کارکردگی کی ایک جھلک!!

وفاقی وزراء میں تعریفی اسناد کی تقسیم کی بات اگرچہ کچھ پرانی ہو گئی ہے، مگر عوام کی الجھن ابھی تک قائم ہے، کہ وزراء کی اتنی اچھی کارکردگی آخر ہے کیا ؟ گزشتہ روز میں اخبار پڑھ رہا تھا کہ کارکردگی کی ایک جھلک دکھائی دی، بات آگے بڑھی توایک اور منظر سامنے آگیا۔ کہتے ہیں دیگ سے ایک چاول چھکنے سے ہی پوری دیگ کا اندازہ ہو جاتا ہے، مگریہاں تو چاولوں کی پوری’’ پلیٹ‘‘ موجود تھی۔ آپ بھی چکھئے! اسد عمر کا کہنا ہے کہ ’’․․بلاول کا لانگ مارچ ، ناکام مارچ میں تبدیل ہو جائے گا ․․․سندھ میں چودہ سال سے پی پی کی کارکردگی صفر ہے․․‘‘۔ آپ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر ہیں۔ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ’’․․․جہانگیر ترین پارٹی کے ساتھ ہیں، نقصان نہیں پہنچائیں گے ․․ عمران خان کے لیول کا کوئی شخص پاکستان میں نہیں․․‘‘۔شاہ محمود قریشی نے کہا ہے ’’․․․ اپوزیشن مسترد سیاستدانوں کا ٹولہ ہے، عدم اعتماد کا شوق پورا کر لے․․․ ووٹ ہوتے تو حکومت میں ہوتے ․․ دائیں بائیں دیکھنے والوں کو ناکامی ہوگی ․․․‘‘۔ شاہ صاحب پاکستان کے خارجہ امور کے نگران و پاسبان ہیں۔

غلام سرور خان نے بیان دیا ہے کہ ’’․․․ اپوزیشن اتحادیوں کو توڑنے میں ناکام ہوگئی ․․․پنڈی اسلام آباد ایک پیچ پر ہیں․․․‘‘۔خان صاحب پاکستان کی ہوابازی کے وزیر ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت چونکہ مسلّمہ ہے، اس لئے ہر اخبار میں ان کی مخصوص ’نشست‘ موجود ہوتی ہے، فرماتے ہیں ’’․․․ مسترد عناصر ملک کی درست سمت دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں ․․․عوام منفی سیاست سے متنفر ہو چکے ․․․‘‘۔ شہباز گِل نے کہا ہے کہ ’’․․․ شہباز شریف کا جیل جانا طے ہے، چاہے وہ کچھ برس بعد جائیں ․․․ شہباز شریف! آپ اسمبلی میں آئیں ، ہم آپ کو لمے پا کر حساب لیں گے ․․․‘‘۔ گِل وزیراعظم کے سیاسی امور کے معاونِ خصوصی ہیں اور اب پارٹی کے یوتھ افیئرز کے فوکل پرسن بھی ہیں۔ حسان خاور وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاونِ خصوصی بھی ہیں اور پنجاب حکومت کے ترجمان بھی، کہتے ہیں کہ ’’․․․ اپوزیشن سہاروں کی تلاش میں در بدر ہے ․․․شہباز شریف بے گناہ ہیں تو انصاف کا پہیہ کیوں نہیں چلنے دیتے؟․․․‘‘۔

صرف ایک روز قبل وزیراعظم کا بیان شہ سرخیوں کی صورت پوری شان و شوکت اور آب وتاب کے ساتھ موجود ہے ، ’’․․․ شریف خاندان کے ہر پلان کے لئے تیارہیں ․․․آپ کو صرف شکست نہیں جیلیں بھی ہوں گی ․․․نواز شریف کو ملک سے باہر جانے دینا بہت بڑی غلطی تھی ․․․ میں مولانا نہیں ڈیزل کہوں گا ․․․ تیس سال بعد اسمبلی ’ڈیزل‘ کے بغیر چل رہی ہے ․․․ہمارے سابق حکمران غلام تھے ․․․ پہلی بار آزاد خارجہ پالیسی بنی ․․․جب تک پیسے واپس نہیں ہوں گے کسی ڈاکو کو این آر او نہیں دیا جائے گا ․․․‘‘۔ یہ اہم اعلانات وزیراعظم نے منڈی بہاؤالدین میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کئے۔ اسی جلسہ میں فواد چوہدری نے اپوزیشن سے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا نسخہ مانگ لیا، کہ جب عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہم کیسے کم کر سکتے ہیں؟

