سپورٹس ڈائریکٹریٹ برائے رشتہ داران ' معذور اور خاتون کیلئے الگ قانون اور انڈر 21 کے انڈر ٹیبل ٹرائلز


میرٹ پر یاد آیا کچھ دن قبل تک مردان میں سرگرم عمل ایک صاحب نے آٹھ افراد کو براہ راست بھرتی کیا جن میں تین ایک پرانے صاحب کے رشتہ دار ہیں جنہیں وفاقی ادار ے سے براہ راست پراجیکٹ میں کھپایا گیا تھا. اور ان تین افراد کی بھرتی نہ کرنے پر سابق ڈائریکٹر جنرل اسفندیار خٹک کے خلاف اسلام آباد تک درخواستیں دی گئی کیونکہ انہوں نے پراجیکٹ کے صاحب کے رشتہ داروں کو بھرتی سے انکار کیا تھا اب نئے ایمانداراور قابل ترین ڈی جی کی موجودگی میں ان تین افراد کو ڈیلی ویجز میں رکھا گیا ہے جبکہ چار خوااتین بھی ان میں شامل ہیں جو ریٹائرڈ ہو چکی ہیں پشتو زبان میں ایک مثل مشہور ہے ' چی دا شپیتو شی و دا ویشتو شی ' جس کے معنی کچھ یوں ہیں کہ ساٹھ سال تک پہنچنے کے بعد بندے کو گولی مارنی چاہئی

زار شمہ .. .. جانہ ` ہر زائے دے غل خانہ دہ... یہ پشتو زبان میں بہت زیادہ بولی جاتی ہے اس میں ایک پڑوسی ملک کے بڑے شہر کانام لیا جاتا ہے جس کا نام ہم تو نہیں لے سکتے کیونکہ برادرانہ تعلقات خراب ہونے کا خدشہ ہے لیکن شہر کا نام لئے بغیر یہ مقولہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ہر جگہ پر " بول و برالز " کرتے تھے .. لیکن پاکستان میں انہیں یہ سہولت میسر نہیں تھی . .. یہ تمہید ایک ایک مسئلے کی جانب توجہ دلانے کیلئے شروع کی ہے ' ہمیں ان کے بول و براز سے کیا مطلب ' ہم پاکستانی کونسے اتنے صاف ستھرے ہیں گذشتہ روز بھی پشاور سپورٹس کمپلیکس میں کچھ مہمان آئے ہوئے تھے جن کے ساتھ بچے تھے بچوں کے والدین یہ سمجھے کہ شائد درختوں کو یوریا کی ضرورت ہے اس لئے انہوں نے بچوں کی شلواریں اتار کر درختوں کو دیسی یوریا دینے کی بھرپور کوشش کی. اب کون جائے باتھ رومز ' خیر آتے ہیں اپنے اصلی موضوع کی طرف جس کی طرف نہ تو وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی توجہ ہے اور نہ ہی ڈیپارٹمنٹ میں آنیوالے نئے سیکرٹری سپورٹس و خصوصا ڈائریکٹر جنرل کی ' کیونکہ اس غریب کی توجہ ایک طرف جاتی ہے تودوسرا کٹاکھل جاتا ہے ' یہ ان کی ایماندارانہ کاوشیں ہیں کہ کسی حد تک سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی حالت بہتر ہوئی ہیں تاہم پھر بھی ان کی سادگی یا پھر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ اپنا کام نکال لیتے ہیں .

