دنیا ئے اُردو کے عظیم ترین ناول نگار نسیم حجازی کی آپ بیتی

’’دنیائے اسلام کے بیٹے کی داستان جسے زمانہ مدتوں یاد رکھے گا‘‘۔
عظیم ناول نگار نسیم حجازی کے نام کے بغیر اردو ادب کی تاریخ نامکمل ہے۔ حال میں ہی تیس مقبول و معروف ادیبوں اورمدیران کی آپ بیتیاں کا مجموعہ سامنے آیا ہے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہے کہ نسیم حجازی صاحب کی زندگی کی روداد بھی اس مجموعے کا حصہ ہے جس نے اس کتاب کی تاریخی حیثیت میں وہ اضافہ اولین روز سے کر دیا ہے جو کہ اس کتاب کو برسوں بعد حاصل ہونا تھا، یہی ’’ آپ بیتیاں‘‘ کے ناقدین کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے جو یہ چاہتے تھے کہ یہ مجموعہ شائع نہ ہو سکے کہ اُردو ادب کی تاریخ میں یہ مثال کبھی نہیں سامنے آئی ہے کہ دورحاضر کے مشہور قلم کاروں اورمدیران کے حالات زندگی اتنی بڑی تعداد میں ایک مجموعے کی صورت میں سامنے آئے ہوں۔

نسیم حجاز ی صاحب کی زندگی کی روداد آج کے کئی نوجوانوں کے لئے ایک مثال ہے کہ وہ نہ صرف لکھنے بلکہ حقیقی معنوں میں بھی قلم کار کے طور پر بھی محب وطن تھے۔اس کتاب میں شامل ان کی آپ بیتی کو پڑھ کر علم ہوا ہے کہ وہ وہ بچپن سے ہی بہت بہادر،نڈر اور محب وطن تھے۔حجاز کی سرزمین سے عقیدت رکھنے کی بناء پر اپنا نام نسیم حجازی منتخب کرنے والے یہ مقبول ترین ادیب بچپن میں ہی جان گئے تھے کہ آزادی کتنی ضروری ہے

ان کے لڑکپن کا واقعہ ہے کہ وہ ایک ہوٹل میں کھانا کھانے گئے،وہاں ایک ہندو لڑکا پہلے سے بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ اپنی آپ بیتی میں نسیم حجازی مرحوم فرماتے ہیں کہ غلطی سے میرا بازو اس لڑکے سے ٹکرا گیا،اس لڑکے نے محض مذہب و قومیت کی نفرت کی بناء پر کھانا ہی پھینک دیا۔اس واقعے نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔مجھے ان کی آپ بیتی پڑھ کر رشک آیا کہ کیا ہی کمال کا بندہ تھا، بغیر کسی لالچ اور غرض کے صرف آزادی اور قلم کی حرمت کے حصول کے لیے انتھک محنت کرتے ہی چلے گئے۔

لڑکپن کی عمر سے ہی وہ اپنی دلیری اور فہم و فراست کی وجہ سے مشہور تھے۔ان کی بہادری کا دلچسپ واقعہ بھی کیا خوب ہے۔ دو گاؤں کے درمیان لڑائی جو کہ میدان جنگ بننے کو تیار تھی ،اس کونہایت احسن انداز میں کبڈی جیسے کھیل سے حل کیا۔یہ کوئی عام معمولی کام نہیں ہے یہ وہی کرسکتا ہے جس کا اندر اور باہر صاف و روشن ہو۔

پہلا ناول 23سال کی عمر میں ’’داستان مجاہد‘‘ لکھا۔جس عمر میں ہمیں صحیح سے الفاظ کا تلفظ اور املاء بولنے اور لکھنے میں نہیں آتے ، انہوں نے ناول لکھ ڈالا وہ بھی آزادی کے پرچار پر جس کو پڑھ کر پبلشرانگلیاں دانتوں میں داب لیتے کہ اتنا کڑوا سچ کون چھاپے؟

نسیم حجازی کا کہنا تھا کہ میں نے زندگی سے ایک سبق سیکھا ہے:’’ایک اچھے ادیب کو ایک اچھے پبلشر کی بھی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔

نسیم حجازی کا اصل کمال تو یہ ہے کہ انہوں نے تاریخ جیسے خشک موضوع کی جانب عام طبقے اور بالخصوص طلباء کو مائل کیا ،چونکہ تاریخ پڑھنا اور سمجھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔تاریخ کا موضوع ایسا ہے کہ اس کو سننا تو ہر کوئی چاہتا ہے لیکن جب اس کو پڑھنے کی بات آتی ہے تو اچھے بھلے لوگ بھی دامن بچا کر بھاگ نکلتے ہیں،ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہی یہی ہے کہ انہوں نے اہم ترین ابطال جلیلہ کی زندگیوں اور مسلم امہ کے فروغ و زوال کے مختلف ادوار کو آسان اندازمیں بہت ہی خوبصورت طریقے سے بیان کیا ہے۔

ہمارے ہاں عموماََ ناول نگار کہانیوں میں ایسے ممالک کا ذکر کرتے ہیں جنہیں انہوں نے دیکھا بھی نہیں ہوتا لیکن نسیم حجازی کے ہاں یہ بات نہیں ہے ان کا قاری ہمیشہ ہی محسوس کرتا ہے کہ جیسے ان کا محبوب ناول نگار ان کی انگلی تھامے نگر نگر کی سیر کر رہا ہے۔یہ صفت بہت ہی کم ناول نگاروں میں پائی جاتی ہے۔

ایک حیران کن بات میرے علم میں ان کی آپ بیتی پڑھ کر آئی ہے کہ 2014ء میں ان کو حکومت پاکستان کی جانب سے بہترین ادبی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ’’نشان امتیاز‘ سے نوازا گیا لیکن ان کی موت کے بعد۔افسوس صد افسوس۔اس بات پر مجھے معروف مصنف نوشاد عادل کی بات یاد آئی کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو وہ دنیا کی نظر میں لیجنڈبن جاتا ہے، اصل مزا تو تب ہے جب جیتے جی اس کو سرایا جائے۔کاش نسیم حجازی کو بھی جیتے جی سرایا جاتا ،ان کی خوشی دیدنی ہوتی لیکن جب تک ان کو سرایا گیا تب وہ آنکھیں بند ہو چکی تھیں، دیکھنے کے قابل نہ رہی تھیں۔

نسیم حجازی ہماری تاریخ کا ایک بھولا بسرا کردار ہے۔جس کو ہم نے فراموش کردیا ہے،مگر آپ میری اس بات سے متفق ہوں گے کہ انہوں نے ہمیں بھولا بھٹکا راستہ دکھا یا،بھولا ہوا سبق یاد دلایا،گم گشتہ شناخت یاد کروائی ،لیکن یہ کتنا عجیب ہے کہ ہم خود اس شخص کو بھول بیٹھے۔

ان کی آب بیتی متاثر کن ہے میں بہت مرغوب ہوئی ہوں،ان کے احوال زندگی میں ہم جیسے نوآموز لکھاریوں کے لیے بہت سے سبق ہیں،بشرطیہ ہم ان سے سیکھنا چاہیں۔

اتنے بڑے اور مشہور ادیب کی آپ بیتی پڑھنے کا تجسس تو سب کو ہوتا ہے لیکن یہ موقع کم ہی ملتا ہے،زیادہ تر اپنے بارے میں لکھنا پسند نہیں کرتے ہیں تاہم تیس ادیبوں اورمدیران نے اپنے دل کھول کر سامنے رکھ دیئے ہیں ، ہمیں کم سے کم اُن کو سراہتے ہوئے ہی ایک مجموعہ ضرور حاصل کرنا چاہیے کہ یہی ادب سے حقیقی محبت کا تقاضہ ہے۔

"آپ بیتیاں" حصہ دوم 704 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 120 صفحات پر ادیبوں اور مدیران کی نایاب تصاویر شامل ہیں۔

ہارڈ بائنڈنگ، بہترین لے آؤٹ، دیدہ زیب سرخیاں، دیدہ زیب پرنٹنگ، بہترین کاغذ اور شاندار سرورق کے ساتھ اصل قیمت 1200روپے ہے تاہم خصوصی رعایتی قیمت صرف 700 روپے مع رجسٹرڈ ڈاک خرچ ہے۔
کتاب منگوانے کے لیے ابھی رابطہ کریں۔
الہٰی پبلی کیشنز
95۔R. سیکٹرB۔ 15، بفرزون، نارتھ کراچی۔پاکستان
واٹس ایپ نمبر: 0333.2172372
ای میل: [email protected]
۔ختم شد۔



 

Faqiha Qamar
About the Author: Faqiha Qamar Read More Articles by Faqiha Qamar: 11 Articles with 6089 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.