عدن کی جنت

کیونکہ محبت کا یقین گہرا تھا کہ اُس محبت میں کمی نہیں آئی نگاہیں پھیلے ہوئے ہاتھوں کی لکیروں میں عدن کو دھونڈ ہ رہی تھیں کہ دو مضبوط ہاتھوں نے ان پھیلے ہوئے ہاتھوں کو سمیٹ لیا۔

عدن جلدی کریں آپ کو دیر ہو رہی ہے، واش بیسن کے سامنے کھڑے شیو بناتے عدن کے کان سے شیونگ کا جھاگ صاف کرتی جنت نے اداس لہجے میں کہا۔

او جان عدن کیوں اداس ہورہی ہو۔اچھا جی آپ پورے تین دن کے لیے مجھ سے دور جا رہے اور میں اداس بھی نہ ہو۔جنت منہ پھلاتے ہوئے بولی جلدی سے شاور لے کر آ جائیں میں ناشتہ لگا رہی ہوں۔اچھا جی اتنی ناراضگی او عدن کی جنت آج اتنی اداسی کے میری کمر پر صابن بھی لگانا بھول گئی عدن نے جنت کو ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو جنت شرما سی گئی فیس سکرب نکالتے ہوئے شرم سے اس کے گلابی ہوتے گال اور بھی چمکنے لگے۔شاور کے نیم گرم پانی کو عدن کی کمر پر لگا کر وہ نرم ہاتھوں سے سکرب لگانے لگی شرارت میں ہلکا سا سکرب گالوں پر بھی لگا دیا۔عدن شیشے سے دیکھ کر پیچھے کھڑی جنت کو محبت بھری نگاہوں سے مسکرا کر دیکھنے لگا۔چلے اب آپ جلدی کریں پائلٹ صاحب دیر ہو رہی ہے۔عدن شاور لے کر ناشتے کی میز پر پہنچا تو ہمیشہ کی طرح سلیقے سے لگا ناشتہ دیکھتے ہی بھوک چمک اٹھی۔

جنت تم اتنے اہتمام سے کھانا سجاتی ہو کہ دیکھ کر ہی بھوک بڑھ جاتی ہے اور ذائقہ کاتو کیا ہی کہنا۔سچ میں تم میری زندگی میں بہار بن کر آئی ہو۔میری زندگی کا چین میرا سکون ہو تم عدن کی جنت تمہارا ساتھ سلامت رہے۔وہ روانی میں کہہ رہا تھا اور جنت کی آنکھیں نم ہوئی جا رہی تھی وہ مسکرا کر بولی میری زندگی کے پائلٹ صاحب اب آپ ناشتہ کیجیے اورمجھے بولنے دیجیے۔آپ جو میری اتنی تعریف کر رہے ہیں یہ تو بس اس پیار کا جواب ہے جو مجھے آپ سے ملتا ہے۔آپ سے ہی سیکھا ہے میں نے پیار کرنا اور اس کا اظہار کرنا۔

