عہد دوام

ایک ہفتہ قبل ایک صاحب نے مجھے فون پر بتایاکہ میں نے آپ کی کتاب تحریک محنت کے مکتبہ سے لے کر مطالعہ کی ہے ۔میں آپ سے ملانا چاہتا ہوں ۔ پھر دو دن بعد وہ اور ایک دوسرے صاحب کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے۔ابتدائی تعارف کے بعد مجھے ۷۳۰ صفحات کی ایک کتاب’’ عہد دوام‘‘ قصص الانبیاء و الشہداء و الصدیقین و الصالحین

،مدیر:علامہ خیر محمد لکھنوی، ناشر ادارہ تعلیم و تحقیق علوم شرقیہ اسلام آباد پیش کی اورساتھ ہی کہا کہ اس پر آپ کے تبصرے کا انتظار رہے گا چاہے وہ ایک مہنے دو مہنے یا تین مہنے تک کے وقت میں ہی کیوں نہ ہو۔اپنے تعارف میں ان صاحبان نے بتایا کہ وہ ادارہ تعلیم و تحقیق علوم شرقیہ سے منسلک ہیں۔ان صاحبان کی محنت کو سامنے رکھتے ہوئے،ہم نے اپنے دوسری مصرفیات روک کر اس کتاب کا کئی روز مطالعہ کیا۔ حاصل مطالعہ کے کچھ چیدہ چیدہ نقات ادارہ تحقیق علوم شرقیہ اسلام آباد کو ان کے ای میل پتہ پر بھیجنے اور افادہ عام کے لیے حسب عادت اخبارات میں شائع ہونے کے لئے بھی بھیجنے کے لیے تیار کیا۔

اس کتاب میں سر ورق کے مطابق تورات اورزبور میں سے (۱۶ )انبیا ؑاور شہدا،صدیقین اور صالحین کا ذکرہے۔ ویسے میری لائبریری میں پہلے سے’’ قصص القرآن‘‘ تالیف مولانا حِفظ الرحمان سیوہارویؒ رفیق اعلیٰ ندوۃ المصنفین دہلی بھارت جس میں انبیاؑ کے متعلق کافی تفصیل موجود ہے۔قرآن شریف اور اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ہم نے کئی صفحات پر مشتمل مضمون بنام’’ پیغمبرانؑ خداکی سیرت اور دعوت‘‘ تحریر کر کے اخبارات میں شائع ہونے کے لیے بھیجا تھا۔ مختلف اخبارات، خصوصاً جناح اخبار میں دینی صفحہ پر تسلسل سے کئی قسطوں میں شائع ہواتھا۔ اس کے علاوہ دوسری کتاب ’’تذ کرہ انبیاء و رُسلؑ‘‘ تالیف مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒبھی موجود ہے۔ ان دونوں کتابوں میں قرآن شریف میں بیان کردہ انبیاء کی سیرت اور حالات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔

