معروف کرکٹر انور علی کیساتھ ایک نشست

انور علی موجودہ دور کہ نامور کرکٹ آل راؤنڈرز میں سے ایک ہیں۔ اپنی عمدہ ہارڈ ہٹنگ سے انھوں نے کوئٹہ گلیڈیئٹرز کی کئی فتوحات میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

انور علی کیساتھ راقم اور ان کے کلاس فیلوز کی ایک یادگار تصویر

بات اگرکرکٹ کی جائے تودنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں یہ کھیل دوسرے نمبر پر شمارکیا جاتا ہے۔خطے کے روایتی حریفوں کے مقابلے کو دنیا بھر میں دیکھا اور پسند کیا جاتا ہے۔گزشتہ برس پاک بھارت کرکٹ ٹیموں کے مابین کھیلے جانے والے چمپینز ٹرافی کے فائنل کو کو لگ بھگ ۳۲ کروڑ شائقین نے براہ راست اپنی ٹی وی اسکرینز پر دیکھا اور محظوظ ہوئے ۔
لٹل ماسٹر حنیف محمد ہوں یا اسپیڈ اسٹار شعیب اختر ۔ڈبل ڈبلیو کی جوڑی ہو یا ثقلین مشتاق جیسا شہرہ آفاق اسپنر ۔پاکستانی کرکٹرز نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ پاکستان کی دھرتی آل رائونڈرز کے مقابلے میں بھی بھت زرخیز رہی ہے۔ جن میں عمران خان ،شاہد آفریدی ،عبدالرزاق اور دیگر سرفہرست ہیں۔انہی میں ایک نیا اضافہ انور علی کا ہے۔
ان کی وجہ شہرت سن2006 سری لنکا میں کھیلے جانے والے انڈر ۱۹ ورلڈکپ میں شاندار پرفارمنس ہے۔ انھوں نے پاک بھارت انڈر ۱۹ ورلڈکپ کے فائنل میں تباہ کن اسپیل کراتے ہوئے بھارت کی بیٹنگ لائن اپ کو تہس نہس کردیا تھا۔ اس یادگار مقابلے انور علی نے ابتدائ اوورز میں بولنگ کرتے ہوئے۹ اوورز میں ۳۵ رنز کے عوض ۵ وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔
آئیے ان سے ملاقات کرتے ہیں.

سوال نمبر۱:سب سے پہلے یہ بتایئے کہ آپ لوگ کتنے بہن بھائ ہیں اور آپکی پیدائش کہاں کی ہے؟
انور علی:ہم ۷ بہن بھائ ہیں اور میری پیدائش میٹروول سائٹ فرنٹئیر کالونی کی ہے۔

سوال نمبر ۲: عام گھرانوں کا رواج ہے وہاں پڑھائ کو دوسری سرگرمیوں پر ترجیح دی جاتی ہے ۔ ابتدائ دور میں آپکو کس کی سپورٹ حاصل تھی ؟یہاں تک پہنچنے میں کس کو اپنا ہمدرد /مسیحا مانتے ہیں ؟
انور علی:تعلیم کے حوالےسے تو یہ کہنا چاہوں گاکہ تعلیم پر فوکس ہونا چاہئے اور موجودہ دور کے حساب سے تعلیم ہمارے معاشرے کیلئے ایک ضرورت بن گئ ہے۔ کرکٹ اسکول کے دور سے کھیلنا شروع کی ۔اسکول میں ہی کرکٹ کھیلتا تھا۔چونکہ والد صاحب کو یہ کھیل بلکل پسند نہیں تھا جس کے باعث اپنے علاقے میں کھیلنا ممکن نہیں تھا۔اسکول کہ ساتھ ساتھ یہ تھا کہ انڈر ۱۷ ،۱۸ ٹورنامنٹس اور دیگر میچز بآسانی کھیل لیا کرتا تھا۔اس کے بعد ریجنل لیلول پر بھی کرکٹ کھیلی ۔ میں نے زون ۶ کیلئے بھی کھیلا ہے۔اس مین ہمارے کوچ اعظم خان تھے ۔انھوں نے مجھے بھرپور سپورٹ کیا ۔آج انور علی جو کچھ بھی ہے ان ہی کی بدولت ہے۔

