جب ہم نے بھی کرکٹ کھیلی تھی

کھیلنے کودنے اور بھاگنے دوڑنے کا مزا اس وقت آتا ہے جب جسمانی طاقت عروج پر ہو،
بڑھاپے میں تو کھیلتے ہوئے دیکھ کر بھی تھکاوٹ ہوجاتی ہے

(اس وقت جبکہ میں عمر کے آخری حصے میں پہنچ چکا ہوں تو رہ رہ کر جوانی کی یادیں ذہن میں ابھر آتی ہیں ۔وہ بھی کیا وقت تھا جب میں میڈیم پیس باؤلنگ بھی کرواتا تھا اور بیٹنگ کرنے کا جنون کی حد تک شوق بھی تھا ، سارا دن کھیلنے کے باوجود تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی تھی ۔اس دوران کئی چوٹیں بھی لگیں جن کو حرف غلط کی طرح فراموش کردیا لیکن بڑھاپا شروع ہوتے ہی وہ تمام چوٹیں دوبارہ زندہ ہوگئیں بلکہ ہر قدم پر وہ ہمیں اپنی موجودگی کا احساس کرواتی ہیں ۔گھٹنوں کے درد نے جب زیادہ ہی پریشان کیا تو ہڈیوں کے ماہر ڈاکٹروں کے پاس دوڑتا ہوا جا پینچا۔ جس نے درد کم کرنے کی چند مزید ادویات لکھ کر یہ نصیحت کردی کہ میاں اگر پیدل چلنے کا شوق ہو ،یا پیدل چلنا ضروری ہو تو چھڑی کا استعمال کیا کریں ،چھڑی کے بغیر چلنے پھرنے سے گرنے کا کسی بھی وقت احتمال رہے گا۔کیا وقت آ گیا ہے کہ لوگ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی باتوں کی طرف دھیان نہیں دیتے جن پر عمل کرکے دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہوا جا سکتا ہے لیکن ڈاکٹروں کی باتوں پر سو فیصد عمل کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ہو چکا ہے ۔اﷲ تعالی کا شکر ہے کہ ہم اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے ارشادات پر دل و جان سے عمل بھی کرتے ہیں اور ڈاکٹر کی ہدایات کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں ۔میں اپنے قارئین کو کرکٹ کی گراؤنڈ میں لے جانا چاہتا ہوں تاکہ وہ بھی جان سکیں کہ میں بھی کبھی جوان تھا اور کرکٹ بھی کھیلا کرتا تھا ۔)
....................
کرکٹ کی تو دنیا ہی نرالی ہے جس کو کرکٹ کا جنون ہو جائے وہ تو کھانا پینا بھی چھوڑ کر صرف اور صرف کرکٹ کی طرف ہی راغب رہتا ہے۔ جب سے ہم لاہور میں آئے ہیں ،اُسی وقت سے مجھے کرکٹ سے والہانہ لگاؤ تھا۔ میں شروع شروع میں اتنا اچھا کھلاڑی نہیں تھا لیکن میرے بھائی رمضان‘ اکرم‘ اشرف اور ارشد اپنے وقت کے اچھے کھلاڑی تھے جبکہ میرے والد تو کرکٹ کے چمپئن تھے۔واں رادھا رام کیبن کے قریب ایک کھلا سا میدان تھا جہاں چند لڑکے مل کر کرکٹ کھیلا کرتے تھے ، والد صاحب بھی کیبن سے اتر کر ان میں شامل ہوجاتے وہ جس ٹیم کی طرف سے کھیلتے وہ ٹیم جیت جاتی ۔اس لئے سارے شہر کے لوگ انہیں استاد جی کے نام سے پکارتے تھے ۔
1972-73ء میں‘ میں اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ چکا تھا ۔ میں کرکٹ کے میدان میں اپنے جوہر دکھانے کے قابل بھی ہو چکا تھا۔ میں ریلوے کوارٹروں کی ’’ون مون ٹن سٹار‘‘ کرکٹ الیون کا اوپننگ بیٹسمین تھا ان دنوں اوپننگ کرنے والے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ کیونکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ مخالف ٹیم کے تیز باؤلروں کی تندی اور تیزی کو اوپننگ بیٹسمین ہی ختم کرتا ہے اور گیند کی چمک بھی وہی کم کرکے کھیلنے کے قابل بناتا ہے۔ تب جا کر پچھلے کھلاڑی سکور کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اگر اوپننگ بیٹسمین جلدی آؤٹ ہو جاتا تو اسے ٹیم کی بدقسمتی قرار دیا جاتا کیونکہ اس کے بعد آنے والے کھلاڑیوں پر اس کا دباؤبڑھ جاتا تھا اور ان کے آؤٹ ہونے کا خطرہ بھی مسلسل سر پر سوار رہتا۔ ہک اور کور میں شارٹ کھیلنا مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ کور کی شارٹ تو مشکل ہی لگتی لیکن باؤنسر کو چھاتی بچا کر ایسا مارتا کہ گیند باؤنڈری سے باہر جا گرتی۔ ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ گیند بلے پر لگنے کی بجائے میری چھاتی پر جا لگی اور میں کئی دنوں تک اس جگہ کو سہلاتا رہا بلکہ درد ختم کرنے والے تیل کی مالش کرتا رہا لیکن پھر بھی کرکٹ کا نشہ اترنے نہ پایا اور ہر صبح اور ہر شام کرکٹ کھیلتے ہی گزرتی۔
1975ء میں فورٹریس سٹیڈیم تقریباً ویران ہی تھا جہاں باآسانی کرکٹ کھیلی جا سکتی تھی۔ بستی سیدن شاہ‘ قربان لائن‘ ریلوے کوارٹروں‘ گنگا آئس فیکٹری اور شورہ کوٹھی کی تقریباً ایک ہی ٹیم ہوا کرتی تھی۔ ہر شام کو نیٹ لگتا اور نیٹ کا کپتان ایسے فرد کو بنایا جاتا جو شام کے وقت فارغ البال ہوتا۔ حکیم زادہ اکثر شام کو فارغ ہی ہوتا تھا اس لیے اکثر اسے ہی نیٹ کا کپتان بنا دیا جاتا۔ ابتداء میں چند کھلاڑی ہی میدان میں پہنچتے پھر جیسے جیسے کھلاڑی آتے جاتے کھیل کا مزا دوبالا ہونے لگتا۔ بیٹنگ کے حوالے سے میری فیورٹ باؤلنگ سپین ہی تھی جس کو میں آسانی سے کھیل لیتا تھا۔ جتنی بھی فاسٹ باؤلنگ کھیلی وہ بس اﷲ کے بھروسے پر ہی کھیلی۔ تیز گیند پر جب بلا لگتا تو گیند مزید تیز ہو کر باؤنڈری پار کر جاتی ورنہ پیڈ اور بیٹ جوڑ کر ہم وکٹوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے۔ ایمپائر اپنے ہی تھے، اس لیے ایل بی ڈبلیو کا بھی ڈر نہ تھا اور کوئی ایماندار شخص آؤٹ دے بھی دیتا تو پھر اُس نے گھر بھی تو جانا تھا‘ راستے میں ہی میں اسے پکڑ لیتا اور جب تک وہ اپنی حرکت پر معافی نہیں مانگتا اُسے نہ چھوڑتا۔ ایک مرتبہ جاوید ایمپائرنگ اور تنویر بیٹنگ کر رہا تھا۔ جاوید نے غصے میں آ کر تنویر کو وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ دے دیا حالانکہ وہ آؤٹ نہیں تھا۔ ایمپائر کی انگلی فضا میں بلند ہوتے ہی تنویر بلا لے کر ایمپائر کے پیچھے مارنے کے لیے بھاگا۔ جاوید آگے آگے بھاگ رہا تھا جبکہ تنویر اس کے پیچھے پیچھے پوری گراؤنڈ کا چکر لگا رہا تھا۔ اس وقت تک اسے نہیں چھوڑا جب تک اس نے اسے ناٹ آؤٹ قرار دے کر دوبارہ کھیلنے کا موقع نہیں دے دیا۔ میری شادی چونکہ بستی سیدن شاہ میں ہوئی تھی اس لیے بستی سیدن شاہ کے کھلاڑی میری خاصی عزت کرتے تھے بلکہ پریکٹس کے دوران بھی مجھے آؤٹ کرنے سے اجتناب ہی کرتے ۔ اگر آؤٹ ہو بھی جاتا تو درگزر کر جاتے اور میرے آؤٹ ہونے کا کسی کو علم بھی نہ ہونے دیتے۔ ان بامروت نوجوانوں میں بابر‘ حفیظ‘ عزیز‘ مظہر‘ تنویر شامل تھے۔
