رام مندر کی بدعنوانی کا شکاررام بھگت

کیا یہ بات کسی کے خواب و خیال میں تھی کہ اترپردیش کی رام بھکت سرکار ایودھیا میں رام نام کی لوٹ پر تفتیش کروائے گی؟ لیکن یہ ہورہا ہے یوگی جی نے پانچ دن کے اندر تحقیق کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ مذکورہ رپورٹ کے ذریعہ یہ ثابت کردیا جائے کہ ایودھیا میں کسی قسم کی بدعنوانی نہیں ہوئی ۔ اس کے باوجود یوگی جیسی ہٹ دھرم حکومت کا سرکاری تحقیق کروانا اپنے آپ میں نہایت شرمناک اقدام ہے۔ایک سوال یہ ہے کہ آخر کس کے لیے شرمندگی ؟ کیا مسلمانوں کے لیے ؟ ہرگز نہیں کیونکہ وہ تو ابتداء ہی سے سنگھ پریوار کے عزائم سے واقف ہیں ۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان فرقہ پرستوں کو نہ تو مذہب میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ان کا ہندو راشٹر سے کوئی لینا دینا ہے۔ دھن دولت اور اقتدار و آسائش کے حصول کی خاطر ان لوگوں نے رام مندر کا ہنگامہ کھڑا کیا ۔ پہلے اس کے نام پر خوب چندہ جمع کیا اور کوئی حساب کتاب نہیں دیا ۔ اسی دولت اور نفرت کی مدد سےاقتدار پر قبضہ کیا اور پھر یہ سے مال و دولت کے حریص پاکھنڈی مذہبی جذبات کا استحصال کرکے لوٹ مار کرررہے ہیں ۔ ان لوگوں نے سماج کے ایک بہت بڑے طبقہ کو متاثر کیا مگر مسلمان ان کے جال میں کبھی نہیں آئے اور وہ بھرپور مخالفت کرتے رہے ۔

رام مندر کی تحریک نے شمالی ہندوستان اورخاص طور پر اتر پردیش کے اندر بی جے پی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی ۔ اس کا سیاسی فائدہ اسے مرکزی و صوبائی انتخاب میں ہوا لیکن پھر بھی ہندو اکثریت اس سازش سے بچی رہی ۔ اترپردیش کے اندرپچھلے قومی انتخاب میں بی جے پی کو حامیوں سمیت 48 فیصد ووٹ ملے تھے جو صوبائی انتخاب میں گھٹ کر 40فیصد پر آگئے۔ اس میں رام مندر کے علاوہ پسماندہ ذاتوں کو دکھائے جانے والے حسین خوابوں کا بھی بہت بڑا حصہ تھا ۔ مظفرنگر فسادات کے تعلق سے پھیلائے جانے والے جھوٹ نے بھی بی جے پی کی مدد کی تھی ۔ اس کے باوجود 60 فیصد رائے دہندگان نے بی جے پی کو مسترد کردیا تھا لیکن چونکہ وہ منقسم تھے اس لیے بی جے پی کو غیر معمولی کامیابی نصیب ہوگئی۔ ایسے میں جن ہندووں نے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ لاکھ ماحول سازی کے باوجود بی جے پی کے کمل پر مہر لگانے سے انکار کردیا ان کو بھی اس بدعنوانی پر شرمندگی نہیں ہے کیونکہ ان کی اس معاملے میں بالواسطہ اور بلا واسطہ حصہ داری نہیں ہے۔ سنگھ پریوار کی اصلیت جن ہندووں کے سامنے تھی وہ اس کی حمایت سے باز رہے۔

ایودھیا کی بدعنوانی پر اگر کوئی سوچتا ہے کہ سنگھ پریوار کے اندر کسی قسم کا احساسِ ندامت ہوگا تو یہ اس کی نادانی ہے۔ سنگھ پریوار کے نزدیک رام مندر، کرشن جنم بھومی یا گیا ن واپی کی مسجد کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا کیونکہ اس کے ہٹلر اور مسولینی سے متاثر رہنما مذہب بیزار تھے ۔ ان کو مذہبی عقائد کے بجائے سیاسی اقتدار میں دلچسپی تھی اس لیے مسلمان دشمنی میں یکساں سول کوڈ، کشمیر اور گئو کشی وغیر ہ کے مسائل اچھالا کرتے تھے۔ وہ تو کانگریس کے ایک احمق وزیر داودیال کھنہ نے اندرا گاندھی کو خط لکھ کاشی ، متھرا اور ایودھیا کی مسجدوں کو ہٹا کر مندر بنانے پر اصرار کردیا اور دوسال کے بعد اشوک سنگھل نے داودیال کی تحریک میں شامل ہونے کا فیصلہ ہوکر اس پر قابض ہوگئے خود کھنہ کو ٹھکانے لگا دیا۔ ہندو سادھو چونکہ ساتھ نہیں آرہے تھے اس لیے متھرا کے سنت وام دیو جی مہاراج کو جھانسے میں لیا گیا ۔ ان کندھے پر چڑھ کر ہندو مذہب کے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار مذہبی رہنماوں کو یکجا کیا گیا اور پھر وام دیو کو بھی کنارے کردیا گیا ۔ان کو تو آگے چل کر اِن چہرہ تک دیکھنا گوارہ نہیں تھا بلکہ انہیں برا بھلا کہہ کر بھگا دیتے تھے ۔

