نظریہ پاکستان۔۔۔ہماری بقا کا واحد راستہ

د

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

قاضی کاشف نیاز

ایک بندے کے پاس کوئی کیمیائی نسخہ،کوئی ایٹم بم کا نسخہ،ہر چیز کو سونا بنانے والا کوئی پارس پتھر ،کوئی الہ دین کا چراغ اور کوئی بڑی بڑی مشکلات سے نکالنے والا فارمولہ اس کی جیب میں ہو لیکن وہ اسے بھول کر یا اسے نظر انداز کر کے یا اسے معمولی چیز سمجھ کر اس سے بہتر کسی اور نسخے۔۔۔۔ کسی اور فارمولے کی تلاش میں اپنی جان جوکھوں میں ڈالتا پھرے۔۔دنیا جہان کی لائبریریوں میں جا کر، بڑے بڑے نابغہ سکالرز کی کتابوں میں غریق ہو کر اپنے تئیں زیادہ بہتر اور زیادہ پر اثر کسی جادوئی نسخے میں سر کھپاتا پھرے،ایک بہترین زریں نسخہ اس کی جیب اور بغل میں ہو لیکن ڈھنڈورا پوری دنیا میں کرتا پھرے تو اس سے زیادہ پاگل،فاترالعقل اور حرماں نصیب اور کون ہو گا۔۔۔اس پر پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ چراغ تلے اندھیرا ہے یا گھر کی مرغی دال برابر سمجھ لی گئی ہے۔۔ایک عظیم نعمت اپنے پاس موجود ہونے کے باوجود انسان اس کی ناقدری کرے تو اس سے زیادہ قابل صد افسوس بات اور کیا ہو سکتی ہے ۔۔
وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رھا
دنیا بھر کی اقوام اورمالک ہمیشہ اپنی بقا کے لیے جس بات کے لیے سب سے زیادہ متفکر اور پریشان رہتے ہیں،وہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں کوئی ایسی مشترک بنیاد مل جائے جس پر وہ اپنی پوری قوم اور ملک کو متحد و یکجان رکھ سکیں۔۔۔کیونکہ یہ بات دنیا بھر کے سکالرز ،دانشور اور سیاستدان و رہنمایان قوم جانتے اور مانتے ہیں کہ کسی مشترک بنیاد اور کسی مشترک جذبہ کے بغیر کبھی بھی کسی قوم اور ملک کو نہ متحد رکھا جا سکتا ہے نہ قائم رکھا جا سکتا ہے۔۔۔جب ایک معمولی عمارت ایک بنیاد کے بغیر نہیں کھڑی ہو سکتی تو ایک پورا ملک اور پوری قوم کیسے کسی مشترک بنیاد کے بغیر قائم و برقرار رہ سکتی ہے۔

پاکستان پر جہاں اﷲ تبارک و تعالیٰ کے بہت سے احسانات ہیں،اسے ہر طرح کے بیش بہا وسائل اور سردی و گرمی اور خزاں و بہار کے ہر موسم اور ہر رنگ سے نوازا ہے،وہیں یہ بھی اﷲ کا بہت بڑا کرم و فضل ہے کہ اﷲ نے اس ملک کی بقا کے لیے ہمیں ایک ایسی مشترکہ اور غیر متزلزل بنیاد فراہم کی ہے جو دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام کو کم ہی حاصل ہے۔۔۔کوئی ملک اپنے کسی ایک قبیلے یا نسل کی بنیاد پر اپنی پوری قوم کو متحد رکھنا چاہتا ہے لیکن وہاں ایک نسل کے علاؤہ بھی دوسری نسلیں اتنی تعداد میں ہوتی ہیں جو اس ملک کی مشترکہ بنیاد کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔۔۔کوئی چاہتا ہے کہ رنگ کی بنیاد پر اور کالے گورے کے صنفی امتیاز پر ملک و قوم کو متحد کر لے لیکن وہ اس میں بھی بری طرح ناکام ہو جاتے ہیں۔۔۔وہاں آئے دن کالے گوروں کے جھگڑے اور فسادات ملکی بنیادوں کو لرزہ بر اندام کیے رکھتے ہیں۔۔۔کوئی چاہتا ہے کہ ذات پات اور آرین نسل کی بنیاد پر اپنے ملک کو متحد رکھ لے لیکن یہ ذات پات کی تقسیم بھی انسانیت کے لیے اور ملک کی یکجہتی کے لیے باعث ننگ و عار بن جاتی ہے اور پوری دنیا سے اسے نازی ازم کے شرمناک خطابات ملتے ہیں۔۔