کتاب ’’عہد دوام ‘‘ جس پر آج تبصرہ کرنے جا رہا ہوں اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ’’ یہ قصص توریت شریف سے ہوتے ہوئے دور زبور شریف اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وسیلے سے انجیل شریف تک پوری تاریخ بنی اسرائیل کا احاطہ کرتے ہیں‘‘ اب بنی اسرائیل کی تاریخ تو یہ ہے کہ انہوں نے آسمانی کتابوں میں تحریف کی اور اﷲ کے نیک بندوں ،نبیوں ؑ پر الزام لکھائے ۔ گو کہ ادار ہ تعلیم و تحقیق علوم شرقیہ اسلام آباد نے کہ یہ کام بڑی محنت سے کیا گیا اور تحقیق سمجھ کر کیا گیا ہے۔مگر ان کتب میں درج بنی اسرائیل کے جھوٹ پر مبنی قصوں کو جوں کا توں بیان کر دیا ہے۔ اگر اﷲ کی آخری کتاب قرآن شریف اور اﷲ کے آخری بنی حضرت محمد صلی علیہ و سلم کی سیرت سے موازنہ کر کے قرآن میں بیان کردہ حقائق کو بھی بیان کیا جاتا تو قاری کی سمجھ میں آتا کہ کیا غلط اور کیا صحیح ہے۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔اس طرح ہمارے نذدیک اس طرح کی تحقیق سے عوام الناس کی کوئی فائدہ نہیں، بلکہ یک طرفہ نقطہ نظر سے الٹا نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔مثلاًقصہ حضرت آدم ؑ میں اس کتاب کے صفحہ ۴ پر بیان کرتے ہیں’’ اب قصہ فتنہ اُٹھانے والے کا۔ اژدہا ان تمام جنگلی جانورں کی نسبت عیار تھا جو اﷲ تعالےٰ نے بنائے تھے۔ ایک دن اژدہا عورت کے پاس آیا اور طنزیہ اندازمیں مکر کرنے لگا’’ بی بی!بھلا یہ کیسا حکم دے ڈالا ہے آپ کے پروردگار نے کہ باغ کے کسی بھی پیڑ کا پھل نہ کھانا‘‘۔۔۔اژدہا نے عورت کو بہکایا :’’قطعاً نہیں ! ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ بلکہ وہ جانتا ہے کہ جس دن آپ لوگ اسے کھائیں گے، آپ کو بصیرت حاصل ہو جائے گی اور آپ عرش والے کی طرح اپنے لیے خیر و شر کا معیار خود مقرر کرنے لگیں گے‘‘( اس میں اصل عبارت بلکہ پوری کتاب میں رکوع اور آیات کا حوالہ نہیں دیا گیاجو اس وقت موجود ان آسمانی کتب سے تقابلی مطالعہ کیا جاسکتا۔

پوری کتاب’’ عہددوام‘‘ میں تحریف و تبدل شدہ اسرائیلوں روایات، جوں کی توں بیان کر دیں گئیں ہیں) قرآن شریف میں حضرت آدمؑ کا قصہ اس طرح بیان ہوا ہے۔’’اورآدمؑ تم اور تمھاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو نوش کرو مگر اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ گنہگار ہو جاؤ گے۔ تو شیطان دونوں کو بہکانے لگا تاکہ ان کے ستر کی چیزین جو ان سے پوشیدہ تھیں کھول دے۔ اور کہنے لگا کہ تم کو تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو۔الاعراف(۱۹۔۲۰) ۔قرآن میں یہ کام شیطان نے کیا مگر کتاب’’ عہددوام‘‘ کے مطابق ،یہ کام اژدہا نے کیا۔
کتاب کے صفحہ ۱۳ میں بیان کرتے ہیں کہ’’طوفان کے بعد حضرت نوحؑ نے کاشتکاری شروع فرما کر انگور کا ایک باغ لگایا۔ایک دفعہ آپ نے انگور کی کچھ نبید پی لی نتیجتاً اپنے خیمے ؂کے اندر عالم سرور میں آپ کا ستر کھل گیا۔( یہ اﷲ کے نبیؑ پر بنی اسرائیل کی طرف سے سراسراالزام ہے۔ا نبیاؑ تو معصوم ہوتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے۔)

