عزت و احترام کا فقدان

والدین ،بزرگوں اور اساتذہ کرام کا احترام قصہ ء پارنیہ بن چکا ہے ۔عزت و احترام ماضی کا خاصا تھا ،بچے اپنے والدین اور اساتذہ کرام کے سامنے ننگے سر نہیں جایا کرتے تھے اور نہ ہی ان کے برابر بیٹھا کرتے تھے ۔ٹیکنالوجی کے جدیددور میں جہاں ایجادات نے رابطوں کو سہل اور قابل رسائی بنا دیا ہے ،وہاں عزت و احترام اور شرم و حیاء کے سبھی پردے وا کر کے رکھ دئیے ہیں ۔بچے اور شاگرد خود سیکھنے کی بجائے ’’بڑوں‘‘کو سکھانے میں لگے ہیں ۔بچے اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے کی بجائے بڑوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ قربانیاں دیں ۔اپنا آثاثہ موت سے قبل ہی حقدار کے سپرد کر دیں ۔برس ہا برس کی محنت سے کھڑی کی جانے والی عمارتیں ’’حق‘‘ کی بنیادپر زمین بوس کردی جاتی ہیں ۔بڑی بڑی سٹیٹس بنانے والوں کوان کی اولادیں اور ورثا ء نا سمجھ اور بے وقوف قرار دے دیتی ہیں ۔ایک لمحہ اگر ہم یہ بات سوچیں کہ ایک 10منزلہ عمارت اپنی پہلی اینٹ سے لے کر ایک پوری سٹیٹ بننے تک کن کن مراحل سے گذری ہوگی تو والدین کی عقل پر ماتم کنا ں اولاد ان کے قدموں میں گر کر معافی مانگے۔جھک کر ان کی عظمت کو سلام کرے ۔کہ جنہوں نے اولاد کے سکھ کیلئے اپنا دن رات کا چین برباد کیا ایسی اولاد جو اپنی زندگی میں ایک اینٹ خریدنے کی سکت نہیں رکھتی ۔وہ بھی ماں باپ کی محنت کی بے قدری میں پیش پیش ہوتی ہے ۔

باادب بامراد اور بے ادب بے مراد ہوتا ہے ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بدتہذیبی کے ایسے دور سے گذر رہا ہے کہ لوگ سبھی ادب احترام بھول کر اپنی من مانیوں میں لگے ہیں ۔ساری عمر اولاد کے لیے ’’رشوت ‘‘کھاکر ان کیلئے آسائشئں اکٹھی کرنے والے والدین کو بھی زندگی میں سکھ نصیب نہیں ہوتا ۔انہیں بھی اولاد طرح طرح کے طعنے مارتی نظر آتی ہے کہ یہ بلڈنگ یوں بنانا تھی ،یہ فیکٹری یوں لگانا تھی ،یہ مال اور پلازہ اس نقشے پر بنانا تھا وغیر ہ وغیرہ۔گھر کے آگے دکانیں بنانا تھیں ، گھر کی جگہ پلازہ بنانا تھا ۔خاندان کی بجائے کسی امیر گھرانے میں شادی کرنا تھی ۔خونی رشتوں سے فاصلہ رکھنا تھا ۔دوستیاں پالنے کی کیا ضرورت تھی ۔ایک بات تو اب زبان زدعام ہے کہ اولاد کی نظرمیں والدین تو بے وقوف تھے ،پرانے دور کے تھے ۔اس وقت لوگوں میں عقل وشعور کا فقدان ہوتا تھا ۔ہم تو کمپیوٹر کے دور کی پیداوار ہیں ،ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے ،تسخیر کائنات کو وسعت دینے کا زمانہ ہے ۔اورایک یہ بزرگ ہیں کہ انہیں باہر کی دنیا کا پتہ ہی نہیں ہے

