سپورٹس ڈائریکٹریٹ ' پاپی پیٹ ' انڈر 21 اور طاقتور کون

کچھ لکھا جاتا ہے تو ادارے یا ڈیپارٹمنٹ کو کچھ ہو یا نہ ہمارے نام نہاد صحافی جن میں بیشتر کنٹریکٹر ہیں ' کوئی جوتوں کا اور کوئی میڈل کا ' انہیں بہت آگ لگتی ہیں کیونکہ ان کے مفادات ان اقائوں سے وابستہ ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ڈیپارٹمنٹ کے ان ناخدائوں کا ساتھ ہے تو وہ کچھ بھی کرینگے ان کنٹریکٹر اور ٹھیکیدارنماصحافی کے بارے میں پھر لکھیں گے کیونکہ ایک تو ہے نہیں " پتھر اٹھاتے ہی نیچے سے ایک...نکل آتا ہے.جو اپنے پیٹ کی خاطر " طوائف سے بڑھ کر"کردار ادا کرنے کو تیار ہے


پشتو زبان کی ایک مثل مشہو ر ہے کہ مخکے بہ یوکمینہ وو.. اوس بہ کم کم ٹھیک کوے .. چی کانڑی اوچتی نو یو تے راوزی.. پشتو کی اس مثل میں بہت سخت الفاظ ہیں اس لئے کھانٹ چھانٹ کرکے لکھا ہے لیکن اس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک کمینہ ہوا کرتا تھا اب اتنے کمینے ہوگئے کہ کس کس کو ٹھیک کرنا پڑے گا کیونکہ پتھر اٹھاتے ہی نیچے سے ایک نیا کمینہ نکلتا ہے ' لفظ کمینہ نہیں یہ کچھ اور ہے لیکن لوگوں کی سہولت کی خاطر اور اپنی آسانی کیلئے الفاظ میں نرمی پیدا کی ہے کیونکہ .. کمینہ چہ کمینہ اونوے نو تہ ھم غم کمینہ ئے.. یعنی اگر کمینے کو کمینہ نہیں کہا تو آپ بھی بڑے کمینے ہو ' سو ہم ان ... میں شامل ہونے سے بچنے کیلئے کمینے کو کمینہ کہتے رہیں گے. اتنی لمبی تمہید صرف اس لئے لکھی ہیں کہ ایک زمانہ تھا کسی سرکاری ادارے کے خلاف خبر چلتی تو فورا ایکشن لیا جاتا اور متعلقہ افراد کی انکوائری شروع ہوجاتی اب تو خبر چلتی ہے یا کچھ لکھا جاتا ہے تو ادارے یا ڈیپارٹمنٹ کو کچھ ہو یا نہ ہمارے نام نہاد صحافی جن میں بیشتر کنٹریکٹر ہیں ' کوئی جوتوں کا اور کوئی میڈل کا ' انہیں بہت آگ لگتی ہیں کیونکہ ان کے مفادات ان اقائوں سے وابستہ ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ڈیپارٹمنٹ کے ان ناخدائوں کا ساتھ ہے تو وہ کچھ بھی کرینگے ان کنٹریکٹر اور ٹھیکیدارنماصحافی کے بارے میں پھر لکھیں گے کیونکہ ایک تو ہے نہیں " پتھر اٹھاتے ہی نیچے سے ایک...نکل آتا ہے.جو اپنے پیٹ کی خاطر " طوائف سے بڑھ کر"کردار ادا کرنے کو تیار ہے..