کام نکالنے پر یاد آیا کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ سے گذشتہ دنوں ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ساٹھ سے زائد اہلکاروں کو فارغ کیا گیا جنہیں کہا گیا کہ ابھی ان کی ضرورت نہیں. ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو ڈیوٹیوں پر نہیں آتے تھے اور کچھ مفت میں مارے گئے کیونکہ انہیں"جی سر اور مکھن بازی"کی عادت نہیں تھی ' لیکن پھر بھی اس معاملے میں ڈنڈا مارا گیا ' اکاوئنٹ کے شعبے سے وابستہ ایک اہلکار جن کا بیٹا اور داماد بھی ایک عرصے سے مفت میں تنخواہیں لینے میں مصروف عمل ہیں ابھی بھی ماشاء اللہ ڈیلی ویجز میں کام کررہے ہیں یہ الگ بات کہ ان میں ایک کی ڈیوٹی نہیں ہوتی وہ کالج میں پڑھتے ہیں تو دوسرا دن میں صرف چند گھنٹے ڈیوٹی کیلئے آتا ہے جبکہ جن کا کوٹہ ہے ااور صوبائی حکومت نے معذوروں کیلئے کوٹہ مقرر کیا ہے ' ان سے کام لیکر مہینے کے آخر میں کہا جاتا ہے کہ ابھی آپ کی ضرورت نہیں جب آپ کی ضرورت ہوگی تو پھر آپ کو بلایا جایگا. اور معذور بھی ایسا نہیں کہ کام نہ کرسکے لیکن چونکہ غریب آدمی کا اس دنیا میں اللہ کے سوا کوئی سہارا نہیں ہوتا اس لئے ٹیوب ویل آپریٹر کے عہدے پر ہونے کے باوجود غریب معذور شخص سے ہر کام لیا گیا حتی کہ اس غریب نے اپنی معصوم بیٹی کی موت پر بھی مجبورا تین دن چھٹی کی ' کیونکہ فکس پے کے ملنے والے پندرہ ہزار روپے بھی غریب کیلئے بڑی چیز ہوتی ہیں لیکن دوسری طرف حال یہ ہے کہ ایک خاتون کو ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاور میں اس لئے تعینات کیا گیا کہ انہیں کوارڈینیٹر کی ضرورت ہے ' اور انہیں تیس ہزار روپے ماہانہ دیا جائیگا جبکہ بیس ہزار روپے معذور شخص کو تنخواہ دینے کیلئے فنڈز نہیں جبکہ تیس ہزار فمییل کوارڈنیٹر کیلئے فنڈز موجود ہے یہ وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی وزارت ہے.

سوال یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس اور ریجنل سپورٹس آفس نے کوارڈینیٹر کا عہدہ ایڈورٹائز کیا تھا اور اگر کیا تھا تو اس میں کتنے لوگوں نے درخواستیں جمع کرائی تھی یہ پراسیس کب کیا گیا اور اس کا انٹرویو کس نے کیا یہ وہ سوال ہے جو کرنے کے ہیں ' اور کیا ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس اور ریجنل سپورٹس آفس سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام نہیں کہ اپنی مرضی کرتے پھرتے ہیں ' جب مرضی ہو تو غریب آدمی کو لات مار کر نکال دے اور اپنے من پسندوں کو بھرتی کرے .

مزے کی بات تو یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس کوارڈینیٹر کی تعیناتی کیلئے یہ جواز پیش کررہی ہے کہ چونکہ پندرہ مارچ سے انڈر 21فیمیل کے مقابلے ہورہے ہیں اور چونکہ خواتین کالجز میں مسئلے ہوتے ہیں اس لئے ٹرائلز کیلئے انہیں لیا گیا ہے ' اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حال ہی میں ایک سٹور کے نام پر ہونیوالے بنت ہوا ایوارڈ جسے پشاور کی سطح پر کرایا گیا اور کاغذات میں نوشہرہ ' مردان اور چارسدہ کے کالجز کو بھی ظاہر کیا گیا کیا نوشہرہ ' مردان اور چارسدہ کے کالجز کے مقابلے ان کے اپنے اضلاع میں نہیں ہوسکتے . اور اگر پشاور میں ہی کرنے تھے تو پھر پھر ڈسٹرکٹ سپورٹس و ریجنل سپورٹس آفس کے زیر انتظام ان مقابلوں میں جن رشتہ داروں کو پھولوں کے گلدستے اور ایوارڈ دئیے گئے اورانہیں انڈر 23 کیلئے لی گئی ٹرافی جو کہ سال 2018 میں لی گئی تھی دکھا کر مقابلے کروائے گئے. اب اس پر ڈپٹی کمشنر پشاور اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کتنی رقم نکال کر ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس اور ریجنل سپورٹس آفس کے حوالے کریگا.کیا کالجز میں سپورٹس ڈیپارٹمنٹ چلانے والے پنے کالجز میں انڈر 21 فیمیل کیلئے ٹرائلز نہیں کرسکتے . حالانکہ بیشتر رشتہ دار ان کالجز میں سپورٹس سے وابستہ عہدوں پر تعینات ہیں ' اور اگر وہ اتنے ہی بے کار ہیں تو پھر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں تعینات کوچز کس مرض کی دوا ہیں ' کیا وہ ٹرائلز کی نگرانی نہیں کرسکتے ' ویسے بھی اس ادارے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر خواتین بھی موجود ہیں. کیا ان سے کام نہیں لیا جاسکتا .یا ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس کو ان ٹرائلز پر اعتماد نہیں ' یا پھر "مال بنائو" پالیسی پر عمل ہورہا ہے.