ایک مرتبہ والٹن ائیرپورٹ کے رن وے پر والٹن کرکٹ کلب سے میچ تھا۔ جب دونوں ٹیمیں گراؤنڈ میں پہنچیں تو وکٹ پر ٹاٹ بچھی ہوئی نظر آئی۔ میں نے اس سے پہلے ٹاٹ پر نہیں کھیلا تھا۔ اس لیے انجانا سا خوف محسوس ہو رہا تھا۔ پھر ساتھی کھلاڑی مجھے خوفزدہ کر رہے تھے کہ گیند یہاں پر خاصی اُچھل کر آتی ہے جس سے انسان کا منہ بھی محفوظ نہیں رہتا‘ اُچھلتی ہوئی گیند سے بچنے کے لیے نہ تو میرے پاس ہیلمٹ تھا اور نہ ہی کوئی اور حفاظتی ذریعہ۔ بڑا بھائی اکرم ہماری ٹیم کا کپتان تھا میں نے اس سے اوپننگ کرنے پر معذرت کر لی۔ بھائی ہونے کے ناطے اسے بھی میں عزیز تھا لیکن کوئی بھی کھلاڑی پہلے بیٹنگ کے لیے جانے کو تیار نہ تھا، ہر کسی کو جان عزیز تھی۔ آخرکار بھائی اکرم نے مجھے ہی مجبور کیا کہ میں ہی اوپننگ کروں بلکہ سامنا بھی میں نے ہی کرنا تھا۔ اﷲ کا نام لے کر آسمان کو دیکھتے ہوئے وکٹ پر پہنچ گیا۔ آسمان کو اس لیے دیکھا کہ سنا تھا کہ اﷲ آسمان پر ہی رہتا ہے چنانچہ اس کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے لیے ان دنوں پاکستانی ٹیم کا ہر کھلاڑی بیٹنگ کرنے سے پہلے آسمان کی طرف ضرور دیکھتا تھا۔ ایمپائر سے گاڈ لیا اور باؤلر کے گیند کا انتظار کرنے لگا۔ پہلا گیند میرے سر کی بلندی سے گزر گیا‘ میرے خدشات مزید بڑھ گئے۔ دوسرا گیند بھی خاصا اونچا رہا لیکن اس بات کا مجھے یہ فائدہ تھا کہ اس باؤلر کی سپیڈ کوئی خاص نہیں تھی جب تیسرا گیند بھی میری چھاتی کے برابر آیا تو میں نے چھاتی کو بچاتے ہوئے اس گیند کو ہٹ کر دیا اور پلک جھپکتے ہی گیند باؤنڈری کے پار جا گری۔ یہ میرا پہلا چوکا تھا اور ٹیم کا پہلا سکور بھی۔ باہر بیٹھے ہوئے ساتھیوں کی جانب سے زبردست داد اور تالیوں نے میرا حوصلہ بڑھا دیا اور میں حوصلہ مند ہو کر اگلی گیند کا انتظار کرنے لگا۔ اس مرتبہ باؤلر نے بال کو اُچھالنے کی کوشش نہیں کی۔ گیند بیٹ کے باہر والے کنارے سے لگ کر باؤنڈری کی طرف جانے لگی۔ کھلاڑی اس کے پیچھے بھاگے لیکن گیند گولی کی تیزی سے باؤنڈری لائن پا ر کر گئی۔ اٹیکنگ باؤلر کو ایک اوور میں دو چوکے لگ جانا مخالف ٹیم کے لیے بدشگونی سمجھا جاتا تھا۔ بہرکیف یہ میچ ہم باآسانی جیت گئے لیکن اس میں میری بیٹنگ کو بہت کمال حاصل رہا یہاں کی بیٹنگ نے میرے اعتماد کو اور بھی بڑھا دیا۔
ایک مرتبہ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کی گراؤنڈ میں میچ تھا۔ یہ گراؤنڈ سطح زمین سے خاصی گہری تھی ۔حسن اتفاق سے اس میچ میں سلام الدین فاسٹ باؤلر بھی شرکت کر رہا تھا جو اس وقت میرے ہی محلے مکہ کالونی کی گلی نمبر چودہ میں رہائش پذیر ہے‘ میں بھی اس ٹیم میں شامل تھا۔ سلام الدین بہت تیز گیند کرتا تھا اور گیند اونچائی پر بھی آتی تھی۔ جب میچ شروع ہوا تو مخالف ٹیم کا کھلاڑی اوپننگ کرنے کے لیے آیا۔ گیند تیزی سے اُچھلتا ہوا ۔اس کی ناک پر لگا تو ناک کا حلیہ خراب ہو گیا اور خون بہنے لگا۔ اسے گراؤنڈ سے اُٹھا کر لے جایا گیا گراؤنڈ میں خوف کا عنصر غالب ہو گیا اور مخالف ٹیم کے بیٹسمین اسلام الدین اور دوسرے فاسٹ باؤلر احمد علی کا سامنا کرتے ہوئے گھبرانے لگے اور یہی وجہ تھی کہ وہ زیادہ سکور نہ کر سکے۔ اس میچ میں میں نے ایک بار پھر دھواں دار بیٹنگ کی اور پانچ چوکوں کی مدد سے 25سکور بنائے۔ ہماری ٹیم میں محمد امین (مینا)‘ عبدالشکور (شوکا)‘ پرویز (بستی سیدن شاہ)‘ جاوید (بستی سیدن شاہ)‘ ندیم(واپڈا)‘ ارشد (بستی سیدن شاہ) بھی ہوا کرتے تھے جبکہ میں خود بھی ہر میچ میں دو تین اوور کر لیتا‘ دو تین اووروں میں یا تو وکٹ مل جاتی یا چوکے پڑ جاتے۔ منیر‘ اختر‘ زبیر عرفان کسی حد تک اچھے بیٹسمینوں میں شمار ہوتے تھے۔ حکیم زادہ اور محمد زبیر( جس کے والد قربان لائن کے لائن افسر تھے) سپین باؤلر تھے۔
کئی میچوں کے دوران جب با ت ہمارے بس سے باہر نکل جاتی تو ہم اپنے والد صاحب کو بلا لاتے جو اس عمر میں بھی ہم سے اچھی کرکٹ کھیلتے تھے۔ ریلوے کا ملازم اصغر بھی کبھی کبھار ہماری جانب سے کھیلتا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب ہم شیر پاؤ پل کے قریب کھلی جگہ پر کرکٹ کھیلنے لگے جہاں کلری زمین کی وجہ سے مٹی بہت اڑتی‘ شیر پاؤ پل ابھی بنا نہیں تھا اور ٹریفک کا تمام تر انحصار ریلوے پھاٹک پر ہی تھا۔
قربان لائن کے چند لڑکے بھی ہماری جانب سے کھیلتے تھے جن میں حیدری‘ اعجاز‘ شکور‘ شریف‘ مصباح اختر اور شورہ کوٹھی کے احمد علی بھی شامل تھے۔ گنگا آئس فیکٹری میں خان صاحب برف والے مشہور تھے وہ بھی میدان کرکٹ میں ہمارا ہی ساتھ دیتے۔
7مئی 1979ء کو جب میں پی آئی ڈی بی میں ملازم ہوا تو وہاں مجھ سے پہلے کرکٹ ٹیم موجود تھی اور کرکٹ ٹیم کے کپتان غلام کبیر یا مجال تھے جبکہ جی ایم فنانس جاوید ظفر بھی کرکٹ ٹیم میں موجود تھے۔ سید نصرت اﷲ شاہ صاحب جو ڈپٹی جنرل مینجر ایڈمنسٹریشن تھے وہ بھی بطور لیگ سپنر ٹیم میں شامل تھے۔ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ٹیم کو خاصا بجٹ ملتا تھا جس میں سے ہمیں ٹریک سوٹ اور جوگر وغیرہ بھی لے کر دیئے جاتے۔ کرکٹ میں دلچسپی کی وجہ سے مجھے غلام کبریا نے اپنا نائب یعنی وائس کپتان مقرر کر دیا اور دفتر میں جتنے بھی لڑکے کرکٹ میں دلچسپی رکھتے تھے میں انہیں لے کر باغ جناح چلا جاتا اور وہاں گھنٹہ بھر پریکٹس کرتا۔ ان دنوں پی آئی ڈی بی کا آفس کا ٹائم صبح نو بجے سے چار بجے تک ہوا کرتا تھا اور 1بجے سے 2بجے تک کھانے کی چھٹی ہوتی تھی‘ کھانا ہم دفتری اوقات میں ہی کھا لیتے ۔ لیکن چھٹی کے ایک گھنٹے میں ڈرائیور‘ چپڑاسیوں اور کلرکوں کو لے کر میں انہیں کرکٹ سیکھانے چلا جاتا۔ رفتہ رفتہ پی آئی ڈی بی کے ایگزیکٹو کرکٹ کھیلنے سے انکار کرتے گئے چنانچہ جب کرکٹ میچ کھیلا جاتا تو اس میں ‘ میں غلام کبر مجال یا ایک آدھ اور دفتر کا ملازم شامل ہوتا اور باقی تمام کھلاڑی باہر سے لئے جاتے۔ جب غلام کبیر ملازمت چھوڑ کر چلے گئے تو کرکٹ ٹیم کی قیادت کی ذمہ داری بھی مجھ پر آن پڑی۔ کرکٹ کے معاملے میں میں ہی سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ جاوید ظفر کے جانے کے بعد آفتاب احمد خاں بطور جنرل مینجر فنانس آ گئے وہ بھی کرکٹ میں دلچسپی رکھتے تھے اور کبھی کبھی ہمارے میچوں میں حصہ لیتے۔