پیٹ کی خاطر کیا کچھ لوگ نہیں کرتے ' اس پاپی پیٹ نے بہت ساروں کو "ایمان" کے ہوتے ہوئے بھی بے ایمان کردیا ہے ایسے بے ایمان بھی ہیں جو حدیث کے ہوتے ہوئے اپنے لئے " فتوے" لاتے ہیں اللہ مجھ سمیت ہم سب کو ہدایت نصیب کرے . اور ہمارے دلوں کو ٹیڑھا ہونے سے بچائے. یہ اس پاپی پیٹ کا ہی کمال ہے کہ گذشت دنوں سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایک بل جمع کروایا گیا جس میں اصل سے کچھ زیادہ ہی رقم لکھی گئی تھی یہ تو شکر ہے کہ نئے تعینات ڈائریکٹر جنرل سپورٹس نے آنکھیں بند کرکے دستخط کے بجائے بل جاری کرنے والے دکاندار سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ جو پانچ ہزار روپے کا بل ہے اس کا اصل کچھ اور ہے جس پر انہوں نے بل فورا پھینک دیا اور بل لانے والے کی سرزنش کردی. ویسے یہ بات سرزنش سے نکل چکی ہے کچھ عرصہ اسی ادارے میں وزیراعظم َعمران خان نے آنا تھا اورگرائونڈ کا چکر لگانا تھا اسی باعث ادارے نے جلدی جلدی میں خراب ہونیوالے چیزوں کو ٹھیک کرنا شروع کردیا اسی ادارے کے ایک بڑے"فتووں" والے صاحب نے کموڈ کو جانیوالے پائپ کی قیمت ہزاروں میں وصول کردی حالانکہ اصل قیمت دو سو روپے سے زائد نہیں تھی لیکن وہ پشتو مثل چہ سترگے ئی اوگے دی . یعنی بہ پیدائشی بھوکے ننگے ہیں انہیں خدا ہی پورا کرے گا.

پورے کرنے پر یاد آیا کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایک ادارے کے سرکاری ملازم نے دوسری سرکاری ملازمت کیلئے لوازمات پوری کرتے ہوئے اپنے سابقہ ادارے سے این او سی حاصل کرکے دوسری سرکاری ادارے میں عارضی ملازمت بھی حاصل کرلی .ویسے تبدیلی والی سرکار نے اعلان کیا تھا کہ ہم ایک کروڑ نوکریاں دینگے . نوکریاں پانچ سال میں انہوں نے کیا دینی ہے اسی تبدیلی والی سرکار کے ہی کھلاڑی یعنی صوبائی وزیراعلی جن کے پاس صوبائی وزارت کھیل بھی ہے نے کئی غریب کلاس فور کو برطرف کرکے بیروزگارکردیا جبکہ ان کی جگہ نئے من پسند اہلکاروں کے افراد بھرتی کرلئے گئے ہیں جو مستقبل میں انہی افراد کے کار خاص بنیں گے اگراخراجات کم ہی کرنے ہیں تو پھر نئی بھرتی کی ضرورت کیا ہے اس کا جواب کوئی دینے کو تیار نہیں ' سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے نئے صاحب بہت زیادہ ایماندار ہیں اتنے ایماندار کہ ویڈیو بنانے اور تصویر بنانے پر پابندی عائد کی ہے جس کی وجہ بھی بیان نہیں کی کہ کس بنیادوں پر پابندی عائد کی ہے . ویسے آپس کی بات ہے کہ پابندیاں وہی لگاتے ہیں جنہیں اپنے کرتوتوں"کا پتہ ہوتا ہے اور وہ اپنے سوراخوں کو عوام سے چھپانا چاہتے ہیں.خیر بات کہیں اور نکل گئی تبدیلی والی سرکار کی لوگوں کو روزگار دینے سے متعلق پالیسی شائد یہی تھی کہ سرکار کے ایک ملازم کو دوسری جگہ ملازمت دی جائے ' این جی او کے اہلکار کو سرکاری کوچنگ میں رکھا جائے جو تیسری جگہ کھیلوں کے فیڈریشن کا صدر بھی ہو.یعنی چھپڑی چھپڑی اور دو دو کی جگہ چھپڑی چھپڑی اور تین تین ' خیر غریب عوام کو اب آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی ہے.کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا..