سوال نمبر ۳:دیکھنے میں آیا ہے کہ گلی کوچوں میں کرکٹ کی ابتداء کرنے والےکرکٹر ز انٹرنیشنل کرکٹر کا اسٹیٹس ملنے کے بعد بدل جاتے ہیں ۔۔آپ میں بدلاؤ نہ آنے کی وجہ ؟
انورعلی:ماں باپ کی دعائیں ہیں۔ انھوں نے سکھایا ہے اور یہ چیز بندہ اپنے گھر سے سیکھتا ہے۔میں اپنے آپکو خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ مجھے اس قسم کی فیملی ملی۔ اپنے اساتذہ(اسکول و کالج) کو کریڈٹ دیتا ہوں کہ ان سے مجھےبہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔زندگی کے ہر موڑ پر انسان کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی ہے۔ ان حالات میں بھی بدستور سیکھ رہا ہوں۔"میں نیچے دیکھتا ہوں اپنے سے اوپر نہیں دیکھتا" انہی اصولوں کیساتھ اپنی زندگی گزاررہا ہوں۔

سوال نمبر ۴:دنیائے کرکٹ میں ڈیبیو پر مین آف دی میچ کا اعزاز بہت کم لوگوں کے پاس ہے ان میں آپ بھی شامل ہیں ۔۔کیا احساسات تھے ایوارڈ اپنے نام کرنے کے بعد؟
انور علی:وہ فیلنگ تو میں لفظوں میں بیان کر ہی نہیں سکتا ۔ میرا نام ان چند ایک روزہ میچز میں ڈیبیو کرنے والے کرکٹرز میں تھا جنہوں نے مین آف دی میچ کا ایوارڈ ڈیبیو پر اپنے نام کیا تھا۔ ساؤتھ افریقہ کی خلاف ان کے ہوم گراؤنڈ پر ایسی کارکردگی دیکھانا میرے لیے بہت خوشی کا باعث تھا۔خوشی کے باعث میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے یہ خیال کرکے کاش! میرے والد آج زندہ ہوتے تو یہ لمحات ان کے ساتھ شیئر کرتا۔

سوال نمبر ۵:کرکٹ میں آنے کے سہرا کس کے سر باندھتے ہیں؟کرکٹ کے تینوں شعبوں میں کس کو رول ماڈل مانتے ہیں ؟
انورعلی:ہمارے علاقے میں طارق بھائ ہوا کرتے تھے۔جنہوں نے مجھے سپورٹ کیا اور مجھے کیا۔ کیا۔encourage مجھے کرکٹ کیلئے
وہ کہتے تھے "انور پاکستان کیلئے کرکٹ کھیل سکتا ہے"۔انہی کو اپنے کرکٹ میں آنے کا ایک ذریعہ مانتا ہوں۔ رول ماڈل کرکٹ کے حوالے سے عمران خان ہیں۔سیاست کےتناظر میں نہیں بلکہ ایک اسپورٹسمین کی حیثیت سے انکواپنا آئڈیل مانتا ہوں۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ انکا شمار دنیا کے ۱۰ بہترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔میری کوشش ہوتی ہے کہ انکی طرح پرفارم کروں۔

سوال نمبر ۶: ۲۰۱۵ کے ورلڈکپ میں بدقسمتی سے فائنل اسکواڈ کا حصہ نہیں بن سکے ۲۰۱۹ میں ہونے والے ورلڈکپ کیلئے کیا پلان ہے ؟
انور علی:اپنی کرکٹ پر محنت جاری ہے۔ اپنی فٹنس پر بھی کام کررہا ہوں ۔ دیگر ایونٹس جو آنے والے ہیں ان پر فوکس ہوں ۔ بین الاقوامی لیگز اور دوسرے ایونٹس کیلئے بھرپور محنت کررہا ہوں۔جہاں تک بات ۲۰۱۹ کے ورلڈکپ کی ہے تو وہ میرے کنٹرول میں نہیں ہے۔ ایک بات بتاؤں آپکو جو چیف سیلیکٹر اور بورڈکے دیگر ممبران ہیں وہ میرے کنٹرول میں نہیں ہیں جو میرے کنٹرول میں ہے وہ میرا بیٹ اور میری بال ہے۔میرا کام ہے کھیلنا اور اچھا پرفارم کر کے ٹیم میں سیلیکٹ ہوکرملک کیلئے ٹرافی لے کر آنا ہے۔

