی ہیں جو ضمانت پر ہیں، وزیر اعظم صاحب از خود یہ اعزاز رکھتے ہیں۔ جن پر سیاسی نوعیت کے مقدمات ہیں وہ تو سیاست میں ہوتے ہی ہیں البتہ جن پر سنگین قسم کے مقدمات ہیں اور ان کی ضمانت ہوگئی ہے ایسے لوگوں کو وزارت سے دور ہی رکھنابہتر تھا۔
متحدہ حکومت مختلف قسم کے اتحادیوں پر مشتمل ہے ان کا زیادہ عرصہ تک ایک دوسرے کے گلے لگے رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔اگر حکومت طول پکرتی ہے تو یہ ایک ایک کر کے آواز اٹھائیں گے اور رفتہ رفتہ ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ جائے گی۔ سابقہ تجربات یہی بتا تے ہیں۔ ابھی کابینہ بنی نہیں تھی اندر سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں تھیں کہ فوری الیکشن مسائل کا حل ہیں۔ خود مولانا صاحب نے اس جانب اشارہ کیا، مخدوم جاوید ہاشمی کا بھی یہی کہنا ہے کہ حکومت کو فوری الیکشن میں جانا چاہیے۔ بے شمار تجزیہ کاروں کی بھی یہی رائے ہے۔ دوسری جانب عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کے دیوانے جو پریشر ڈال رہے ہیں وہ اپنی جگہ اہمت رکھتا ہے۔ پشاور،کراچی اور لاہور میں پاور شو بہت سے بہ اختیاروں کے دلوں پر اثر کر سکتا ہے، حکومت خود بھی اس پریشر میں آسکتی ہے۔ لیکن ابھی جمعہ جمعہ چند دن تو ہوئے ہیں اقتدار کے مزے تو لے لیں، بعض بعض تو پہلی مرتبہ وزارت کے منصب پر فائز ہوئے وہ تو جھنڈے والی گاڑی کی کچھ سیر کرلیں۔ کراچی آکر سینہ تان کر کہیں گے کہ دیکھوکپتان کے چاہنے والوہم نے حکومت حاصل کر لی۔ کچھ کرسکو تو کر لو۔کچھ بھی صحیح حالات اور واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ متحدہ حکومت کی عمر چند تین سے چار ماہ کی دکھائی دے رہی ہے۔یہ حکومت 2023ء کا سورج دیکھتی نظر نہیں آرہی۔ پاکستان کے حق میں جو بہتر ہو اللہ وہی کرے۔ سیاسی لوگ آتے رہیں گے جاتے رہیں۔ اللہ پاک وطن پاکستان کو سلامت رکھے، آمین (22اپریل 2022ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1287928 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More