کچھ عرصہ قبل نیب خیبر پختونخواہ نے انڈر 21 کے حوالے سے تحقیقات بھی شروع کی تھی لیکن شائد اب یہ ان کی خیال میں نہیں کہ کس طرح ٹیکنیکل طریقے سے انہیں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس اور ریجنل سپورٹس انہیں بے وقوف بنانے کیلئے کوشاں ہیں ' کیا انڈر 21 کے ٹرائلز پہلے نہیں ہوئے ' اور جن فیمیل نے ٹرائلز دئیے تھے وہ کہاں پر گئے . کیا ٹرائلز متعلقہ ایسوسی ایشن کی نگرانی میں ہوئے ' یا پھر یہاں پھر بھی "میاں بیوی "والا معاملہ چل رہا ہے یعنی میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی ' اب قاضی کون ہے ' وزیراعلی خیبر پختونخواہ ' سیکرٹری سپورٹس یا ڈائریکٹر جنرل سپورٹس ' یہ انہیں خود سے پوچھنے کی ضرورت ہے.اگر وہ اس معاملے میں اتنے ہی کمزور ہیں تو پھر اس ڈیپارٹمنٹ پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بجائے سپورٹس ڈائریکٹریٹ برائے رشتہ داران رکھا جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ یہاں پر اپلائی کرنا بھی غلط ہے کیونکہ رشتہ دار رشتہ دار کو سپورٹ کرتا ہے اور میرٹ میرٹ صرف نام کی چیز ہے.

میرٹ پر یاد آیا کچھ دن قبل تک مردان میں سرگرم عمل ایک صاحب نے آٹھ افراد کو براہ راست بھرتی کیا جن میں تین ایک پرانے صاحب کے رشتہ دار ہیں جنہیں وفاقی ادار ے سے براہ راست پراجیکٹ میں کھپایا گیا تھا. اور ان تین افراد کی بھرتی نہ کرنے پر سابق ڈائریکٹر جنرل اسفندیار خٹک کے خلاف اسلام آباد تک درخواستیں دی گئی کیونکہ انہوں نے پراجیکٹ کے صاحب کے رشتہ داروں کو بھرتی سے انکار کیا تھا

اب نئے ایمانداراور قابل ترین ڈی جی کی موجودگی میں ان تین افراد کو ڈیلی ویجز میں رکھا گیا ہے جبکہ چار خوااتین بھی ان میں شامل ہیں جو ریٹائرڈ ہو چکی ہیں پشتو زبان میں ایک مثل مشہور ہے ' چی دا شپیتو شی و دا ویشتو شی ' جس کے معنی کچھ یوں ہیں کہ ساٹھ سال تک پہنچنے کے بعد بندے کو گولی مارنی چاہئیے ' پتہ نہیں کس نے یہ بات کی تھی لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ریٹائرڈ ہوکر پھر آنیوالوں پر یہ چیز مکمل طور پر فٹ آتی ہیں ' اب بھلا یہ کوئی بات ہے کہ ایک طرف نوجوان روزگار کیلئے خوار ہیں اور دوسری طرف پنشن لینے والے افراد کو پھر سے ڈیلی ویجز میں رکھا جارہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کی خدمات بہت زیادہ ہے اور ان کیے تجربے سے فائدہ لینا ہے ' ریٹائرڈ ہونیوالے اورڈیپارٹمنٹ سے ریٹائرڈ ہوکر آنیوالے اگر ان ریٹائرڈ افراد نے ڈیپارٹمنٹ چلانے ہیں تو پھر نوجوانوں کو روزگار کے جھوٹے دعوے اور میرٹ کرنے ہی نہیں چاہیئے . ویسے کچھ لوگوں کو حرص اور ہوس مار دیتی ہیں اور عمر کے آخری حصے میں یہ کچھ زیادہ ہو جاتی ہیں..


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420817 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More