سنگھ پریوار کا مقصد ہی چونکہ رام مندر کی آڑ میں دولت اور اقتدار پر قبضہ کرنا تھا اور وہ حاصل ہوگیا اس لیے شرمندگی کیسی؟اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ امسال ماہِ جون میں جب بدعنوانی کے واقعات سامنے آئے اور پتہ چلا کہ ایودھیا میں دو کروڑ کی زمین کو رام مندر نرمان ٹرسٹ کو 26 کروڑ 50 لاکھ روپے میں فروخت کی گئی ۔ ایک قطعہ زمین 8 کروڑ روپے میں مندر ٹرسٹ نے خریدی اور ایک مشکوک سودہ 18 کروڑ 50 لاکھ روپئے میں ہوا۔ ان تینوں ہی سودوں میں انیل مشرا اور رشی کیش اپادھیائے گواہ ہیں۔ انیل مشرا آر ایس ایس کے عہدیدار رہ چکے ہیں اور انہیں وزیر اعظم مودی نے مندر نرمان ٹرسٹ کا رکن بنایا ہے۔ جبکہ بی جے پی لیڈر رشی کیش اپادھیائے ایودھیا کے میئر ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کےقریبی ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی زمین 5 لاکھ 50 ہزار فی سیکنڈ کے حساب سے مہنگی ہوئی۔ رام مندر ٹرسٹ کے سکریٹری چمپت رائے کو پہلے ہی معلوم ہوگیا کہ 5.22 بجے زمین خریدنے کے لئے جو اسٹامپ خریدے جائیں گے ان کی رجسٹری شام کو 7.10 بجے ہوجائے گی ۔ ان سارے انکشافات کے باوجود آر ایس ایس نے اپنے کسی رکن پر کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ چمپت رائے کا بال بیکا ہوا ۔ سنگھ اگر اس وقت کوئی سخت اقدام کرتا تو آج اسے یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا لیکن اب تو ثابت ہوگیا کہ اپنی پاکئی دامن کی قسمیں کھانے والےآر ایس ایس بھی بدعنوانی میں بی جے پی سے پیچھے نہیں ہے۔

اس موقع پر اگر کوئی شرمندہ ہے تو وہ سیدھا سادہ عام ہندو ہے جو بھیڑ کی کھال میں بھیڑئیے کو پہچاننے میں ناکام رہا ۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو فرقہ واریت کے نشے میں مدہوش کردیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ہر روز مفت میں منشیات کی نئی خوراک مہیا کرائی جاتی ہے۔ گودی میڈیا تو ان کو فرقہ پرستی کی شراب میں نہلاتا ہے اور سوشیل میڈیا انہیں افیون کی میٹھی میٹھی گولیاں مہیا کرتا ہے۔ ہری دوار میں مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا اعلان اور قتل عام کا بیان اسی اسکیم کا حصہ ہے تاکہ عام ہندووں کو مسلمانوں سے الجھا دیا جائے۔ اس کی توجہات کو رام نام کی لوٹ سے ہٹا کر نوٹ کمانے کے کاروبار کو زور و شور سے جاری رکھا جائے۔ یہ لوگ عام ہندو کی جیب کاٹ کر ووٹ نکال کراپنی تجوری بھرتے ہیں اور اب تو سرکاری افسر بھی اس لوٹ کھسوٹ کا حصہ بن گئے ہیں۔

سنگھ پریوار کو یاد رکھنا چاہیے کہ نشہ کی حالت مستقل نہیں ہوتی ۔ پیٹ کی بھوک دماغ کے نشہ کو ہوا کردیتی ہے۔عام ہندووں کو جب ہوش آئے گا اور انہیں اپنے مذہبی، معاشی اور سیاسی استحصال کا علم ہوگا تو وہ نہ صرف ان ڈھونگیوں سے بلکہ مذہب سے بھی بیزار ہوجائیں گے ۔ انسانی فطرت میں فریب کاروں کے تئیں نفرت پائی جاتی ہے مسئلہ صرف احساس کا ہے۔ وراثت کی حفاظت کے نام پر موجودہ حکومت کاشی اور ایودھیا میں مذہب کا سہارا لے کر سیاحت کو فروغ دے رہی ہے۔ کارپوریٹ کلچر کی مدد سے مقامی تشخص کو برباد کیا جارہا ہے۔ وہ مقامی لوگ جو کئی پشتوں سے ان تاریخی شہروں میں بسے ہوئے تھے انہیں نکال باہر کیا جارہا ہے۔ وہ دوکانیں جو صدیوں سے آباد تھیں انہیں اجاڑا جارہا ہے اور ان چھوٹے چھوٹے مندروں پر بھی بلڈوزر چل رہا ہے کہ جو یہ سوچ کر رام مندر کی تحریک میں شامل ہوگئے تھے کہ عظیم الشان مندر کی تعمیر کے بعد ان کے یہاں بھی عقیدتمندوں کی تعداد اور دان پیٹی میں دکشنا بڑھ جائے گی ۔ یہ تمام لوگ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں کیونکہ ان کی جگہ باہری سرمایہ داروں کو نوازہ جارہا ہے۔ اس ظلم کے باوجود اگر بی جے پی یہ امید کرتی ہے کہ یہ بے خانماں رائے دہندگان دوبارہ اسے اپنے ووٹ سے مالا مال کرکے اقتدار پر فائز کریں گے تو اس سے بڑا احمق کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ پچھلے پنچایت انتخاب میں بی جے پی کو کاشی اور ایودھیا کے علاوہ متھرا میں بھی جھٹکا لگا لیکن وہ اقتدار کے نشے میں اس قدر مست ہے کہ اس کے ہوش ٹھکانے نہیں آئے ۔ ایسا لگتا ہے لکھنو کے بعد دہلی گنوانے کے بعدہی اس کا دماغ درست ہوگا ۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)




 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224651 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.