کتاب ’’عہد دوام‘‘ کے صفحہ۳۴ پر بیان کرتے ہیں کہ ’’چلتے چلتے اسحاقؑ نے خاموشی توڑی۔ فرمایا :’’کہو بیٹا‘‘پوچھا:’’ہم لکڑیاں اور کوئلے تو لے آئے مگر جانور کہاں ہیں؟‘‘آپ ؑ نے جواب دیا’’المدبرخودتدبیر کرے گا میرے بچے۔‘‘ یونہی چلتے چلتے دونوں اوپر چڑھتے گئے اور بلا آخر مقررہ جگہ پہنچے۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابراہیمؑ نے اوپر تلے پتھر رکھ کر ایک چبوترہ بنایا، لکڑیاں ترتیب سے چبوترے پر چنیں اور اپنے عزیز از جان بیٹے کو رسیوں سے جکڑ کر لکڑیوں پر لٹا دیا۔ لڑکے کو لٹانے کے بعد آپؑ نے چھری اٹھائی اور ذبح کرنے ہی والے تھے کہ عرش معلےٰ سے ایک فرشتے کی آواز آئی’’ابراہیم۔ؑ ابراہیم ؑ۔عرض کیا ’’ لبیک!‘‘ فرمایا اپناہاتھ روک لو۔لڑکے کوضرر نہ پہنچانا! ثابت ہو گیا کہ تم اپنے رب کے حضور جھکنے والوں میں ہو۔۔۔( اس تحریرسے تحریف شدہ بائبل میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ذبح حضرت اسحاق ؑ ہیں جبکہ قرآن شریف میں ذبح کے اشارے حضرت اسمٰعیل ؑ کی طرف ہیں)’’کتاب عہددوام‘‘ کے سرورق پرسرزمین موریہ میں واقع اس مقام کی تصویر بھی لگا دی۔جبکہ عرب زمانہ قدیم سے حضرت اسمٰعیل ؑ کی یاد میں مکہ میں منی کے مقام پر قربانی کرتے آئے ہیں ۔ پھر جب حضرت محمد صلی علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپؐ نے بھی اسی طریقے کو جاری رکھا۔ حتیٰ کہ آج تک حج کے موقع پر دس ذی الحجہ کو منیٰ میں قربانیاں کی جاتی ہیں۔ اب ذرابائبل کی تضاد بیانی دیکھیں ۔’’خدا نے ابرہام کو آزمایا اور اُسے کہا: اَے ابرہام!۔۔۔ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریّاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ، پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا‘‘(پیدائش۔۲۲: ۱۔۲) اس بیان میں ایک طرف تو یہ کہا جارہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت اسحاق ؑ کی قربانی مانگی، اور دوسری طرف یہ بھی کہاجارہا کہ وہ اکلوتے بیٹے تھے۔اس لیے ذرابائبل ہی کی حسب ذیل تصریحات بھی ملا حظہ ہوں جس میں اکلوتا بیٹا حضرت اسمٰعیل ؑثابت ہوتا :جب اس کی بیوی ساری نے اپنی مصری لونڈی اسے دی کہ اس کی بیوی بنے اور وہ حاجرہ کے پاس گئے اور وہ حاملہ ہوئی(پیدائش۔۱۶:۱۔۲)’’ اور جب ابرام سے حاجرہ کے اسمٰعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا(۱۶۔۱۶)’’ اور خدا نے ابرام سے کہا کی ساری جو تیری بیوی ہے۔۔۔ اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا ۔۔۔ تو اس کا نام اضحاق رکھنا۔۔۔ جو اگلے سال اسی قوت متعین پر سارہ سے پیدا ہوگا۔۔۔ تب ابرہام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کو اور۔۔۔ گھر کے سب مردوں کو لیا اور اسی روز خدا کے حکم کے مطابق ان کا ختنہ کیا۔ ابرہام ننانوے برس کا تھا جب اس کا ختنہ ہوا، اور جب اس کے بیٹے اسمٰعیل کا ختنہ ہوا تو وہ تیرہ برس کا تھا‘‘پیدائش( ۱۷:۱۵۔۲۵)’’ اور جب اس کا بیٹا اضحاق اس سے پیدا ہوا تو ابرہام سو برس کا تھا‘‘(پیدائش:۲۱۔۵)۔ اس سے بائبل کی تضاد بیانی صاف کھل جاتی ہے۔ ظاہر ہے ۱۴ سال تک تنہا حضرت اسمٰعیل ؑ ہی حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے تھے۔ اب اگر قربانی اکلوتے بیٹے کی مانگی گئی تھی تو وہ حضرت اسحاقؑ کی نہیں حضرت اسمائیل ؑ کی تھی۔ کیونکہ وہی اکلوتے تھے۔ اور اگر اسحاقؑ کی قربانی مانگی گئی تھی تو پھر یہ کہنا غلط ہے کہ اکلوتے بیٹے کی قربانی مانگی گئی تھی۔(مزیدتشریع کے لیے دیکھیں ۔الصفٰت:حاشیہ ۶۷ تفیہم القرآن جلد ۴ سید مودودیؒ)