الحمدﷲ یہ پاکستان کو اعزاز حاصل ھے کہ اﷲ نے اسے ملک کی یکجہتی کے لیے بھی ایسی مشترکہ بنیاد عطا کی ہے جو باعث افتخار بھی ہے اور اس قدر مضبوط بھی جو دنیا کے اکثر ملکوں کو حاصل نہیں۔۔۔ہمارے ملک کی 98فیصد آبادی ایک زندہ مذہب ۔۔دین اسلام کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔۔۔کل جب اس ملک کا قیام عمل میں آیا تو وہ اسی انتہائی مضبوط اور مشترکہ بنیاد ۔۔۔دین اسلام کی بنیاد پر ہی وجود میں آیا تھا۔۔۔آج سے 81سال پہلے 23مارچ 1940ء کو جب ایک الگ ملک کا مطالبہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ اسی بنیاد پر تھا کہ چونکہ مجوزہ پاکستان کے خطے کے لوگوں کی بہت بڑی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔۔لہذا انہیں ایک ایسے الگ وطن کی ضرورت ہے جہاں وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق آزادانہ اور پرامن و باعزت زندگی گزار سکیں۔۔۔قرارداد پاکستان اسی مشترکہ بنیاد کی آئینہ دار تھی کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے ،انہیں الگ مملکت کے طور پر یکجا کر دیا جائے۔۔۔

اسلام کی یہی وہ مضبوط ترین بنیاد تھی جس کی وجہ سے اس قرارداد کی منظوری کے صرف سات سال کے اندر اندر پاکستان کے قیام کا حیرت انگیز معجزہ وقوع پذیرہو گیا جو بیسویں صدی کا سب سے بڑا معجزہ تھا۔۔۔