1984ء میں جب پی آئی ڈی بی میں آڈٹ سیل قائم ہوا تو آڈٹ سیل میں دوسرے لوگوں کے علاوہ آصف حسین بخاری اور محمد باقر بھی تشریف لے آئے جو مجھ سے زیادہ اچھے کھلاڑی تھے۔ میں نے کرکٹ ٹیم کی قیادت باقر صاحب کو سونپ دی لیکن وہ زیادہ عرصہ کپتانی نہ کر سکے اور کپتانی کا بوجھ ایک بار پھر میرے ہی کندھوں پر آن پڑا۔۔ باقر صاحب کا انتہائی گہرا دوست احسان جو ان کے بھائی کے کلینک میں بطور ڈسپنسر کام کرتا تھا وہ بھی کرکٹ کا اچھا کھلاڑی تھا اور اس حوالے سے محبوب میموریل کرکٹ کلب کے نام سے گرین ٹاؤن میں ان کی اپنی اچھی خاصی ٹیم تھی جو باقاعدگی سے پریکٹس بھی کرتی اور باقاعدہ میچ بھی کھیلتی تھی۔ اس نے ہمارے ساتھ میچ رکھ لیا۔ باقر صاحب اس میچ کے بارے میں کافی محتاط تھے اور انہوں نے چن چن کر اچھے کھلاڑی اس میچ میں کھلائے جبکہ پی آئی ڈی بی کی جانب سے صرف میں اور باقر صاحب ہی ٹیم میں شامل تھے۔ میچ کا آغاز ہو چکا تھا۔ پہلے محبوب میموریل کرکٹ ٹیم بیٹنگ کر رہی تھی اور باؤلنگ کی ذمہ داری ہماری ٹیم پر تھی۔ دس بارہ اووروں میں 80سکور پر صرف 2کھلاڑی آؤٹ تھے۔ اگر اسی طرح سکور بڑھتا رہا تو چالیس اووروں کے میچ میں تین سو سکور تو یقینی تھے۔ باقر صاحب نے مجھے باؤلنگ پر بلا لیا۔ میرا بڑا بھائی اکرم فرسٹ سلپ پر موجود تھا۔ میں نے پہلی گیند کروائی تو وہ بیٹسمین کے پیڈوں پر لگی جب دوسری گیند کروائی تو بیٹسمین سے بچتی ہوئی گیند وکٹوں میں جا گھسی اور وہ کھلاڑی آؤٹ ہو گیا۔ اس کے بعد ٹیم کے نامور کھلاڑی احسان جس نے نیکر پہن رکھی تھی، فخریہ انداز میں بیٹنگ کے لیے آیا۔ باقر صاحب کی زبان سے احسان کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا کہ وہ بہت اچھا کھلاڑی ہے اور بالخصوص بیٹنگ بہت دھوئیں دار کرتا ہے۔ ڈرتے ڈرتے جب میں نے گیند پھینکی تو اس نے شارٹ ماری۔ گیند بلے کے باہر کے کنارے پر لگ کر فرسٹ سلپ میں کھڑے ہوئے بھائی اکرم کے ہاتھ میں جا پہنچیاور احسان پہلی ہی گیند پر مجھ سے آؤٹ ہو گیا۔ احسان کے آؤٹ ہونے پر ہماری ٹیم بہت خوش اور پر جوش تھی بلکہ باقر صاحب بار بار مجھے مبارکیں دے رہے تھے جبکہ فرسٹ سلپ پر کھڑا بھائی اکرم میرا حوصلہ بڑھا رہا تھا۔ احسان بڑبڑاتا ہوا بیٹ زمین پر مارتا ہو واپس چلا گیا کیونکہ مجھ جیسے معمولی سے باؤلر کے ہاتھوں اس طرح آؤٹ ہونا اس کی توہین تھی۔ کبھی وہ اپنے آپ کو کوستا اور کبھی وہ مجھے گھور کر دیکھتا۔ اس کے بعد جب دوسرا بیٹسمین کریز پر آ گیا تو میں چوتھا گیند پھینکنے کے لیے تیار ہوا تو سامنے کھڑا ہوا کھلاڑی خاصا گھبرایا ہوا تھاؒ۔ دوسری جانب میں اس سے خوفزدہ تھا کہ وہ کہیں چوکا مار کر مجھ سے پہلے دو کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کا بدلہ نہ لے لے۔ بہرکیف جب میں نے گیند پھینکی تو وہ مڈل سٹمپ پر گری۔ بیٹسمین نے اس گیند پر باؤلر بیک ڈرائیو کھیلی اور گیند تیزی سے میری ہی جانب آنے لگی۔ میں نے ان دیکھے اپنے پاؤں بچانے کے لیے ہاتھ سامنے کر لیے تو دوسرے ہی لمحے مجھے احساس ہوا کہ گیند میں نے کیچ کر لی ہے اور تیسرا کھلاڑی بھی آؤٹ ہو کر پویلین میں جا پہنچا۔ سارے کھلاڑیوں نے مجھے اٹھا لیا اور اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ میرے لیے بھی یہ کم خوشی کا موقع نہیں تھا اور جتنا زبردست کیچ مجھ سے پکڑ ا گیا تھا اس پر میں خود بھی حیران کن تھا۔ اب مخالف ٹیم پر میری سیدھی سادھی باؤلنگ کی دھاک بیٹھ چکی تھی اور بیٹنگ کے لیے آنے والا ہر کھلاڑی میرا سامنا کرتے ہوئے گھبرا رہا تھا۔ ابھی تو میرا پہلا ہی اوور چل رہا تھا۔ چار گیندوں پر تین کھلاڑی آؤٹ ہو کر پویلین جا چکے تھے۔
پانچواں گیند پھینکی تو اس کھلاڑی نے دونوں ٹانگوں کو اکٹھا کر کے گیند کو روک لیا اور وہ گیند کے رک جانے پر ہی بہت خوش تھا‘ چھٹی گیند بھی روک لی اس طرح میرا پہلا اوور ختم ہو گیا۔ سکور میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکا تھا جبکہ مخالف ٹیم کی تین وکٹیں گر چکی تھیں اور مخالف ٹیم کے اچھے کھلاڑی آؤٹ ہو کر میدان سے باہرجا چکے تھے۔ دوسری جانب سے باقر صاحب خود باؤلنگ کر ارہے تھے ان کے اوور میں کوئی کھلاڑی آؤٹ نہیں ہوا البتہ چار سکور ضرور بن گئے۔
ان کے بعد ایک بار پھر میرا اوور شروع ہوا تو تمام کھلاڑی میری باؤلنگ کے جوہر دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ پہلے دو گیند تو باآسانی روک لیے گئے لیکن تیسرے گیند پر ایک اور کھلاڑی ہٹ لگانے کے شوق میں فیلڈر کے ہاتھوں کیچ ہو گیا۔ اب مخالف ٹیم یہ سمجھ بیٹھی کہ اس باؤلر کو کھیلنا ان کے بس کی بات نہیں۔ اگلی گیند پر کھلاڑی مجھے سلپ میں چوکا مارنے میں کامیاب ہو گیا اور اپنی اس شارٹ پر بہت خوش تھا لیکن اس سے اگلی گیند پر اپنی وکٹ اکھاڑ بیٹھا اور باہر جا کر اپنے کھلاڑیوں کو یہ تاثر دے رہا تھا کہ پتہ نہیں کہ وہ باؤلر کس طرح گیند پھینکتا ہے ٹھپہ لگنے کے بعد گیند ایسے گھومتی ہے کہ اسے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسرے اوور کی آخری گیند پر بھی ایک اور کھلاڑی آؤٹ ہو گیا۔ یوں دو اووروں میں چار سکور دے کر میں نے مخالف ٹیم کے چھ مایہ ناز کھلاڑی آؤٹ کر دیئے۔ اس طرح تمام ٹیم 99سکور پر آؤٹ ہو گئی جبکہ ہمارے بیٹسمینوں نے یہ سکور دو کھلاڑیوں کے نقصان پر پورا کر لیا۔ میچ تو ختم ہو گیا لیکن اس میں میری باؤلنگ ایک یادگار حیثیت اختیار کر گئی۔ کچھ دنوں جب احسان ہمارے دفتر آیا تو خصوصاً مجھے بلا کر کہنے لگا کہ جناب آپ کون سی سپن کرواتے ہیں‘ گیند آپ کے ہاتھ سے چھوٹتے ہی بیٹسمین کی آنکھوں سے اوجھل ہو کر وکٹوں میں جا گھستی ہے یا کیچ نکل جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ میری باؤلنگ سیدھی سادی ہے اس میں کسی قسم کی کوئی ورائٹی نہیں ہے۔اس نے میری بات کو مذاق سمجھا اورمجھے اپنی ٹیم کی جانب سے کھیلنے کی دعوت بھی دے دی جسے میں نے قبول نہیں کیا کیونکہ میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ گرین ٹاؤن جا کر ان کی طرف سے کرکٹ کھیلوں۔ دراصل میری باؤلنگ میں کوئی خاص ٹرن موجود نہیں تھا بلکہ گرین ٹاؤن وکٹ میرے لیے کافی موافق ثابت ہو رہی تھی اور خودبخود ٹرن لیتی تھی۔
.................
