"عمر اکمل"بہترین بلے باز سے بیڈ بوائے تک کا سفر

ایک زمانہ تھا کہ جب عمر اکمل اسکواڈ میں مڈل آرڈر کی جان ہوتے تھے اور اب زمانہ یہ ہے کہ اسکواڈ میں جگہ بنانا نہ صرف مشکل ہے بلکہ وہ مستقبل کے کسی بھی پلان کا حصہ نہیں ہیں۔
اس سے سیکھ یہ ملتی ہے کہ انسان کو قسمت جب موقع دے تو وہ رب العالمین کا شکر ادا کرتے ہوئے بھرپور محنت کرے اور اس موقع سے انصاف کرتے ہوئے اس کا پورا حق ادا کرے۔

قارئین ! ممالک اپنے کھلاڑیوں،فنکاروں کے باعث دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ مثلا شاہد آفریدی اور معین اختر کی وجہ شہرت انکی بالترتیب کرکٹ اور اینٹرٹینمینٹ انڈسٹری سے وابستگی ہونے کے باعث ہے۔ ان شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے دنیا میں ملک کے تاثر کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔امن کے داعی کی حیثیت سے دنیا میں اپنے ملک کی جانب سے امن کا پیغام دنیا میں دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ جیسے ان کے اچھےکارنامے ملک کی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں ویسے ہی انکے برے کارنامے بھی ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔

جب سے ہوش سنبھالا "کرکٹ" کو ملک میں ایک جنون کی طرح پایا ہے۔ 2007 کے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈکپ کے فائنل میں پاکستان کی ہار کو دیکھ کر تو گویا کیفیت ایسی تھی کہ جیسے بہت ہی قیمتی شے چھین لی گئ ہو پھر 2009 میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے نے کرکٹ کو پسند کرنے والے حلقوں میں صف ماتم بچھادی۔ اس کا نتیجہ کچھ یوں نکلا کہ آج بھی پاکستان کی کرکٹ بین الاقوامی سطح پر کھیلی جانے والی کرکٹ سے کافی پیچھے ہے۔اس میں بہتری کی امید پی ایس ایل سے پیدا ہوئی ہے کہ جس کے باعث کرکٹ کے سونے میدان دوبارہ آباد ہوچلے ہیں۔

2010 کے دورہ انگلینڈ کے دوران اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا سامنے آنا آج بھی پاکستانی کرکٹ شائقین کیلیے ایک کربناک واقعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ شائقین کرکٹ اس خبر کو سننے کے بعد غم و غصے کہ ایسی کیفیت سے گزرے جو کہ ناقابل بیان ہے گو کہ واقعے کو رونما ہوئے ایک دہائ گزرچکی مگر اس سے پہنچنے والا نقصان ناقابل تلافی ہے۔ صرف سوچا جائے کہ 2011 کے کرکٹ ورلڈکپ میں محمد عامر محمد آصف اسکواڈ کا حصہ ہوتے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کی پیس بیٹری کا احوال بہت مختلف ہوتا۔ دونوں گیند بازوں نے دورہ انگلینڈ 2010 میں اپنی کارکردگی سے اپنے منفرد ہونے کا اظہار کیا تھا۔

جیسے دیمک لکڑی کو چاٹ جاتی ہے ٹھیک اسی طرح بدعنوانی کھیل کے حسن کو چاٹ جاتی ہے۔سلمان بٹ،محمد آصف،محمد عامر،ناصر جمشید، خالد لطیف،شرجیل خان یہ وہ شرمناک باب ہیں پاکستان کرکٹ ٹیم کا کہ جنہوں نے پیسوں کو بنیاد بناکر اس "گرین شرٹ" کی عزت کو پامال کردیا اور کچھ نے کوشش کی مگر کامیابی مقدر نہ بن سکی۔ یہ وہ لوگ ثابت ہوئے کہ جنہوں نے وطن عزیز کی حرمت کو چند "ڈالرز" کی خاطر خود فروخت کیا۔ جنہوں نے یہ قدم اٹھانے سے قبل یہ تک نہ سوچا کہ جب یہ وطن عزیز کی نمائندگی "نوکری" سمجھ کر کرتے ہیں انھی لمحات میں انکی کامیابی کیلیئے پرخلوص دعائیں مانگی جاتی ہیں جس کا کوئ نعم البدل نہیں۔
اس فہرست میں نیا اضافہ "عمر اکمل" کا بھی ہے.