دیکھا جائے تو پرانے زمانے میں لوگ احترام کے رشتوں میں بندھے ہوتے ہیں ۔تار کے بغیر کسی بھی چیز کا چلنا ممکن ہی نہ تھا ۔سائنس نے ترقی کی تو دنیا ’’ریموٹ کنٹرول‘‘سے چلنے لگی ۔تار کے بغیر پوری دنیا ایک دوسرے سے منسلک ہو گئی ۔ظاہر ہے کہ جب تار ہی نہ ہوگی یا کوئی کنکشن ہی نہیں ہوگا تو کیا خاک نظام زندگی چلے گا ۔فی زمانہ رابطوں کا سارا سسٹم’’سوشل میڈیا ‘‘تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔سوشل میڈیا پر بزرگوں کی تذلیل ہمارا کلچر بن چکا ہے ۔سیاسی میدان ہو یا مذہبی و سماجی نظریات و افکار۔لوگوں نے ایک دوسرے کی تذلیل کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔انسانوں نے فرشتوں کے روپ میں سوشل میڈیا پر اپنی حکومت قائم کر رکھی ہے ۔ان فرشتہ صفت لوگوں کی نظر میں ان کا ہر مخالف شیطان ،چور اور ڈاکو ہے ۔سوشل میڈیا ہمارا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے ۔ہم دین اسلام سے دور ہوچکے ،صبح شام سوشل میڈیا پر مخالفین کی مٹی پلید کرنا ہمارے لئے گویا ایک’’ قومی کھیل ‘‘بن چکا ہے ۔وڈیو ایڈیٹنگ کے ذریعے ہم انسانوں کو جانور بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔ دو نمبر وڈیوز اور فوٹوز کے ذریعے ہم اپنی ذہنیت کو بڑی مہارت سے اجاگر کرنے لگے ہیں ۔سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارا معاشرہ غلاظت اور گندگی کا وہ ڈھیر بنتا جا رہا ہے کہ جس کی بدبو تک ہمیں نہیں آتی ،ہم اپنی کارناموں پر خوش ہیں اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی ہماری اپنی گندگی سے بھی ہمیں بارہ عطروں کی خوشبو محسوس ہوتی ہے ۔ ہم اپنے کارہائے نمایاں کی بدولت خود کو ’’جنت کا مکین ‘‘سمجھنے لگے ہیں جبکہ ہمارے سوا باقی سبھی لوگ دوزخ کا ایندھن بننے کے حقدار ہوں گے اور شاہد ان گناہگاروں کے آگ میں جلنے سے پیدا ہونے والی تپش سے ہم لوگ روز محشر اپنے ہاتھ تاپ رہے ہوں گے ۔دیکھا جائے تو ہم آخری صدی کے وہ مسافر ہیں کہ جو اپنے کارناموں پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر محسوس کرتے ہیں ۔خدا کے خوف سے اگر ہمیں ڈر نہ لگے تو ہم دنیا میں ہی لوگوں کو ’’جنت‘‘ اور ’’دوزخ ‘‘کے سرٹیفیکیٹس جاری کرنے شروع کر دیں ۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ فیصلہ تو پروردگار عالم نے روزِ قیا مت ہی کرنا ہے کہ کون کس چیز کا حقدار ہے ۔ہمیں ایک بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ روز محشر ہم سب کو اپنے اپنے اعمال کا حساب دنیا ہے ۔ہم سے کسی دوسرے کے معاملات کا حساب نہیں پوچھا جائے گا،حقوق اﷲ سے زیادہ حقوق العباد کی پوچھ گاچھ ہونا ہے ۔خدا معلوم ہماری کون سی نیکی اﷲ کے ہاں قبولیت پا جائے اور کوئی ایک معمولی سی لغرش ہمیں دوزخ کا ایندھن بناڈالے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حقوق و فرائض کو پہچانیں ۔ہمیں چاہئے کہ ہم انسانیت کو اذیت دینے کی بجائے انسانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان کے دکھ دردبانٹنے پر دھیان دیں ۔دنیا کی عارضی زندگی کو سہل بنانے کیلئے ہم اپنی عاقبت خراب نہ کریں تو اسی میں ہماری بھلائی ہے ۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 115922 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.