یہ بیرنگ بریوک نہیں پورا مغرب ہے

مغربی دنیا میں طویل عرصے کے بعد دہشت گردی کی واردات ہوئی ہے ۔ناروے میں ایک بتیس سالہ شخص جس کا نام اینڈرسن بہر نگ بری وک ہے نے صدر کی رہائش گاہ کے قریب ہونے والے ایک اجتماع میں بے دریغ فائرنگ کرکے ترانوے (93) افراد کی جان لے لی۔ یاد رہے کہ یہ شخص مسلمان نہیں کٹر عیسائی ہے اور یہی بات ہے جس کا اسے فائدہ دیا گیا۔ مختلف نیوز چینلز نے اُس کے اس فعل کے لیے مختلف توجہات تراشیں کسی نے اُسے گن مین، کسی نے حملہ آور کہا ۔ امریکہ نے اس کے فعل کو بدامنی کا ایک واقعہ قرار دیا ۔یہ تو بھلا ہو اندرے بریوک کا جس نے خود ہی قبل از واقعہ اور بعد از واقعہ اقرار جرم کیا شا ید وہ بھی جانتا تھا کہ اُسے کوئی بھی دہشت گرد قرار نہیں دے گا بلکہ اُس کے فعل کو دہشت گردی کے علاوہ کوئی بھی نام دے دیا جائے گا ۔اُس نے واقعے سے قبل 1516 صفحات پر مشتمل جو اپنا منشور لکھا اُس نے صاف طور پر خود کو مسلمانوں کا شدید ترین مخالف اورکٹر عیسا ئی کہا ۔ اُسے یورپ میں اسلام پھیلنے کا غم اور دکھ ہے اور اگر سوچا اور دیکھا جائے تو درحقیقت یہ غم اور دکھ پورے مغرب کو ہے اور یہ خوف بھی کہ ایک دن اسلام کم از کم یورپ کا اکثر یتی مذہب بن جائے گا اور یہی خوف امریکہ کو بھی لاحق ہے اور اسی خوف نے اہل مغرب کی نیندیںحرام کر رکھی ہیں۔ بظاہر خود کو لبرل اور غیرمتعصب کہنے والے یہ لوگ اندر سے انتہائی تنگ نظر اور متعصب ہیں اور عالم اسلام کے خلاف ہر وقت نبردآزماہیں۔ ناروے میں ہونے والے اس واقعے پر ان کا ردعمل انکے تعصب کی انتہا ہے۔ اگر یہی قتل کسی مسلمان کے ہاتھ سے سرزد ہوتا تو اسے ایک اور 9/11 بنا کر مسلمانوں پر ہلہ بول دیا جاتا۔ حتٰی کہ اگر دوچار لوگ بھی مارے جاتے تو اسے دہشت گردی کا بہت بڑا واقعہ قرار دیا جاتا اور اگر یہ کسی مسلمان ملک میں کسی اقلیت کے خلاف ہوتا تو پاکستان یا دوسرے مسلمان ملک کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ترین ملک قراردے دیا جاتا ۔ یہ ہے اہل مغرب کا اصل چہرہ جسے دنیا کے سامنے خوشنما بناکر پیش کیا جاتا ہے اور ہر راسخ العقیدہ مسلمان انہیں دہشت گرد نظر آتا ہے جبکہ دراصل یہ دہشت گرد خود بناتے ہیں انہیں ہر قسم کی امداد مہیا کرتے ہیں ،ان سے ہر طرح کا کام لیتے ہیں مسلمان ملکوں کی غربت کو کیش کرتے ہیں، خود معیشت کی تباہی کے کنارے پر پہنچ کر بھی انتہائی غریب مسلمانوں کو دہشت گردی کرنے کے لیے رقم فراہم کرتے ہیں۔ انہیںخود اپنے ہی ممالک کے خلاف استعمال کرتے ہیں اور یوں ان ممالک میں اپنی دخل اندازی کا انتہائی بے تکاجواز ڈھونڈھ لیتے ہیں۔ یہی کچھ امریکہ اور یورپ پاکستان کے ساتھ کررہا ہے ۔ بات دراصل ایک شخص کی نہیں بلکہ صدر بش سے لیکر آندرے بریوک تک سب کے سب اہل مغرب نے اس جنگ کو مقدس مذہبی جنگ ہی سمجھ لیا اور پھر اس کا نشانہ ہر مسلمان کو بنالیا۔ خود کو انتہائی مہذب ، روشن خیال اور فراخ دل کہنے اور سمجھنے والے اِن لوگوں نے نہ صرف ہر مسلمان کو دہشت گرد سمجھ لیا بلکہ ان کے مقدس مقامات یہاں تک قرآن پاک تک کی ﴿نعوذباللہ﴾ بے حرمتی کی اور ایسی وحشیانہ حرکتیں کیں کہ جس کی تاریخ میں مثال تک نہیں ملتی۔ امریکہ کے پادری ٹیری جونز کے بدترین گناہ کو ابھی تک مسلمان نہیں بھولے اور نہ ہی اس سیاہ ترین صفحے کو یہ لوگ تاریخ سے پھاڑ کر پھینک سکتے ہیں لیکن اس کے مذموم فعل کے بعد کیا ہوا نہ تو وہ حکومت امریکہ کو انتہائی مطلوب شخص بنا اور نہ ہی مسلمانوں کے اس فتوے کو جائز قرار دیا گیا کہ یہ ملعون شخص قابل گردن زدنی ہے اگر ہوا تو یہ کہ اُسے انتہائی تحفظ فراہم کر دیا گیا۔ چونکہ اینڈرسن بیرنگ بری وک نے ناروے کے عیسائی باشندوں کا قتل عام کیا ہے اس لیے اس کو سزا ملنے کے امکانات تو ہیں لیکن ڈیڑھ ہزار صفحات کا شیطانی منشور اور منصوبہ شائع کرنے پر بھی اُسے دہشت گرد نہیں کہاجا رہا کیونکہ یہ سارازہر مسلمانوں کے خلاف اگلا گیا ہے اور شاید اسی منصوبے کا فائدہ اُسے دے کر ذہنی مریض یا کوئی اور بہانہ تراش کر سزا سے بچا لیا جائے ۔ با لکل اُس طرح جس طرح ہر مسلم دشمن کو بچا لیا جاتا ہے اور اس کے فعل کو آزادی اظہار رائے کہہ دیا جاتا ہے جبکہ یہی اظہار رائے جب کوئی مسلمان کرتا ہے تو اُسے بنیاد پرست ، دہشت گرد اور شدت پسند گردان کر اُس کے خلاف طوفان اٹھا دیا جاتا ہے اس کو علی الاعلان انتہائی مطلوب قرار دے دیا جاتا ہے۔ دراصل مغرب کے یہی دوہرے معیار ہیں جو اُس کے ذی شعور شہریوں کو اسلام کے متعلق سوچنے، پڑھنے ،جاننے اور پھر مان لینے اور قبول کرلینے پر آمادہ کر دیتے ہیں۔ اسلام یورپ ہی نہیں امریکہ کا بھی سب سے زیا دہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ تیزی 9/11 کے ڈرامے کے بعد آئی ہے جس نے پورے مغرب کوہلا کر دکھ دیا ہے اور یہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ مسلمان ممالک سے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ خود یورپ اور امریکہ کے غیر مسلم باشندے اسلام قبول کر رہے ہیں۔ اب چاہے جتنے بھی ٹیری جونز، مولی نورس یا بیرنگ بر یوک اٹھ کھڑے ہیں وہ اس تبدیلی کو نہیں روک سکتے اِن میں سے ہر ایک کا طریقہ واردات دوسرے سے مختلف ہے لیکن ہر بار ہر مکروہ فعل کے بعد نقصان مجرم کو ہی ہو رہا ہے اور اسلام کے پھیلاؤ سے خائف یہ لوگ اس کو روکیں گے تو کیا ان کا ہر فعل اس میں تیزی پیدا کر رہا ہے اور خود ان کے غیر مسلم شہری اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس لیے مغربی ممالک کو اپنے نامہ اعمال پر نظر ڈالنی چاہیے جس نے نہ صرف دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان سے بد دل کر دیا ہے بلکہ ان کے شہری بھی ان سے بد دل ہو کر اُن کی مخالف سمت میں چلے جا رہے ہیں اور یہ سفر اب رکتا ہوا نظر نہیں آرہا بلکہ مستقبل میںاس میں مزید تیزی آئے گی۔ لہٰذا اہل مغرب کو اپنے رویے پر غور کرنا ہوگا اور یہ بھی کہ اب اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے مسلمان ممالک کی تباہی ان کے لیے مزید خطرناک ثابت ہوگی اور ہمیںبھی مغربی میڈیا کی آزادی اور اظہار رائے کی شخصی آزادی کے طلسم سے نکل کر ان کی برتری کے احساس کو ختم کرنا ہوگا اور یہ یقین پیدا کر نا ہوگا کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہم ہی حق پر ہیں تبھی وہ لوگ اپنا مذہب چھوڑ کر ہمارا مذہب اختیار کر رہے ہیں ہمارے مدرسوں ،ہمارے قرآن اور ہمارے مذہب کو دہشت گرد سمجھنے والے خود ان کی حقانیت کی دلیل بن رہے ہیں۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے کہ حق غالب ہوکر رہے گا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 511930 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.