قومی سلامتی کے لئے اقتصادی استحکام ناگزیر

پاکستان کو بنیاد ی دیرینہ چیلنجوں کا سامنا ہے، جس میں شدت پسندی، انتہا پسندی کا رجحان، معیشت اور توانائی کا بحران، صحت عامہ اور بنیادی اور اعلیٰ تعلیم کی فراہمی اور نوجوان نسل کو ٹیکنیکل مہارت سے آراستہ کرکے ہنر مند پاکستان بنانے کے علاوہ آبادی پر بڑھتے دباؤ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منڈلاتے خطرات شامل ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت و محل و قوع کی وجہ سے داخلی اور بیرونی چیلنجز ہمیشہ قومی ایجنڈے میں دفاعی سلامتی کے طور پر سرفہرست رہا ہے۔ ریاست درپیش چیلنجز کو رسمی، روایتی،غیر روایتی، سخت اور نرم خطرات کو نمٹنے کے لئے مسلسل سرگرم عمل ہے۔ دفاعی بنیادوں پر مملکت کو دو بڑے محاذ پر مکمل توجہ مرکوز رکھنا پڑتی ہے جس میں بھارت کے بعد افغانستان کا محاذ بھی شامل ہے۔ خطے سے عالمی طاقت کی منتقلی اور پراکسیز کی وجہ سے بڑے عالمی اسٹریجک معاملات پاکستان کی سلامتی کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا حل نہ ہونے والا بحران ہو یا چین کا اقتصادی عالمی قوت کے طور پر ابھر کر آنا، اس کے علاوہ روس اور یورپ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کی سرد جنگ کے بعد یوکرائن کی شکل میں تصادم کے خطرات کے اثرات سے پاکستان کے براہ راست متاثر ہونے کے خدشات کو دفاعی سلامتی کے منصوبہ سازوں نے سنجیدگی سے لیا ہے۔

دفاعی سلامتی کا دار و مدار مضبوط معیشت سے بھی جڑا ہوا ہے اور مضبوط معاشی پالیسی کو برقرار رکھنے کے لئے آبادی میں توازن کا ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اسباب ذرائع میں تناسب کا ہونا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان اس وقت معاشی دشواریوں کا سامنا کررہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کے مقروض در مقروض ہوتا جارہا ہے جس سے براہ راست قومی سلامتی کی پالیسیوں پر بیرونی مداخلت کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں دیگر چیلنجوں کے علاوہ سب سے بڑا اہم مسئلہ آبادی کا بڑھتا دباؤ بھی سمجھا جاتا ہے۔ بڑھتی آبادی کے لئے تعلیم، صحت، ہاؤسنگ، پولیس اور دیگر انفرا اسٹرکچر کا مہیا کرنا ضروری ہے۔ بڑھتی آبادی کے قریباََ60فیصد حصے کو مناسب خوراک نہ ملنے کا سامنا ہے۔ عدم تحفظ اور قریباََ50 فیصد خواتین غذائی قلت کا شکار ہے۔ نسلی بنیادوں پر عدم مساوات، کم ذرائع آمدنی اور بے روزگاری کے خاتمے کے لئے قومی سلامتی میں ملکی ترقی، سماجی اور سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔

آئی ایس پی آر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے پیغام میں کہا کہ”پاک فوج امن کے لیے خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے، ہمارے جوانوں نے ہر آزمائش کی گھڑی میں قربانیاں دی ہیں۔جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ عالمی امن کے فروغ کے لیے ہماری قربانیاں دنیا کے سامنے ہیں۔ ہماری قربانیاں بابائے قوم کے وژن کے مطابق ہیں، ہماری قربانیاں عالمی امن کے ہمارے غیر متزلزل عزم کی عکاس ہیں“۔ دفاعی سلامتی کا اہم جز و امن کا مستحکم ہونا ہے، کسی بھی ہدف کو پانے کے لئے امن پالیسوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان جغرافیائی طور پر ایک ایسے اسٹریجک مقام پر ہے، جہاں امن و امان کو پائدار بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مستحکم ہونا اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اس کے لئے اقتصادی طور مضبوط ہونا ضروری ہے، کیونکہ اقتصادی استحکام نہ ہونے سیفاعی سلامتی کو لاحق خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان پڑوسی ممالک سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ ’وقار کے ساتھ امن‘کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور بارہا اس عزم کا اظہار کرچکا کہ پاکستان کی سیکورٹی پالیسیوں کا تعلق صرف ملک کے دفاع سے مربوط ہیں۔ خطے میں مقبوضہ کشمیر، سمیت تمام تنازعات کا حل پر امن طریقے سے کرنا، دفاعی سلامتی کا پلان، قومی سلامتی کا اہم حصہ ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان جس طرح عالمی قوتوں کی پراکسی وار کا نشانہ بنااور دہشت گردی کی آگ سے وطن عزیز کا ہر حصہ بُری طرح متاثر ہونے لگا، اس سے سیکورٹی چیلنجز بڑھتے چلے گئے۔ ریاست کے لئے جہاں بیرونی خطرات ایک بڑا چیلنج رکھتے ہیں تو عام شہری کے جان و مال کے تحفظ، سماجی اور اقتصادی ماحول کی آبیاری کے لئے مربوط حکمت عملی کو اپنانا ملکی سلامتی کے عظیم مفاد کے لئے ناگزیر بن جاتا ہے۔

