جمعہ نامہ :آزمائش اور ایمان کی افزائش

ارشادِ ربانی ہے:’’کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ‘‘؟ یہ سلسلۂ کلام تو منافقین کا ہے لیکن آزمائش میں سچے اورپکے اہل ایمان بھی ڈالے جاتے ہیں فرق یہ ہے کہ کسی کے حصے میں کامیابی و کامرانی آتی ہے اور کوئی ناکام و نامراد ہوجاتا ہے۔ اس لیے تمام مسائل کے مستقل حل کی بات توخام خیالی ہے۔ اس سے قبل سورۂ توبہ میں اعلان برٔاۃ اورغزوۂ تبوک کا بیان ہے۔ میدانِ تبوک میں وقت کے سپر پاور نے کنی کاٹ کر اپنی شکست تسلیم کرلی اور اسلام نے اس کی جگہ لے لی لیکن اس عظیم کامیابی کی ابتداء شدید ابتلاء و آزمائش کے ساتھ ہوئی تھی۔ شام کی سرحد پررومیوں کے زیرِ اثر علاقہ میں عیسائی آباد تھے ۔ صلح حدیبیہ کےبعد جب ایک دعوتی وفد وہاں بھیجا گیا تو اس کے 15؍ افراد شہید کردیئے گئے۔ قیصرروم کےعیسائی گورنر شُرَحبِیل بن عمرو نےاسلام کی دعوت دینے والے نبی کریم ﷺ کےسفیر حارث بن عُمَیر ؓ کو بھی شہید کر دیا ۔
اس صورتحال میں سن ۸ ہجری کے اندر نبی کریم ﷺنےتین ہزار مجاہدین کی ایک فوج شام کے شہرمؤتہ کی طرف روانہ کی ۔ اس کے مقابلے میں شُرحبیل ایک لاکھ کا لشکر لے کرآیا اور قیصر روم نے اپنےبھائی کی قیادت میں ایک لاکھ کی بیک اپ فوج روانہ کی۔ اس کے باوجود ۳ ہزار مجاہدین اسلام کا مختصر دستہ شرحبیل کی فوج سے جا ٹکرایا اور مغلوب نہیں ہوا۔ اس معجز نما کامیابی نے شام سے متصل نیم آزاد عربی قبائل اور عراق ونجدی قبیلوں کے ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام کردیا ۔ ایک عظیم ترین آزمائش کا یہ ناقابلِ یقین انجام تھا۔ اس تناظر میں اگر حجاب کا معاملہ اور جئے شری رام کا نعروں کا جواب دینے والی تنہا مسکان خان کے نعرۂ تکبیریعنی اللہ اکبر کو دیکھیں ۔ کسے پتہ تھا کہ اس نعرے کی ویڈیو بنے گی اوروہ ذرائع ابلاغ پر اس طرح چھا جائے گی کہ گودی میڈیا کے معروف چینل مسکان کی تعریف و توصیف ہوگی اور انہیں حجاب کے مسئلہ پر نہایت جرأتمندی کے ساتھ اپنا موقف رکھنے کا موقع ملےگا ۔ راتوں رات مسکان خان ملک بھر کے خواتین کی پروقار آواز بن جائے گی اور حجاب کے مخالفین بھی اس کے گنگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اللہ کی سنت آزمائش میں پامردی کو اس طرح کے غیر متوقع نتائج سے ہمکنار کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی ۔

غزوۂ مؤتہ کے بعدسلطنت روم کی عربی فوجوں کےکمانڈر فَروَہ بن عَمرو الجُذامی اسلام قبول کیا تو انہیں گرفتار کر کے قیصر کے دربار میں پیش کیا گیا۔ ان کے سامنے معافی اورعہدے کی بحالی یا اسلام پر قائم رہنے کے نتیجہ میں سزائے موت کے دو متبادل رکھے گئے۔ حضرت فروہ بن عمرؓ نے مسکرا کر جام شہادت نوش فرما لیا ۔ اس واقعہ نے قیصر روم کو اسلام کے خطرے سے ہیبت زدہ کردیا ۔عدالت میں اٹارنی جنرل کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی الحال کرناٹک کی حکومت بھی خوفزدہ ہے۔قیصرِ روم نے جب اسلام کے خطرے سے نمٹنے کی خاطرشام کی سرحد فوجی تیاریاں شروع کیں تو نبی اکرم ﷺ نے بھی اس کے جواب میں غزوۂ تبوک کا ارادہ فرمایا ۔ اس وقت گرمی اور قحط سالی تھی۔ فصل تیار تھی ،سواریوں اور سروسامان کا انتظام مشکل تھا ۔ایک طرف سرمایہ کی کمی اور دوسری طرف سپر پاور اس کے باوجود جنگ کا فیصلہ کیا گیا ۔یہ موقع ایمان اور نفاق کے امتیاز کی عظیم کسوٹی تھا ۔

نبی کریم ﷺ کی قیادت میں سن 9؍ہجری کے اندر 30؍ ہزار مجاہدین کا لشکر جب تَبُوک پہنچاتو قیصر نے اپنی فوجیں سرحد سے ہٹا کر شکست تسلیمکر لی۔اس عظیم اخلاقی فتح کی ایک وجہ تو نبی کریم ﷺ کا نامساعد حالات میں دلیرانہ اقدام تھا اور دوسرے غزوۂ مُؤ تہ میں 3 ہزار مجاہدین اسلام کا ایک لاکھ سے جاٹکرانے کی ہیبت تھی جس نے دشمن کو ارادہ بدلنے پر مجبور کردیا۔ اُسی جرأت و ہمت نے لاکھوں کی فوج کے مالک قیصرروم کو 30 ہزارکے اسلامی لشکرسے خوفزدہ کردیا اوروہ منہ چرا کر بھاگ گیا۔ آپ ﷺ کے تبوک میں 20 دن قیام کے دوران افرد کےعلاوہ رومی سلطنت کی کئی باجگذار ریاستیں بھی اسلامی حکومت کےتابع فرمان بن گئیں ۔مذکورہ آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ ان ایمان افروز واقعات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود منافقین :’’ نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں‘‘۔ توبہ کا تعلق قلب اور تذکر کا عقل سے ہے یعنی ان کی عقل ماوف اور دل تاریک ہوچکے ہیں اس لیے عبرت و نصیحت سے محروم رہ جاتےہیں ۔ وطن عزیز کے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں دبنگ دادی کی مانندبیٹی مسکان کا نام بھی سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1235615 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.