آپ نے سیکھایا ہے زندگی کے چھوتے چھوٹے لمحوں میں کیسے بڑی بڑی خوشیاں کا مزہ لیتے ہیں بس میں بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتی ہوں بس ا دل اور دماغ کی پوری توجہ آپ کے کاموں پر لگا دیتی ہو۔جیسے آپ کرتے ہیں میرے لیے چھوٹے چھوٹے تحائف اور سرپرائز کا اہتمام ہر بار۔خاص طور پر آپ کی وہ ادا اچانک سے میرے سامنے آ جانا،جاتے جاتے واپس ملنے آنا، جانتے ہیں آپ کی یہ ادا مجھے کتنی پسند ہے۔یہ تو بالکل ایسے ہے میرے لیے جیسے کسی غریب کو اس کی تنخواہ کے ساتھ پورے سال کی تنخواہ جتنا بونس ملا ہو۔چائے کا کپ جنت کی طرف بڑھاتے عدن نے دوسرا ہاتھ دل کی طرف بڑھایا میں تابعدار ملکہ عالیہ اب غلام کی چائے تو میٹھی کر دو۔ارے غلام نہیں آپ سرتاج ہیں میرے اور میں آپ کے قدموں کی دھول۔جنت نے چائے کا سپ لیا اور عدن کی طرف بڑھا کر خود تپائی کے پاس نیچے کارپٹ پر بیٹھ گئی۔جانے کیوں دل مچل اٹھا عدن کے گھٹنوں پر سر رکھنے کو تو عدن نے حیرت سے دیکھا ارے یہ کیا جان عدن تمہاری جگہ میرے قدموں میں نہیں میرے دل پر راج ہے تمہارا، یہاں بیٹھو میرے پاس۔گھڑیال نے آلارم بجایا تو احساس ہوا کہ گھنٹہ کیسے پل بھر میں گزر گیا۔او اب مجھے نکلنا ہے جلدی،مما آج تمہارے پاس آ جائیں گی تین دن تمہارے پاس رہے گی۔وہ کچھ اور ہدایت کرتا اپنا اور منے کا بہت سا خیال رکھنے کی تلقین کرتا باہر نکل گیا۔اسے بھی اب سب سمیٹ کر ہاسپٹل جانا تھا۔منا سکول جا چکا تھا۔عدن تو آج زیادہ ہی لیٹ ہو گئے وہ گیٹ کی طرف مڑ مڑ کر دیکھنے لگی کیونکہ عدن جاتے جاتے اسے واپس آ کر ملنے کا سرپرائز دیتے اس چند لمحوں کی ملاقات کا اپنا ہی چارم اور جنون تھا اور عدن کا خاص انداز بہت ہی کمال تھا مگر آج شاید یہ ممکن نا ہو سکے کیونکہ دیر ہو رہی تھی۔دل مچل رہا تھا تین دن کے لیے جا رہے آج تو بہت ضروری تھا یہ جادو والا اچانک والا سرپرائز وہ جلدی جلدی ہاتھ چلاتی سب سمیٹتی دروازے کی آہٹ کی منتظر تھی۔مگر آج لگتا یہ ممکن نہیں تھا۔