آج اسی پاکستان کو بہت سے اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں۔۔۔کہیں اسے سندھی،بلوچی اور پنجابی و پختون اور سرائیکی و اردو زبان بولنے والوں کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں تو کہیں اسے ایک سیکولر ملک کے طور پر قائم رکھنے کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں۔۔۔حالانکہ جو عمارت جس بنیاد پر قائم ہوتی ہے،وہ ہمیشہ اسی بنیاد پر ہی قائم رہتی ہے۔۔۔اس کی بنیاد کی تبدیلی اس عمارت کی مکمل تباہی کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔۔1971ء میں ہم نے اس بنیاد کی تبدیلی کا نتیجہ دیکھ لیا جب یہاں زبان کی بنیاد پر لسانی تعصب کا زہر گھولا گیا تو مسلمانوں کی اس سب سے بڑی مملکت کے دو ٹکڑے ہوگئے۔۔۔1965ء میں جب ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا اور دشمن نے رات کے اندھیرے میں اس مملکت خداداد پر شب خون مارنے کی کوشش کی تو اس وقت جنرل ایوب خان جو ویسے سیکولرزم کی تاریکیوں کا بڑا داعی تھا لیکن ملک بچانے کے لیے انہیں اسی دو قومی نظریہ اور کلمہ لاالہ الا آﷲ محمد رسول اﷲ کا ہی سہارا لینا پڑا ،تب اس کلمے کی برکت سے ہی یہ معجزہ برپا ہوا کہ ہم نے اپنے سے پانچ گنا بڑے طاقتور ملک کو شکست فاش دے دی۔۔۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک بھارت میں ہونے والے مسلسل مسلم کش فسادات اور مسلم مخالف اقدامات نے بھی دو قومی نظریہ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔۔آج مسلمان وہاں اپنی جان بچانے کے لیے ہندؤوں جیسے نام اور ہندو تہذیب اپنانے پر مجبورہوچکے ہیں ۔۔۔۔مسلمان طالبات کو تعلیمی اداروں میں حجاب تک کی اجازت نہیں۔۔ کشمیر و بھارت کے کانگریس نواز رہنما بھی اب یہ اعتراف کرنے پر مجبور ھو گئے ہیں کہ دو قومی نظریہ ہی برحق تھا اور ہے۔۔۔ آج بھی سوچنے کی بات ھے کہ کیا دین اسلام کے علاؤہ بھی کوئی ایسی مشترکہ بنیاد ہے جو پورے ملک کی اکثریت کو ایک لڑی میں پرو کر بنیان مرصوص بنا دے۔۔۔اس ملک کو نہ تو پنجابی کی بنیاد پر متحد رکھا جا سکتا ہے نہ سندھی زبان کی بنیاد پر نہ سرائیکی و پشتو اور نہ بلوچی زبان کی بنیاد پر ۔۔۔سیکولرسزم بھی کبھی اس ملک کی یکجہتی کا ضامن نہیں بن سکا کیونکہ یہاں 98فیصد مسلمانوں کی اکثریت ھے جو سیکولرازم کی بجائے دین اسلام کو ہی حکومت سمیت ہر شعبہ میں اپنا آئیڈیل نظام سمجھتے ہیں۔۔۔۔اس ملک کی یکجہتی اور بقا کا ضامن آج بھی صرف دین اسلام ہے۔۔۔۔ کل س کے قیام کی واحد وجہ یہی دین اسلام اور کلمہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ تھا تو آج بھی یہی کلمہ ہی واحد نکتہ اور بنیاد ہے جو پورے ملک کو مضبوط اور متحد رکھ سکتا ہے۔۔۔آج بھی کوئی بتا سکتا ہے کہ جو ملک میں سندھی بلوچی اور لسانی تعصب کی آگ لگائی جا رہی ہے،آخر یہ آگ کون سی چیز بجھا سکتی ہے۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ اس آگ کو بجھانے کا کام صرف اور صرف کلمہ لا الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ ہی انجام دے سکتاہے۔۔۔اور کسی بھی نظریے میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ملک کی تمام گونا گوں اور رنگا رنگ قسم کی نسلوں،ذاتوں،زبانوں اور فرقوں کے باہمی افتراق و اختلاف اور نفرتوں کو ختم کر سکے۔۔۔ پاکستان کا نظریہ اور خواب پیش کرنے والے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے کسی ملک کی مضبوط بنیاد کے لیے اپنے پیغام اور شاعری میں ہمیں یہی آفاقی نظریہ تو پیش کیا تھا کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

آئیے آج مفکر پاکستان کے اس نظریہ کو،اس کلمہ کو جو اس نظریہ کا ترجمان ہے اور اس دو قومی نظریہ کو پھر سے حرز جاں بنائیں جو ہماری بقا کا واحد ضامن ہے،اسے اپنا ماٹو و منشور اور دستور بنائیں تو کل جس طرح اس نظریہ کی عظیم بنیاد پر دنیا کی ایک سب سے بڑی مسلم مملکت کے قیام کا معجزہ رونما ہوا تھا اورہم نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو شکست دی تھی۔۔تو کوئی وجہ نہیں کہ آج نفرت و تعصب کے پھیلے ھوئے شعلے بھی اسی کلمہ اور نظریہ کی برکت سے راکھ بن کر بجھ جائیں اور وطن عزیز ایک بار پھر دنیا میں ایک مضبوط ترین اور ناقابل تسخیر ملک کے طور پر ابھر آئے۔۔۔اﷲ اس ملک کو ہمیشہ تا قیامت قائم و دائم رکھے۔۔۔آمین

 

Habib Ullah Qamar
About the Author: Habib Ullah Qamar Read More Articles by Habib Ullah Qamar: 193 Articles with 119400 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.