وزیراعظم ، وزرائے کرام، مستقل اور مسلسل شاباش یافتہ وزیراعلیٰ پنجاب اور معاونین خصوصی کے ارشادات و فرمودات پڑھ کر اُن لوگوں کی کارکردگی عیاں ہو جاتی ہے۔ مجال ہے مندرجہ بالا کسی ہستی نے بھی اپنے فرائض کا کچھ ذکر کیا ہو، اپنی ذمہ داری پر روشنی ڈالی ہو، اپنی مجبوریوں کا کوئی بیان کیا ہو، وسائل کے بے دریغ استعمال کا تو مذکور ہی کیا، اپنے مسائل سے عوام کو آگاہ کیا ہو؟ دراصل اربابِ اختیار صدقِ دل سے جانتے ہیں کہ ان کی اپنے اپنے شعبوں میں مجموعی کارکردگی بہترین ہے، بس مخالفین بلا جواز اُن پر تنقید کرتے اور ان کی راہوں میں کانٹے بچھاتے اور روڑے اٹکاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنی وزارتوں اور ذمہ داریوں کا ذکر کرنے کی بجائے مزاحمتوں پر ہی اپنی توانائیاں استعمال کرنا پڑتی ہیں۔ قوم اس لئے بھی حیرت زدہ ہے کہ آخر اتنی اچھی کارکردگی کے باوجود ملک میں عام متوسط طبقے کا جینا بھی دوبھر ہو رہا ہے، سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے، بے بسی اور بے چارگی بڑھتی جارہی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا وزراء وغیرہ میں اکثریت ان صاحبان کی ہے جو وزیراعظم سے تعریفی سند کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اب ان کا خیال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف بیانات سے چونکہ حکمرانوں کو روحانی سکون میسر آتا ہے، اس لئے کیوں نہ یہ خدمت سرانجام دے کر ایک تیر سے دو شکار کئے جائیں۔ حکومت میں شامل افراد چونکہ خود کو دودھوں نہائے اور دوسروں کو کیچڑ میں لت پت تصور کرتے ہیں، اس لئے اپوزیشن پر تنقید سے بھی انہیں تسلی نہیں ہوتی، جس کی بنا پر وہ نئی نئی ترکیبات اور اصطلاحات دریافت کرتے ہیں کہ سننے والا انگشت بدنداں رہ جاتا ہے، بات یہاں تک ہوتی تو اور بات تھی، مخالفین کو تسلسل کے ساتھ ایسے القابات سے نوازا جاتا ہے کہ سننے والے کو گھِن آنے لگتی ہے، مگر ایسا کرنے والے اپنی دُھن میں مگن الفاظ کے تیر چلائے جارہے ہیں، اور فتوحات کے پرچم لہرائے جارہے ہیں۔بہتر تو یہ تھا کہ ہمارے وزراء اور دیگر ذمہ داران سنجیدگی سے اپنے کام سے کام رکھیں اور دیہاتی لڑاکی عورتیں کی طرح دیواروں کے اوپر سے ایک دوسرے کو لہک لہک کر طعنے نہ دیں مگر یہاں شاید عوام کی اکثریت بھی اسی قسم کا ماحول پسند کرتے ہیں۔ جس طرح نیچے عوام اپنے قائدین کے لئے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، اسی طرح اوپر ’قائدین‘ بھی اسی منظر کا عکس پیش کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کی اکثریت غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہے، ایسے ماحول میں ترقی کا خواب دیکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429128 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.