پی آئی ڈی بی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے میں نے گھی کارپوریشن آف پاکستان‘ این ڈی ایف سی‘ ڈیوٹی فری شاپس‘ فیوجی کلر لیبارٹریز‘ نیشنل فرٹلائزر‘ پاکستان منٹ‘ گلبرگ جم خانہ‘ والٹن کرکٹ کلب‘ راوی ریحان وغیرہ وغیرہ سے میچ کھیلے اور تھوڑے ہارے زیادہ جیتے۔این ڈی ایف سی کے ساتھ ہمارے میچ بہت دلچسپ ہوتے تھے کیونکہ اس میں نیر لودھی‘ اصغر اور دیگر کھلاڑی مجھے ذاتی طور پر جانتے تھے جن کے ساتھ خوب گپ شپ رہتی اسی طرح جی سی پی کے ساتھ کرسن گراؤنڈ میں ایک میچ کھیلا جا رہا تھا جس میں میرا چھوٹا بھائی اشرف بھی کھیل رہا تھا۔ میں نے اسے اوپننگ پر بھیج دیا میرے اس فیصلے پر سب حیران تھے کہ یہ کمسن لڑکا کیسے تیز باؤلروں کا سامنا کر سکے گا لیکن اشرف نے پہلے ہی اوور میں دو زبردست چوکے لگا کر سب کو حیران کر دیا اور مخالف باؤلر بھی اس بدتمیزی پر پریشان ہو گئے کیونکہ وہ جس کھلاڑی کو سامنے دیکھ رہے تھے اس سے وہ اس جارحانہ سلوک کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ جی سی پی کے کپتان ناصر نے بذات خود اشرف کی بیٹنگ پر تالیاں بجائیں۔ دو تین اوور کھیل کر اشرف 25سکور سے زیادہ سکور کر کے ہک شارٹ کھیلتا ہوا باؤنڈری پر کیچ ہو گیا۔ مجھے مخالف ٹیم کے کپتان نے بھی پوچھا کہ یہ لڑکا کون تھا؟ میں نے کہا میرا بھائی تو انہوں نے جی سی پی کی طرف سے کھیلنے کی دعوت دی۔ کیونکہ جتنی بھی ڈیپارٹمنٹل ٹیمیں کرکٹ کھیلتی تھیں ان میں چند محکمے کے کھلاڑی اور باقی پروفیشنل کھلاڑی شامل ہوتے تھے اس لیے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مجھے بھی باہر سے کھلاڑی حاصل کرنے پڑتے تھے۔ پہلے پہل تو طاہر مقصود بٹ کے حوالے سے ایوب بٹ اور دیگر کھلاڑی PIDBکی جانب سے کھیلتے رہے۔ پھر صابر‘ عمران اور ان کے ساتھی بھی ہمارے ساتھ آ ملے۔ پھر ان کی جگہ نثار بٹ کے ملنے والے بھولا جی نے کرکٹ کھیلنے کے لیے بہترین لڑکے فراہم کر دیئے جن میں حافظ آصف‘ حمید بٹ اور دیگر ساتھی ٹیم میں ہی شامل تھے جبکہ بستی سیدن شاہ سے ارشد‘ بابر اور ندیم ارشد ہماری ٹیم کی جانب سے کھیلتے رہے۔ قربان لائن سے سعدی‘ اکرم‘ اشرف اور چاند ‘ صدر سے اقبال‘ منصور ٹھاکر‘ بابر ٹیم میں شامل رہے۔
خدا کے فضل و کرم سے میں عرصہ دس سال تک پی آئی ڈی بی کرکٹ ٹیم کا کپتان رہا اور اس دوران بہت سے میچ جیتے اور کئی ہارے بھی لیکن جس بات کا میں سب سے زیادہ خیال رکھتا تھا وہ ڈسپلن اور اخلاق تھا۔ میں ہمیشہ اپنے کھلاڑیوں کو کہتا کہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے لیکن اگر کسی ٹیم سے جھگڑا ہو جائے یا بدتمیزی کر دی جائے تو ٹیم سمیت ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہمارا مقصد پی آئی ڈی بی کو کرکٹ کی دنیا میں ایک اچھے ادارے کی حیثیت سے متعارف کروانا ہے اس کی بدنامی کا باعث نہیں بننا۔
