بھارت اسرائیل کے نقش قدم پر

بھارت اسرائیل کے نقش قدم پر چل کر مسلمان خواتین پر تعلیم کے دروازے بند کر دینا چاہت ہے جیسے اسرائیل نے فلسطین میں کیا ہے

روس کی ایک ڈیجیتل نیوز ایجنسی نے کشمیر پر ایک ویڈیو ڈاکومینٹری بنائی ہے جس میں بتایا گیاہے کہ بھارتی کشمیر مقبوضہ فلسطین کی طرح مقبوضہ ریاست میں تبدیل ہو رہا ہے۔

اسرائیل نے فلسطین کے خلاف جوطویل المدتی اور کثیر الجہتی اپریشن شروع کیا تھا اس کے نتیجے میں فلسطینی دنیا بھر میں تنہا ہو چکے ہیں۔ اس اپریشن کی ایک جہت تعلیمی طور پر فلسطینیوں کو پسماندہ کرنا تھا۔ ایک مشہور قول ہے کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔ تعلیم کے بارے میں دنیا کے عقلمند ترین انسان کا قول ہے اگر تم نے ایک مرد کو تعلیم دی تو تم نے ایک فرد کو تعلیم دی اور اگر ایک عورت کو تعلیم دی تو گویا پورے خاندان کو تعلیم دی۔ فلسطین کی عورتوں پر جب تعلیم کے دروازے بند کیے گئے تو یاسر عرفات پیدا ہونے بند ہو گئے۔ جب یاسر ہی پیدا نہ ہو گا تو لیلا خالد کا پیدا ہونا محال ہو جاتا ہے۔ لیلہ خالد جیسے کردار ناپید ہو جائیں تو معاشرے بانجھ ہو جایا کرتے ہیں۔آج فلسطین اکھڑی سانسوں کے ساتھ نشان عبرت بنا ہوا ہے تو دوسرے اسباب کے ساتھ ایک سبب فلسطینی خواتین کو تعلیم سے محروم کرنے کا اسرائیلی حربہ ہے۔

اگست 2019 کے بعد جب کشمیر میں تعلیمی ادارے بند ہونا شروع ہوئے تو کشمیروں خاص طور پر کشمیری طالبات نے بھارتی ریاست کرناٹک کے شہر بنگلور کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا شروع کردیا۔ بھارت کی سیلیکون ویلی کہلاتا یہ شہر اردو میں تعلیم کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہے تو کشمیر کے لوگوں کو اس شہر سے تاریخی اور جذباتی لگاو بھی ہے۔ مگر بھارت کی حکومت کشمیر ہی نہیں پورے ملک سے مسلمان خواتین پر تعلیم دروازے بند کرنے کے لیے فلسطین ماڈل پر عمل پیرا ہے۔

مسکان خان نامی لڑکی پہلی شکار نہیں ہے بلکہ جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے۔ بھارت بھر میں مسلمان عورتوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی سازش نما کوششیں جاری ہیں۔ بھارتی اپوزیش لیڈر نے مسکان خان والے واقعہ پر حجاب کو بہانہ بنا کر انڈیا کی بیٹیوں کے مستقبل پر ڈاکہ قرار دیا ہے۔مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر نے یہ کہہ کر بلی والے تھیلے کا منہ کھول دیا ہے کہ حجاب کے مسئلے کو طول دینا دراصل ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانا ہے۔ اور وہ خاص طبقہ ہے مسلم خواتین۔

ہندوستان میں عورتوں کے شارٹس اور ٹائٹس پہننے کو شخصی آزادی کہا جاتا ہے۔ مگر طالبات جب اپنی لباس کی پسند پرحجاب لیتی ہے تو تعلیمی اداروں میں داخلہ بند کر دیا جاتا ہے۔ افغانستان میں جب طالبان 12 سال سے زائد عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگاتے ہیں تو تعلیم دوست لوگ چلا اٹھتے ہیں کہ یہ ظلم ہے۔ مگر بھارت میں پری یونیورسٹی کالجوں سے ہر سال مسلمان طالبات کو حجاب کے نام پر تعلیمی اداروں سے نکال کر دراصل بھارت وہی کچھ کر رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطین میں کیا تھا۔ بھارت دراصل ان ساڑہے سات فیصد طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کر رہا ہے جو مسلمان کہلاتی ہیں۔ آل انڈیا لائرز فورم نے سرکار کے اس رجحان پر کہا ہے کہ طالبات کے خلاف انتطامیہ کا عمل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔اسرائیل نے فلسطین میں سیاست کی بنیاد سیاسی مفاد کی بجائے عربوں سے نفرت اور انتقام پر رکھی تھی۔ بھارت میں بھی مسلمانوں سے رویہ نفرت اور انتقام پر مبنی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بھارت اسرائیل کے نقش قدم پر چل پڑا ہے اور منزل بھارت میں مسلمان ظالبات پر تعلیم کے دروازے بند کر دینا ہے۔

بھارت کے ایک کالج میں جہاں مسلمان طالبات کی تعداد 75 تھی۔ ان میں سے صرف8 طالبات حجاب لیتی تھیں انتظامیہ نے انھیں کئی ہفتوں تک کلاس میں نہیں جانے دیا بالاخر انھیں تعلیم سے ہاتھ دہونا پڑے۔ آل انڈیا لائرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ طالبات کے خلاف انتظامیہ کا عمل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

انسان پہلے انسان ہوتا ہے اس کے بعد اس کے اعتقادات ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے اعتقادات نجی معاملہ ہوتا ہے۔ ہندو عورت کے گھونگھٹ لینے کو نجی معاملہ بتایا جاتا ہے۔ جسم ڈہانپنے کے لیے ساڑہی لینے کو تو ستائش کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو عورت کا سارا وجود ڈہانپ لیتی ہے مگر مسلمان عورت جب عبایا سے اپنا جسم ڈہانپتی ہے تو ان پر اوباش نوجوان چھوڑ کر توئین کی جاتی ہے۔ مسکان خان کا حجاب بھی چہرے کا اتنا ہی حصہ چھپاتا ہے جتنا بسنتی کا ماسک۔ مسئلہ مگر ماسک یا حجاب نہیں ہے مسئلہ عورت کی تعلیم ہے جو خود کو سیکولر کہلواتا بھارت عملی طور پر اسرائیل کے نقش قدم پر چل پڑا ہے۔


 

دلپزیر
About the Author: دلپزیر Read More Articles by دلپزیر: 135 Articles with 150566 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.