ہندو ، ہندو کب ہوا ؟ ۔۔۔۔۔

یہ سوال اس وقت بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ انتہا پسند کونسا ’ہندو توا‘ چاہتے ہیں، جب کہ یہ لفظ خود بیرونی قوموں کی جانب سے دیا گیا اور ایک الگ مفہوم رکھتا ہے۔”ہندو توا “ سنگھ پریوار کاایک ایسا نعرہ، نظریہ اور پالیسی کے طور پر جانا جاتا ہے جس میں حکمت عملی کا محور ’نفرت کے ماحول‘ کو مذہبی اکائیوں کے خلاف ابھارنا ہے۔ ہندو بذات خود فارسی زبان کا لفظ ہے، ایرانی، عربی، ترکی اور افغانی وغیرہ بھارتیوں کو ”ہندو“ کہا کرتے تھے۔ لغت میں لفظ ’ہندو‘ کا مطلب غلام، ان پڑھ، چور، لیٹرا وغیرہ ہے۔ مہاراشٹر حکومت کی شائع کردہ اردو مراٹھی لغت صفحہ 476 میں ہندو کا یہی مطلب لکھا ہوا ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ہندو لفظ مذہب سے جڑ گیا کہ جیسے مذہب کے ساتھ وجود میں آیا ہو۔ حالاں کہ مذہب کا نام (ہندو) سنسکرت یا مقامی کسی بھی زبان میں ہونا چاہے تھا لیکن یہ لفظ اس قدر مستعمل ہوگیا کہ اس کے اصلی معنی کو بھلا دیا گیا۔ واضح رہے کہ دیگر لغات میں ہندو لفظ کے معنی (شاذ) چور، ڈاکو نیز غلام، زنگی، حبشی، شیدی، سیاہ رنگ کا آدمی، کالا آدمی نیز سیاہ، کالا رنگ، سیاہ گیسو، چہرے کا کالا تل اور ویدک دھرم کا پیروکار اور پھر ہندو مذہب کا پیروکار بتایا گیاہے۔ خیال رہے کہ ہزاروں برس قبل ایران کی طرف سے ایک قوم کی شاخیں مغربی دروں کو عبور کر کے ہندوستان میں داخل ہوئی جسے تاریخ میں آریہ ورت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے قدیم قبائلی باشندوں کے مقابلے میں آریہ قوم میں طاقت و قوت زیادہ تھی، آریہ (معزز، بلند مرتبہ) نے بزور طاقت مقامی لوگ جنہیں یہ داس (غلام) یا تشا (حقیر) اور پشیا جی (کچا گوشت کھانے والے) کہتے تھے، انہیں جنگلوں اور پہاڑوں کی جانب دھکیل دیا اور باقیوں کو اپنی خدمت کے لئے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیا، طبقاتی تفریق کے طور پر انہیں شودر یا اچھوت کا درجہ دے کر معاشرے میں پست ترین مقام دیا۔آریہ کے بعد متعدد اقوام ہندستان میں حملہ آور کی حیثیت سے آئے اور بیشتر نے اپنی حکومت بھی قائم کیں، تاریخی طور پر تجزیہ کیا جائے تو جو حملہ آور آتا اس کا اپناایک قومی تشخص تھا، اپنا جداگانہ نسلی امتیاز، اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنا مذہب بھی تھا، ہندوستان میں جداگانہ تشخص کا تصور نہیں تھا بلکہ حملہ آوروں کے بس جانے کے بعد ان میں ان امتیازات میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اور پھر یہ سب کے سب ”ہندو“ کہلائے جانے لگے۔ درحقیقت ہندو لفظ کا قدیم استعمال جغرافیائی اصطلاح کے طور پر تھا، تاریخ کے مطابق اس علاقہ کو یہ نام قدیم زمانے میں ایرانیوں نے دیا تھا، یہ لفظ سندھ سے بنا ہے، فارسی میں س کو ''ہ'' سے بدلنے کا رواج ہے۔ اس لئے انھوں نے سندھ کو ہند کردیا۔ وہیں سے رواج پاکر یہ لفظ ہندو بن گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندو کا لفظ فارسی زبان سے نکلا ہوا ہے اور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ وقت کے ساتھ ہندو کے معنی تبدیل ہوتے رہے مثلاََ جو دریائے سندھ کے اس پار بستے ہیں۔ (قدیم) ہندوستان کا رہنے والا۔ اب چونکہ ہندو لفظ کے اصلیت کو بھلا یاجاچکا ہے اس لئے لفظ ہندو کو ایک ہندو مت کے پیروکاروں سے ہی شناخت دی جاتی ہے اور ہندو لفظ سے مراد بھی یہی ہوگی نتہا پسندی کوکسی ایک قوم یا مذہب سے نہیں جوڑا جاسکتا، 1875 میں انتہا پسندی کے تصورات پر مبنی سماجی خدمات کے روپ میں آریہ سماج تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ گیئو رکھشا تحریک 1882 میں دیا نند نے قائم کی،1920میں دیا نند کے شاگرد شردھا نند نے مسلمانوں اور دیگر مذہبی اکائیوں کو جبراََ ہندو بنانے کے لئے شدھی تحریک کا قیام عمل لا کر نعرہ لگایا گیا کہ ”ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہو“۔ 1925میں انتہا پسند ڈاکٹر کیشو بلی رام نے راشٹریا سیوک کی بنیاد رکھی، جو اب آر ایس ایس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مسلم دشمنی میں نوجوانوں کی برین واشنگ اور تشدد پر مبنی نفرت انگیز رویہ ہی وہ ہندو توا ہے جو اب مودی سرکار کی حکومت بی جے پی (سیاسی ونگ) اور آرایس ایس(ہندو انتہا پسند تنظیم) کی چھتری تلے بڑھ چڑھ کر انسانی حقوق کی پامالی کا سبب بنا ہوا ہے۔ آر ایس ایس کے بطن سے سنگھ پریوار، بجرنگ دل اور شیو سینا انتہا پسند تنظیموں نے مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف مذموم کاروائیوں نے تعصب اور نفرت کی آگ کو بھڑکا کر مخصوص مفادات کا حصول جاری رکھا ہوا ہے

 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 660527 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.