باجی اب تو آپ چھوڑ دے کام اور تیار ہو جائیں۔صاحب کے سب کام تو کر لیے اب یہ سب میں سمیت لو گی۔آپ کو بھی ڈیوٹی سے دیر ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ کے پائلٹ صاحب آج اسے اچانک والا سرپرائز دئیے بنا چلے گئے۔باجی جلدی جائیں نہ کیا سوچ رہی ہیں،رضیہ نے کہا تو وہ چونکی،ٹھیک ہے تم گھر کا خیال رکھنا اور ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے۔اوہو باجی آپ جلدی کریں ڈرائیور تو کب سے ریڈی ہے،وہ بے دلی سے تیار ہو کر باہر نکلی تب ہی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے عدن کو دیکھ کر وہ خوشی سے نہال ہو گئی، حیرت اور خوشی کی کفیت سے وہ عدن کو دیکھ کر جھوم اٹھی۔اچھا تو آپ نے رضیہ کو بھی ساتھ ملا لیا تھا آج،ہاں جی ملکہ عالیہ اب جلدی کیجیے بندے کے پاس اب سچ میں وقت کم ہے۔آپ کو ڈراپ کر کے آگے ڈرائیور مجھے چھوڑ آئے گا۔جی جی بالکل خیر سے جائیں۔تین دن تین صدیوں کے برابر تھے۔ہزار مصروفیات کے باوجود وقت تھا کہ کٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔جنت اپنی آج کی آخری مریضہ کے چیک اپ کے بعد گھر جا کر عدن کی پسند کا کھانا بنانا چاہ رہی تھی۔صبح جب عدن سے بات ہوئی تو اُس نے بتایا کہ وہ رات آٹھ بجے اُس کے پاس ہو گا۔ابھی تین بجے تھے جنت کا دل چاہ آج وہ عدن کے لیے کینڈل نائٹ ٹیبل ڈیکوریشن کرے۔یہ سوچنا تھا کہ اُس نے ڈرائیور کو مین مارکیٹ چلنے کا کہا تا کہ وہ ٹیبل ڈیکوریشن کی تمام چیزیں لے سکے۔مکمل شاپنگ کی یقین دہانی کرتے ہوئے وہ الفتح سے نکل کر گاڑی کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کہ سامنے مشہور آئس کریم پارلر کے سامنے اُسے ایسا لگا جیسے عدن ہو،اُس کی نظر اُسے پہچاننے میں دھوکہ نہیں کھا سکتی تھی۔وہ عدن کی طرف بڑھنے کو تھی کہ زمین نے اُس کے پاؤں جکڑ لیے سنہری پالوں والی سمارٹ سی لڑکی جس کا چہرہ وہ ٹھیک سے نہیں دیکھ پا رہی تھی عدن کی باہوں کے حصار میں تھی عدن کو اتنا خوش تو کبھی اُس نے اپنے ساتھ نہیں دیکھا تھا لڑکی ویڈیو بنا رہی تھی اور عدن ویڈیو بنوا رہا تھا اُسے آئس کریم پیش کرتے ہوئے جب کہ عدن کو تو یہ سب حرکتیں ہر گز پسند نہیں تھیں۔اس سے پہلے کے وہ اپنے حواس درست کرتی اور عدن کی طرف بڑھتی وہ گاڑی میں بیٹھ کر اُسے لڑکی کے ساتھ وہاں سے جا چکا تھا،اور شاید عدن اُس سنہری بالوں والی سمارٹ لڑکی کے ساتھ ساتھ اُس کا یقین اعتماد محبت سب لے گیا تھا۔