قانون کی حکمرانی ہی پائدار ترقی اور امن کو فروغ دیتی ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں لاقانونیت اور عدم تحفظ ہو، حکمرانی کی بالادستی کا قیام دشوار ہوجاتا ہے۔ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ریاستی رٹ جس طرح ضروری ہے اسی طرح شہری حقوق کا تحفظ بھی ریاست کے فرائض کے اہم زمرے میں آتا ہے۔ حقوق اور فرائض کی ادائیگی سماجی انصاف کے لئے بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب کئے جانا ہی ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ عدم مساوات، استحصال اور تنازعات کا بڑھنا دفاعی سلامتی کے تقاضوں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ دفاعی سلامتی کے ضمن میں سیکورٹی اداروں کو دو محاذوں پر کام کرنا پڑرہاہے، تاہم شدت پسندی اور پر تشدد انتہا پسندی کے خلاف سیکورٹی اداروں کے اولین ہدف ہی اصل چیلنج کا درجہ رکھتے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے 2021 کے دوران مسلح افواج کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اسے شاندار قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ 2021 میں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے 890 تھریٹ الرٹ جاری کیے، جن کی بنیاد پر 70 فیصد واقعات کو روکا گیا اور دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ اور ان کے سہولت کار بے نقاب ہوئے، قبائلی علاقوں میں 70 ہزار سے زائد بارودی سرنگیں ناکارہ بنائی گئیں اور جانیں بچائی گئیں، اس تمام عمل کے دوران کئی اہلکار شہید اور زخمی بھی ہوئے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ 2021 میں 248 فوجی شہید ہوئے۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (CRSS) کی جنوری 2022 میں جاری رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں سیکورٹی فورسز نے 146آپریشنز کئے گئے، سال 2021 میں 260 حملوں کے مقابلے میں 403 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔ سیکیورٹی حکام نے سال2021 کے دوران بڑی تعداد میں دہشت گرد اور شدت پسندوں کو گرفتار کیا اور ان میں سب سے زیادہ تعداد کالعدم ٹی ٹی پی کے 44دہشت گرد، داعش کے 30 القاعدہ کے 7، القاعدہ (برصغیر) کا ایک، حزب التحریر، کالعدم سپاہ محمد، کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم لشکر طیبہ،سے تعلقرکھنے والے ایک ایک اورکالعدم زنبیون بریگیڈ کے پانچ اوردیگر عسکریت پسندگروپوں سے 77 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ سیکورٹی فورسز نے نام نہاد قوم پرست علیحدگی پسندکالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کے 7، کالعدم جئے سندھ متحدہ محاذ کا ایک، کالعدم سندھو دیش ریولوشنری کے 17اور کالعدم یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے دو دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جرائم پیشہ افراد میں کچے علاقے کے ڈاکوؤں کے چار، لیای گینگ وار کے 5 شیراز کامریڈ گینگ کا ایک اور زاہد لاڈلا گینگ کے 4ملزمان کو بھی گرفتار کیا۔ اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو)کے کمانڈوز نے سال2021 میں خطرناک مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مجموعی طور پر 65 چھاپے مارے گئے جس کے نتیجے میں 71 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔

دہشت گردی اور انتہا پسندی نے مملکت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اس کے مضر اثرات نے معیشت کو کمزور کرنے کے لئے اپنے شکنجے میں جکڑا۔ شدت پسندوں کے خلاف منظم آپریشنز نے امن و سلامتی کے قیام کے لئے کلیدی کردار ادا کیا، امن و سلامتی کے لئے حکومت نے مذاکرات کی راہ بھی اپنائی، سابق حکومتوں سے لے کر موجودہ ریاست تک، امن کو ایک اور موقع دینے کے اصولی موقف پر قائم بھی رہا گیا، لیکن من چاہے شرائط پر اجارہ داری کرنے خواہاں شدت پسند گروپوں کے مطالبات تسلیم کرنا ملکی سلامتی کے لئے مزید خطرناک ہوسکتا ہے۔ دفاعی پالیسی کے لئے مضبوط حکمت عملی وقت کی ضرورت رہی ہے۔ بالخصوص ایک ایسے ملک کے لئے جو چار دہائیوں سے پڑوسی ممالک میں انارکی و انتشار کی وجہ سے بری طرح متاثر رہا اور مزید ہورہا ہے۔ سیکورٹی بحران کو حل کرنے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ قلیل المدت پالیسیاں اختیار کی گئی، تاہم پالیسی ساز کامل آگاہ تھے کہ ملکی معیشت کسی براہ راست جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کسی عالمی قوت کے خلاف ان حالات میں کھڑے ہوجائیں کہ سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہو۔ ملک کو سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کے لئے پالیسی سازی اور منصوبہ بندی میں اصلاح کا عمل بھی جاری رہا اور بتدریج عالمی قوتوں کو باور کرانے میں کامیابی ملی کہ پاکستان کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے غیر متوازن اور جانب دارنہ رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ خطے میں امن اور ترقی کے پائدار قیام کے لئے عالمی قوتوں کو ’ڈومور‘ کی پالیسی کو ختم کرنے سے ہی،عالمی قوتوں کے فروعی مفادات کو بھی تحفظ مل سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا دفاعی سلامتی کے حوالے سے واضح موقف بھی آچکا کہ”ہمسائے میں جارحانہ اور خطرناک نظریئے کا پرچار پرتشدد تنازعہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے اور دشمن کی جانب سے کسی بھی وقت بطور پالیسی آپشن طاقت کے استعمال کے ممکنات موجود ہیں۔جنگ مسلط کی گئی تو مادر وطن کے دفاع کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کے ساتھ بھرپور جواب دیا جائے گا اور پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا ہر قیمت اور ہر صورت میں تحفظ کیا جائے گا۔ہر جارحیت کا جواب دینے کے لیے خود انحصاری پر مبنی جدید دفاعی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور مسلح افواج کو مزید مضبوط بنانے کے لیے روایتی استعداد کار کو تقویت دی جائے گی جبکہ دفاعی پیدوار، مواصلاتی نیٹ ورک کی مرکزیت، جنگی میدان کی آگہی اور الیکٹرانک وار فیئر صلاحیت کو بھی تقویت دیں گے“۔

دفاعی سلامتی کی واضح پالیسی کے تحت ملک کی سلامتی و بقا کے لئے سیکورٹی فورسز اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہیں اور کررہی ہیں۔ مستقبل میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سیکورٹی فورسز کو مضبوط کرنے کی مزید ضرورت ہے۔ عالمی قوتوں کی پالیسیاں ریاست سے ایسے مطالبات بھی کرتی چلی آرہی ہیں جس سے خارجہ پالیسی برا ہ راست متاثر ہوتی ہے۔ تاہم دفاعی اداروں اور حکومت کا مثبت بیانیہ ان توقعات کو فروغ دیتا ہے کہ جب تک پاکستان پر جنگ مسلط نہیں کی جاتی،ریاست پہل نہیں کرے گی، مملکت دفاع کے لئے ہر دم تیار رہے گی تاہم اقتصادی عدم استحکام سے اس وقت جن دشواریوں اور مشکلات کا سامناہے اس سے دفاعی ضروریات کو پورا کرنے میں دقت بھی ممکنات میں شامل ہوسکتی ہے۔ بھارت اپنی انتہا پسندی کے نظریہ کے تحت جنگی اور جارح پسند اقدامات رکھتا ہے۔ گو کہ افغانستان میں این ڈی ایس اور را کو شکست ہوچکی ہے لیکن اب بھی ان کے سہولت کار کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو تلاش کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے سیکورٹی اداروں کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ سیکورٹی اداروں کے افسران و اہلکاروں کو دہشت گردی کا سامنا ہے، اس کے سدباب کے لئے ملکی سرحدوں کے ساتھ نظریاتی حدود کا دفاع بھی سیکورٹی اداروں کے فرائض میں شامل ہے۔ کسی قسم کی انارکی یا انتشار، ریاست کے لئے پریشان کن امر اس صورت میں ہوتا ہے کہ ملک کی سرحدوں پر ایسے عناصر موجود ہوں جو کسی بھی کمزور لمحے کا فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے تو دوسری جانب سافٹ ٹارگٹ کو شدت پسندوں کی مذموم کاروائیوں سے روکنا بھی اہمیت رکھتا ہے۔