گلبرگ جم خانہ کے ساتھ بھی پی آئی ڈی بی کرکٹ ٹیم کی طرف سے تین چار میچ کھیلے گئے جن میں ایک ہارا اور باقی ہم نے جیتے۔ یہاں بھی خدا کے فضل سے میری باؤلنگ اچھی خاصی چل ہی جاتی تھی حالانکہ وکٹ سیمنٹ کی تھی لیکن جب اﷲ عزت دے تو اسے کون روک سکتا ہے۔ گلبرگ جم خانہ والوں نے مجھے کئی بار اپنی ٹیم کا مینجر بننے کی آفر کی لیکن ہر بار میں اپنی مصروفیت کے باعث معذرت کر لیتا۔ پھر وہ مجھے اپنے ساتھ پریکٹس کرنے کے لیے بھی کہتے رہے لیکن ہر صبح چونکہ مجھے اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا محمد عنایت احمد صاحب کے پاس جانا ہوتا اور وہاں جا کر درود سلام پڑھنے کے علاوہ میں قرآن پاک بھی پڑھتا تھا۔ اس لیے صبح کسی بھی حالت میں کرکٹ نہیں کھیل سکتا تھا جبکہ شام کو جزوقتی کام کی وجہ سے مصروفیت رہتی۔ پھر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دوڑنے بھاگنے کی ہمت بھی کم ہوتی گئی۔ اب کرکٹ دیکھنے تک تو ٹھیک ہے لیکن کھیلی نہیں جاتی۔ اچھا کھیلتا ہوا بیٹسمین اور وکٹیں لیتا ہوا باؤلر مجھے اب بھی اچھا لگتا ہے لیکن ٹی وی کے سامنے زیادہ بیٹھنے سے اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہوں۔ پاکستانی ٹیم میں میرا فیورٹ کھلاڑی سعید انور ہے جبکہ میرے بیٹے کو شاہد آفریدی زیادہ اچھا لگتا ہے۔ سعید انور کے بغیر میچ میں میری دلچسپی ختم ہو جاتی جبکہ شاہد آفریدی کے بغیر شاہد کا مزا کرکرا ہو جاتا مزے کی بات یہ ہے کہ میرے فیورٹ کھلاڑی سعید انور نے ازخود ریٹائرمنٹ لے لی ہے‘ جبکہ شاہد آفریدی اپنی خراب کارکردگی کی بنا پران دنوں ٹیم سے باہر ہے۔ میری بیٹی تسلیم بھی کرکٹ دیکھنے کی بے حد شیدائی ہے۔ سارے میچ کے دوران اس کی جانب سے دعاؤں کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ پاکستانی ٹیم کے حق میں وہ اس قدر عاجزی اور انکساری سے دعا مانگتی ہے جیسے یہ زندگی کا آخری میچ ہو۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ کھلاڑیوں سے زیادہ عوام پاکستان کی عزت و وقار کی سربلندی کے لیے سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ اب بے شک میں اپنی جسمانی کمزوری کی وجہ سے کھیل نہیں سکتا لیکن یہ اطمینان ضرور ہے کہ جی بھر کے کرکٹ کھیلی اور جب تک جی چاہا انجوائے کیا۔ باؤلنگ میں مجھے کبھی عمران خان کا سٹائل پسند ہوتا تو کبھی باب ولز کارن اپ دل کو بھاتا۔ یہ دونوں ہی باؤلر میری باؤلنگ سٹائل پر حاوی رہے۔ انڈیا کے چندر شیکھر‘ آسٹریلیا کے ڈینس للی‘ ویسٹ انڈیز کے مائیکل ہولڈنگ‘ نیوزی لینڈ کے رچرڈ ہیڈلی‘ پاکستان کے طاہر نقاش‘ وقار یونس‘ وسیم اکرم‘ ثقلین مشتاق‘ محمد سمیع اور عبدالرزاق مجھے پسند ہیں۔
اب جبکہ میں 68سال کا ہو چکا ہوں‘ یہ احساس شدت سے مجھے مضطرب کرتا ہے کہ میں اپنی زندگی کے بیس پچیس سال ایک فضول اور غیر فائدہ مند کھیل کی نذر کر دیئے‘ حالانکہ یہی سال میں تحقیقی و تحریر کی نذر کرتا تو آج میرا نام پاکستان کے بڑے لکھنے والوں میں ہوتا۔ یہ نصیحت میں ان نوجوانوں کو بطور خاص کر رہا ہوں‘ جو اپنی زندگی کا بیشتر وقت کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے میں گزار رہے ہیں۔ وقت نہایت قیمتی دولت ہے‘ اسے کسی ایسی جگہ صرف کرنا چاہیے‘ جہاں سے انسان کو علم اور ہنر حاصل ہو اور کھیل کو صرف کھیل کی حد تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ دماغ پر سوار نہیں کر لینا چاہیے۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 663914 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.