راستے بھر وہ اپنے ذہن سے وہ منظر نہ نکال پا رہی تھی جب اُس نے عدن کی باہوں میں کسی اور کو دیکھا اور عدن کے چہرے پر خوشی کا رنگ کتنا گہرا تھا۔ اُسے تو رات آٹھ بجے آنا تھا۔وہ پل پل ٹوٹ رہی تھی۔بیگم صاحبہ گھر آ گیا ہے ڈرائیور بھی اُن کی اس حالت پر پریشان تھا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے امی جان نے اُسے دیکھتے ہی کہا یا اللہ خیر سب ٹھیک ہے نا،ہاتھوں میں ڈیکوریشن کا سامان دیکھ کر امی جان نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا او ہو تو یہ پانچ سالہ نیا نیا شوقِ عشقِ جنون،لگتا ہے آج رات کچھ رومانٹک ماحول کا موڈ ہے۔ اللہ تمہاری محبت سدا سلامت رکھیں۔ ساس کے الفاظ میں سگی ماں والے لہجے کی مٹھاس نے اُسے یقین کی زمین پر مضبوطی سے کھڑا کر دیا۔ اُس نے خود کو سنبھالا۔دو گھنٹے میں وہ عدن کی پسند کا سالن،سلاد اور میٹھا بنا چکی تھی اور ٹیبل بھی سج گیا تھا مگر ان کاموں سے زیادہ اہم کام اُس نے خود کو عدن کے سامنے مضبوط رہنے کے لیے تیار کیا۔اُس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اُس وقت تک چپ رہے گی جب تک خود عدن اُسے اس راز کے بارے میں نہیں بتائے گا۔اُسے اپنی محبت پر بہت مان تھا وہ اپنا یہ مان ٹوٹنے نہیں دینا چاہتی تھی اگر عدن سے بے وافائی سر زرد ہو گئی تھی تو بھی اپنی محبت کا امتحان دیتے ہوئے اس راز کو اپنے سینے میں دفن کر لے گی مگر اپنے شوہر کو کبھی اپنے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دے گی۔عشا ء کی نماز میں وہ اپنے رب کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو دی ہمت مانگی صبر مانگا۔ سرد موسم کی آخری رُت اور رات کا پہلا پہر،جنت جاہِ نماز طے کر کے پاس پڑے صوفے کے ساتھ ٹیک لگا کر فرش پر ہی بیٹھ گئی،آٹھ بجنے میں ابھی آدھا گھنٹہ تھا وہ ہاتھوں کی پوروں پر تسبیح کر رہی تھی،اتنی شدید محبت کرنے والا کیسے مجھے پل میں پرایا کر سکتا ہے ایک ٹھیس سی اُٹھی بہت مدہم،کیونکہ محبت کا یقین گہرا تھا کہ اُس محبت میں کمی نہیں آئی نگاہیں پھیلے ہوئے ہاتھوں کی لکیروں میں عدن کو دھونڈ ہ رہی تھیں کہ دو مضبوط ہاتھوں نے ان پھیلے ہوئے ہاتھوں کو سمیٹ لیا۔عدن اُس نے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام لیا بیٹھے بیٹھے عدن کی طرف دیکھا،نظروں سے نظریں ملی عدن کی آنکھیں روشن تھیں شفاف تھیں،ہونٹوں پر پھیلی مسکراہٹ ہر منافقت سے پاک تھی،میرے عدن آپ میرے پاس لوٹ آئے وہ دیوانہ وار بولی۔عدن اُس کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا قدموں میں بیٹھی جنت کے ہاتھوں پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے اپنی طرف کھینچ کر سینے سے لگایا،عدن تو بس جنت کا ہے جہاں بھی جائے گا لوٹ کر اپنی جنت کے پاس ہی آئے گا۔جنت نے عدن کے سینے سے لگ کر خود کو مزید مضبوط ہوتا محسوس کیا وہ خود سے کیے وعدے پر سختی سے قائم تھی وہ اپنے شوہر کا غرور مان نہیں توڑے گی وہ کبھی اُس سنہری بالوں والی لڑکی کے بارے میں پوچھے گی بھی نہیں جس کو وہ عدن کی باہوں میں دیکھ چکی تھی،وہ صبر کرے گی۔عدن نے باہوں کے شکنجے کو کستے ہوئے دھڑکنوں کے ساز پر رقص کرنا شروع کیا تو اُس نے بھی خود کو مکمل طور پر حالات سے سمجھوتا کر لیا آنکھیں بند کر کے وہ بھی عدن کی پاہوں میں جھومنے لگی اور تب ہی ہلکی رومانوی موسیقی کی آواز سے اُس نے اپنی آنکھیں کھول دی یہ کس نے لگایا گانا۔تب ہی پیچھے سے کسی کے قدموں کی آواز آئی اُس نے مڑ کر دیکھا وہی سنہرے بالوں والی لڑکی،چند لمحے لگے مگر وہ پہچان گئی حورب تم یہ تم ہو نہ تم اتنی سمارٹ کیسے ہو گئی اور بال بھی سنہری کر لیے،جی جی میری اکلوتی بھابھی جان آپ کی اکلوتی نند نے دیکھے خود کو کیسے اپنی بھابھی کی طرح کیوٹ کر لیا ہے۔کیسا لگا آپ کو میرا اور بھائی کا یہ سرپرائز۔ابھی تو امی جان کو حیران کرنا ہے کہاں ہیں وہ اپنے پوتے کے پاس ہو گی انہیں بھی تو بتاؤں اُن کی بیٹی ڈاکٹر حورب اپنی ڈگری مکمل کر کے واپس آگئی ہے۔جنت کاپورا وجود کانپ رہا تھا۔ارے سنبھالوخود کو نند نے لگتا ہلا کر رکھ دیا آپ کو،عدن نے اُسے چھیڑا تو وہ بھی مسکرا دی،سنبھال ہی تو لیا تھا ورنہ آج ہر مان ہر یقین ٹوٹ جاتا۔چلو بھئی کھانا لگا دو پہلے ہی حورب نے اپنی ایک فرینڈ کے گھر کچھ سامان پہچانے کے چکر میں تین گھنٹے لگا دئیے ورنہ میں تو تین گھنٹے پہلے آجاتا۔اور جنت نے شکرگزار دی اپنے رب کی کہ اُس نے یہ تین گھنٹے دے کر اُسے ساری زندگی کے لیے سنبھال لیا۔

saima mubarik
About the Author: saima mubarik Read More Articles by saima mubarik: 10 Articles with 11239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.