سیاسی عدم استحکام کسی بھی حکومت کی توجہ طویل المدت پالیسیوں اور سٹریجک پلان پر عمل درآمد کے لئے مشکل امر بن جاتا ہے۔ سیاسی فضا میں استحکام ہی اقتصادی ترقی کے لئے مضبوط درجہ رکھتاہے۔ پر تشدد واقعات اور شدت پسندی کے رجحانات سے سرمایہ کاری اور صنعتوں کو نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاسی استحکام اور اقتصادی مضبوطی ہی دفاعی سلامتی کو یقینی بنانے میں موثر ثابت ہوتی ہے۔ ریاست کو دفاعی ضروریات پورا کرنے کے لئے جہاں محدود وسائل استعمال کرنا اہم ضرورت بن جاتے ہیں تو دوسری جانب ان کا انحصار ایسے ممالک پر بڑھ جاتا ہے جن سے سفارتی تعلقات مدوجزر کا شکار رہے۔ امریکی ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی میں الینوائے کے ڈیموکریٹ نمائندے راجہ کرشنمورتی کا کہنا تھا، ''پچھلے بیس برسوں میں پاکستان امریکی فوج کی رسد جیسے کئی مختلف مقاصد کے لیے اہم رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پریشان کن بات یہ ہے کہ اس دوران اعتماد کی کمی ہوئی ہے۔“ تاہم ان کا مزید کہنا تھا، ''میرے خیال میں سوال یہ ہے کہ کیا ہم تعلقات کی ایک نئی تفہیم پر پہنچنے کے لیے ماضی کو بھلا سکتے ہیں؟ ''دا ریکروٹر“ کے مصنف ڈگلس لندن کہتے ہیں کہ امریکا اور پاکستان کے مابین تعاون کے اب محدود شعبے ہی باقی بچے ہیں۔ ان کے مطابق یہ دونوں ملک القاعدہ یا پھر ''اسلامک اسٹیٹ خراسان“ کے خلاف پارٹنرشپ کر سکتے ہیں کیوں کہ اسے یہ دونوں ہی ایک مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں۔ امریکہ ساتھ مفاداتی تعلقات کے مقابل چین کے ساتھ پاکستان کے ساتھ کئی شعبوں، بالخصوص دفاعی ساز و سامان کے حصوؒ ل میں اضافہ ہوچکا ہے۔ 2019 میں پاکستان نے بھارت کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جارحانہ اقدام کو روکنے کیلئے فضائی اور زمینی حدود کی حفاظت کیلئیایل وائے 80' میزائل ڈیفنس سسٹم 'حاصل کرچکا جب کہ چین نے پاکستان کی سمندری حدود کو مزید مضبوط اور محفوظ بنانے کے لئے بحری جہازوں کے علاوہ آٹھ آبدوزیں دینے کا بھی اعلان کیا جس میں چار آبدوزوں پر چین میں اور ایک پاکستان میں تیار ہورہی ہیں اور2024 تک ممکنہ طور پر بحری بیڑے میں شامل ہوجائیں گے، جب کہ پی این ایس طغرل بحری جہاز شامل ہوچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانے کیلئے آئندہ سال چین کا جدید سنگل انجن، ڈیلٹا ونگز کا حامل جنگی طیارہ ''جے 10 سی'' بھی پاک فضائیہ کے بیڑے میں شاملکیا جائے گا۔ یہ جدید لڑاکا طیارہ جو بیک وقت کئی اہداف کی نشاندہی کرنے والی ٹیکنالوجی اور 200 کلومیٹر تک اہداف کو نشانہ بنانے والے میزائلوں سے لیس ہے۔ 23مارچ کو پاکستان پریڈ میں پاکستانی پائلٹ 'جے 10 سی'' اڑانے کا مظاہرہ بھی کریں گے۔ ریاست ملک و قوم کی حفاظت کے لئے اپنے دفاع سے غافل نہیں بلکہ اقتصادی بحران کے باوجود ہر چیلنج سے نمٹنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 660536 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.