ہاتھ تو انڈر 21 کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کیساتھ صوبائی حکومت کررہی ہیں بلکہ انہیں ہاتھ کی صفائی دکھا رہی ہیں. دعوے کئے جارہے ہیں کہ اس حکومت نے نمایاں پوزیشن ہولڈر کھلاڑیوں کو ماہانہ وظیفہ دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ چھ ماہ سے ان غریب کھلاڑیوں کو یہ دس ہزار روپے ماہانہ نہیں مل رہے ایسے میں متعدد کھلاڑی پریشان ہیں کہ ان کے اخراجات کیسے پوری ہوں کیونکہ بعض بچوں کے سکول کی فیسیں اور بعض کے گھروں کے اخراجات کسی حد تک ان دس ہزار روپوں سے پورے ہوتے تھے لیکن فنانس کے وزیر نے نئی پالیسی متعارف کروا دی ہے جس کے تحت نئے آسائمنٹ کھولنے کے بعد ڈیپارٹمنٹ کو فنڈز جاری کئے جائینگے لیکن مزے کی بات کہ پروسیجر اتنا لمبا ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ چھ ماہ سے اسے مکمل نہیں کرپارہا یا تو پروسیجر لمبا ہے یا پھر ڈائریکٹریٹ میں خیر خیریت ہے ' چلیں مان لیتے ہیں کہ پرانے ڈائریکٹر نے اس معاملے میں دلچسپی نہیں لی لیکن نئے تعیناتی کے بعد بھی انتظامیہ "خیرخیریت ہے " والے معاملے سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے اب تو ڈائریکٹر جنرل نے اپنی کھلی کچہری میں اسے ڈیپارٹمنٹ پر قرض قرا ر دیکر مزید دو ماہ کی مہلت طلب کی یعنی مئی جون تک یہ سلسلہ جاری رہے گا اور پھر جولائی میں بجٹ کی تیاری ہوتے ہی یہ رقم بھی "واپس "ہی کرنے پڑے گی . اگر یہی سلسلہ ہے تو پھر انڈر 21 کے فیمیل مقابلے کروانے کی ضرورت کیا ہے جس کی خریداری کیلئے حال ہی میں نیا ٹینڈر کیا گیا .اگر وظیفہ نہیں دینا تو پھر مقابلے کروانا کیا معنی رکھتا ہے جس کے دعوے بھی صوبائی تبدیلی والی سرکار کرتی آرہی ہیں.ویسے اند ر کی بات ہے کہ وزارت کھیل کے وزیر جو خود وزیراعلی ہیں نے اللہ کے آسرے پر ڈیپارٹمنٹ کو چھوڑا ہوا ہے جس طرح ان کے مشر نے پوری پاکستان کو اللہ کے آسرے پر چھوڑا ہوا ہے کیونکہ فنانس منسٹر جو وزیر صحت بھی ہے نے سپورٹس ڈیپارٹمنٹ میں لاگو ہونیوالی نئی پالیسی سے اختلاف کیا اور کہا کہ ہم ایسی پالیسی کو نہیں مانتے کہ پروپوزل آئینگے ' جو ڈی جی سے منظور ہو کر کمیٹی کو جائینگے جہاں سے اپرول کے بعد فنانس ڈیپارٹمنٹ کو جائینگے اور وہاں سے منظوری کے بعد اکائونٹنٹ جنرل کے دفتر کو جائینگے یعنی ایک فائل کی چیکنگ ڈیپارٹمنٹ کیساتھ ساتھ پانچ جگہوں پر ہوا کرے گی ایسے میں کام کیسے چلے گا کتنی سست روی ہوگی ایک ماہ میں فائل ایک ڈیپارٹمنٹ سے دوسری ڈیپارٹمنٹ کو جائیگی او ر پھر تھرو پراپر چینل چلنے والے فائل کو " پہیے "بھی تو لگانے ہونگے اب اگر موجودہ صورتحال میں دو جگہیں پر پہیے چلتے ہیں پھر پانچ جگہوں پر پہیے لگانے پڑینگے.. پہیے لگانے والے جانتے ہیں پہیے کیسے لگتے ہیں ' ویسے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں پرانی پالیسی آگئی اور وزیراعلی کی وزارت ابھی تک نئی پالیسی کے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے .. اس سے پتہ بھی چلتا ہے کہ اس صوبے میں "طاقتور"کون ہے .. اور ہاں طاقت کیلئے سمبل کا نشان گھوڑ اور گھڑ سواری ' جو ڈیرہ میں بہت زیادہ ہوتی ہیں کی طاقت کی باتیں اگلے کالم میں...

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420754 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More