کتاب کے صفحہ۲۷۵ پر حضرت داؤد کے بارے میں لکھا کہ’’ ایک شام آپ محل کی چھت پر اپنے بستر سے اٹھ کر ٹہل رہے تھے کہ آپؑ کی نظرایک حسین و جمیل عورت پر پڑی جو حیض سے فارغ ہو کر نکلی تھی۔۔۔ آپؑ نے اسے قاصدبھیج کر بلوایا اور جب وہ آپ ؑ کے پاس آئی دونوں ہم بستر ہوئے۔اس کے بعد بنت سبع اپنے گھر واپس لوٹ گئی‘‘( اﷲ کے نبی ؑحضرت داؤدؑ سے ایسی حرکت منصوب کرنا ظلم نہیں تو کیا ہے؟)۔بنی اسرائیل ایسے افعال کرنے کے لیے، بلکہ اپنے گناہوں کے راستے کھولنے کے لئے انبیاؑ پر ایسی الزام تراشی کرتے رہے ہیں۔ولٹائین ڈے ،جس میں پادری نند سے زنا کرتا ہے اس کی مثال ہے۔ آج مغرب کے معاشرے میں زناکی وبا عام ہے ان کی اپنی رپورٹز کے مطابق ان کے ہاں چایس فی صد حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں۔

اس کتاب کے صفحہ۲۸۴ پر لکھا ہے کہ’’اس کے کچھ عرصہ بعد یوں ہوا کہ حضرت داؤد ؑکا پہلوٹھا بیٹاامنون اپنی سوتیلی بہن تامارؓ کے حسن پر نظر رکھنے لگا جوابی سلام کی ماں بی بی معکہؓ سے تھیں۔۔۔جب وہ اسے کھانا کھلانے قریب آئی تو امنون نے انہیں زبردستی پکڑ کر کہا:میرے ساتھ لیٹ جاؤ۔۔۔چونکہ لڑکی سے زور آور تھا اس لیے ان کے ساتھ جبراً صحبت کی‘‘(کیا داؤد ؑ کے گھر کا ایسا ماحول ہونے کا کوئی مسلمانخیال بھی کر سکتا ہے؟ اب بھی مغربی معاشرے میں یہ وبا عام ہے)
اس کتاب کے صفحہ۴۵۵ پر لکھا ہے ’’ انہوں نے بیت اﷲ کے آحاطے میں وہ سب پردے اتروا لیے جنہیں عورتوں نے عشتار کی پوجا پاٹھ میں شریک عصمت فرو ش مردوں کی بدکاری چھپانے کے لیے سئے تھے‘‘(یعنی بدکاری ان کے مذہبی رسوم میں بھی جاری تھی)

اس کتاب کے صفحہ۵۲۷ پر لکھا ہے کہ’’آپؑ(یعنی حضرت مریمؑ) کا نکاح آل داؤد سے تعلق رکھنے والے حضرت یوسفؓنجار ہو چکا تھا‘‘( جبکہ قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ کے بارے میں ہے کہ’’یہ سن کر مریمؑ بولی:پروردگارمیرے ہاں بچہ کہاں سے ہو گا۔مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘(ال عمران:۴۷)( کیا یہ بنی اسرائیل کی طرف سے حضرت مر یم ؑ پربہتان نہیں تو کیا ہے)اس کتاب ’’عہد دوام‘‘میں تورات، زبور اور انجیل میں درج اسرائیل قصے جوں کے توں لکھ دیے گئے ہیں۔اﷲ کی آخری کتاب نے ان تحریف شدہ قصوں کو صحیح طرح بیان کر کے بنی اسرائیل کی طرف سے انبیاؑ پر الزامات کو صاف کیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ ان قصوں کا تقابلی مطالعہ اﷲ کی آخری کتاب قرآن سے موازنہ کر کے صحیح صورت حال قارئین کے سامنے پیش کی جاتی تو اس کا کتاب سے قارئین کو کچھ فائدہ ہوتا ۔مگر یہ گم شدہ اسرائیلی روایات کو ویسے کا ویسا ہی پیش کر دیا گیا جیسے ان تحریف تبدیل شدہ آسمانی کتابوں میں درج ہے ۔ہمارے خیال میں عام قارئین کو فائدہ سے زیادہ نقصان کا امکان محسوس ہوتا ہے۔
 

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1118 Articles with 955373 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More