آہ عمر اکمل ! ایک بہترین کھلاڑی،ٹیلنٹ سے مالا مال ،اگریسو کرکٹ کا ایک باب کہ جس کو بہترین کھلاڑیوں کیساتھ ڈریسنگ روم شیئر کرنے کا موقع ملا۔ 121 ایک روزہ 84 ٹی ٹوئنٹی اور 16 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز رکھنے والا کہ جسکو شاہد آفریدی مصباح الحق جیسے کھلاڑیوں نے قومی ٹیم کا حصہ بننے کے بعد اس میں اعتماد کے فقدان کو دور کیا۔اپنے کرکٹ کے شروعاتی دور میں رنز کی بھوک اس کے کھیلنے کے انداز سے نظر آتی تھی اور پھر وہ شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچا جب اس نے آسٹریلیا کے خلاف 2010 میں کھیلے جانے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں 56 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی گو کہ میچ کا نتیجہ پاکستان کے حق میں نہ رہا مگر 4 چھکوں اور 2 چوکوں سے مزین وہ اننگز عمر اکمل کے کرکٹ کیریئر میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔

کہا جاتا ہے شہرت مل تو جاتی ہے مگر اسکا حق ادا کرنے ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کچھ یہی حال عمر اکمل کا ہے ایک زمانے میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں تیسرے نمبر پر بیٹنگ کرنے والا (اسکواڈ میں سب سے اہم جگہ ہوتی ہے جہاں ٹیم کا بہترین بلے باز کھیلتا ہے ویرات کوہلی، اسٹیون اسمتھ ،جوئے روٹ، بابر اعظم وغیرہ اسی نمبر پر بیٹنگ کرتے ہیں) اور کہاں پاکستان کرکٹ کا "بیڈ بوائے"۔ یہ ایک طویل سفر ہے جو عمر اکمل نے طے کیا ہے۔اپنے رویے،اصول و ضوابط سے انکار ،مینجمنٹ سے ٹکراؤ یہ سب کچھ عمر اکمل کے ایک بدعنوان کرکٹر کے طور پر منتج ہوا۔ رواں سال پی ایس ایل کے آغاز مین ان پر کرپشن کے چارجز پی سی بی کے کوڈ آف کنڈکٹ کی شق 2.4.4 کے کے تحت لگے۔ تفتیش ہوئ اور پھر پاکستان کرکٹ بورڈ نے فیصلہ عمر اکمل کے خلاف دیا اور 3 سال تک کسی بھی قسم کی کرکٹ سے متعلق سرگرمی سے دور رہنے کا حکم دے دیا۔ معلوم نہیں اس عرصے کے بعد عمر اکمل ٹیم کا حصہ ہونگے یا نہیں اسکی وجہ آئے دن بے پناہ ٹیلینٹ سے مالامال کرکٹرز اپنی کارکردگی کے باعث سلیکشن بورڈ کو اپنی طرف متوجہ کررہے ہیں۔ یہ طے ہے کہ کرکٹ میں واپسی اور "گرین شرٹ" زیب تن کر کے کھیلنا عمر اکمل کیلیئے اب کی بار ایک کٹھن سفر ہوگا۔

•کیا کرکٹ بورڈ اسی طرح ٹیلینٹ کی بے قدری کی روایت جاری رکھے گا ؟
•کیا کرکٹرز کے ڈسپلن کی ذمےداری سے بورڈ مستثنی ہے ؟
•کیا صرف "تنخواہ" دے کر بورڈ اپنے فرائض کہ جس میں کھلاڑیوں کی نگہداشت بھی شامل ہے اس سے بری الذمہ ہوجاتا ہے ؟
•ملک و قوم کی نمائندگی اور اسکی عزت کیا اتنی سستی ہے کہ اسکو روندنے والوں کو بس پابندی لگا کر چھوڑ دیا جائے ؟
سوالات بہت ہیں اور یہ جاری ر ہیں گے اے کاش ! کوئ جواب دے سکے۔


 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 22767 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.