سوال نمبر ۷: ابتدائ دور میں آپکی بال میں ان سوئنگ موجود تھا اور آپکی بولنگ کی خاصیت بھی یہی تھی ۔ وہ کیا وجوہات تھیں کہ جن کے باعث بولنگ ایکشن میں تبدیلی کرنی پڑی؟
انور علی:شروعاتی دور میں مجھے دراصل بولنگ کے حوالے سے صحیح گائیڈ لائن نہیں مل سکی .جس کے باعث میرا بولنگ اسٹائل جیسا تھا ویسا ہی رہا ۔ اس ایکشن سے بولنگ کرنے کی وجہ مجھے سائیڈ اسٹرین ہوا جس کے باعث میں ۹ مہینے کیلئے کرکٹ سے دور ہوگیا۔ واپس آیا تو مجھے این سی آر(لاہور) میں موجود عاقب جاوید نے طلب کیا اور مجھے کہا اگر لمبی کرکٹ کھیلنی ہے تو تمہیں اپنا بولنگ اسٹائل تبدیل کرنا ہوگا۔ جب نیچرل اسٹائل سے ہٹ کر بولنگ کی تو پرفارمنس میں فرق آگیا۔ انشاءاللہ جلداز جلد اسکو ایڈجسٹ کر کے ٹیم میں کم بیک کرونگا۔

سوال نمبر ۸: پی ایس ایل کرکٹ پاکستان کا ایک روشن باب ہے۔ بات نئے ٹیلنٹ کو کھوجنے کی ہو یا عالمی کرکٹ برادری سے تعلقات کی۔۔ پی ایس ایل نے پاکستان کا مثبت چہرہ ابھارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا اسٹیپس ہونے چاہیے ہیں جو پی ایس ایل کو مزید بہتر بنانے میں معاون ثابت ہونگے؟ کس چیز کو فوکس کرنا ہوگا اسکو مزید بہتر بنانے کیلئے ؟
انور علی:پی ایس ایل نئے آنے والے ینگسٹرز کیلئے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ جس میں ملکی کھلاڑیوں کا انٹریکشن بین الاقوامی کرکٹرز سے ہورہاہے۔ جس کے باعث انکو بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔اپنےآپکو عالمی م کرکٹ کے معیارات سے ہم آہنگ کرنے کیلئے یہ ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ بات مزید بہتری کی کریں تو ابھی صرف ۳ ایڈیشنز ہوئے ہیں جس کے بعد پی ایس ایل کاشمار دنیا کی ۳بہترین کرکٹ لیگز میں اسکا شمار ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات مینشن کرنا ضروری ہے کہ ان لیگز کے ۸ سے ۱۰ ایڈیشنز ہوچکے ہیں جبکہ پی ایس ایل کا ابھی صرف اسٹارٹ ہے۔(مسکراہٹ)

سوال نمبر ۹:سر ویو رچرڈز کی مینٹورشپ میں وقت گزاراآپ نے۔۔ کیا بنیادی چیز سیکھنے کو ملی؟ کوئٹہ گلیڈیٹرز کی ٹیم کیساتھ کوئ یادگار واقعہ۔
انور علی: سب سے پہلے میں اپنے آپکو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں نےان جیسے کرکٹنگ لیچنڈ کیساتھ اور انکی مینٹورشپ میں وقت گزارا۔ ایک دن ہم فیلڈ پریکٹس گراؤنڈ جارہے تھےتو ان سے ہمارے ٹیم میٹ نے پوچھا کہ سر آپ نے اتنی کامیابیاں کس طرح حاصل کیں ؟
انہوں نے کہا"میں گراؤنڈ میں ہی نہیں زندگی کے تمام تر معاملات میں ڈسپلن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتااور یہی میری کامیابی کا راز ہے:۔ایسا کوئی یادگارواقعہ تو یاد نہیں۔ البتہ کیون پیٹرسن (معروف انگلش بلے باز) سے انڈرسٹینڈنگ اچھی ہے اور وہ مجھے کافی سپورٹ کرتے ہیں۔

سوال نمبر۱۰:بقول رمیز راجہ کے جو فیلڈنگ کے معیار پی ایس ای میں دیکھنے کو ملا۔وہ اس سے پہلے نہیں تھا۔ کوئ خاص وجہ ؟
انور علی:اس لیگ سے پاکستان کر کٹ کو مستقبل کے اسٹارز ملے ہیں۔ اس لیگ میں جو بولنگ کے معیارات ہیں ان میں بلے بازوں کو ۲۰۰ اور ۲۰۰+ اسکور کرنا یہاں مشکل ہوتا ہےیہاں مقابلے کی فضا آخر تک قائم رہتی ہے۔دوسری چیز یہاں دنیا کےبہترین کوچز بھی موجودہیں جو نئے کرکٹرز کو کرکٹ کے ہر شعبے میں محنت کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سوال نمبر ۱۱:کوئٹہ گلیڈیٹرز کی ٹیم میں انٹرنیشنل اسٹارز کی کمی ہے مگر حیران کن نتائج دینے میں آپکی ٹیم کامیاب رہی ہے۔اسکی وجہ؟
انور علی: درا صل ہماری ٹیم میں میر حمزہ ، حسان خان، سرفراز احمد ہم سب ایک ہی کلب سے کھیلے ہیں۔ ہم رمضان ٹورنامنٹس اور دیگر شہری سطح پر ہونے والے میچز میں تقریبا ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ ایک فیملی جیسا ماحول ہوتا ہے اور ایک زمانے سے ساتھ ہیں تو ایک دوسرے کو سمجھتے بھی ہیں۔ آپس میں انڈرسٹینڈنگ بھی ہے۔ جبھی اس طرح پرفارم کرتے ہیں۔

سوال نمبر ۱۲: کر کٹ کی بڑھتی ہوئ مصروفیات کے باعث اپنے آپکو انٹرنیثنل اسٹینڈرڈ کے مطابق فٹ رکھنا کسی چیلینج سے کم نہیں ہے۔ کس طرح فٹنس کو برقرار رکھتے ہیں؟
انور علی: ٹی ٹوئنٹی کرکٹ اعصاب کا کھیل ہے۔ فٹنس موجودہ دور کی کرکٹ کی جان ہے۔ اس حوالے سے بورڈ ہم کو ایکسرسائز اور ڈائٹ پلان دیتا ہےجس پر ہم کو سختی سے عمل کرنا ہوتا ہے۔

سوال نمبر ۱۳:ہارڈ ہٹنگ نیچرل گیم ہے یا آپ نے باقاعدہ اس اسٹائل پر محنت کی ہے ؟
انور علی:نہیں! بلکل محنت کی ہے اور آنے والے ٹائم میں اس پر اور محنت کر کےاور بہتر کرونگا۔بطور آل راؤنڈر ہارڈہٹنگ گیم آپ کی ٹیم کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

سوال نمبر ۱۴: ہمارے انٹرویو کے توسط سے نئے آنے والوں کو کو ئ پیغام دینا چاہیں گے؟
انور علی:یہی کہنا چاہوںگا کہ اپنی سی پوری محنت کریں اور نتائج اللہ پر چھوڑ دیں۔نماز کو ضائع نہ کریں۔اپنے اساتذہ اور والدیں کی قدر کریں اور انکا احترام کریں۔
بہت بہت شکریہ انور آپ کے وقت کا۔

Interview was taken by me on May/08/2018
 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 22776 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.