وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ: مجھے لگتا تھا بدلو گے مگر بدلے نہیں ہو تم

اتر پردیش میں بیک وقت دو تماشے چل رہے ہیں ۔ پہلا، کاشی کوریڈور کا افتتاح کرنے کے بعد مودی جی نے اپنے آپ کو بہت بڑا دھرم گرو بنا کر پیش کیا اور گنگا میں ڈبکی لگا کر اپنے پاپ دھونے کی کوشش کی۔ اس کے بعد اپنے سارے وزرائے اعلیٰ کو بلا کر دربار سجایا ۔ اس طرح اگلے ہی دن بلی تھیلے سے باہر آگئی ۔ تیسرے دن خود تو دہلی آگئے مگر وزرائے اعلیٰ کو پارٹی کے صدر جے پی نڈا کے ساتھ ایودھیا کے رام مندر میں درشن کے لیے بھیج دیا ۔ یعنی سیاست کے آگے پیچھے، اوپر نیچے اور دائین بائیں سب دھرم کرم ہی دھرم کرم لیکن قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ جس دن مودی جی اپنی کلاس لگا رہے تھے لکھیم پور میں سیاست نے اس زور سے سر اٹھایا کہ سارا دھرم کرم دھرا کا دھرا رہ گیا۔ ایس آئی ٹی کی رپورٹ نےصاف اعتراف کرلیا کہ کسانوں کا قتل کوئی حادثہ نہیں بلکہ منصوبہ بند قتل کی سازش تھی ۔ اب آگے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ اس سازش میں مودی جی کے وزیر مملکت اجئے مشرا ٹینی بھی شریک تھے ۔ اس طرح ساری دنیا کو پتہ چل جائے گا ہندوتوا کی سیاست میں مرکزی وزیر انتقام لینے کی خاطر اپنے کسانوں کو گاڑی سے کچل دیتا ہے۔

اتر پردیش کے انتخاب میں وہ ہورہا ہے جو مغربی بنگال میں بھی نہیں ہوا یعنی وہاں تو یہ ہواتھا کہ انتخاب سے قبل ٹی ایم سی کے لوگ ایک کے بعد ممتا بنرجی کو چھوڑ کر بی جے پی میں جانے لگے تھے اس کے برعکس یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ پہلے تو بی جے پی کے ساتھ چلنے والی راج بھر جیسے لوگ اس کا ساتھ چھوڑ کر سماجوادی پارٹی کے ساتھ آگئے۔ اب بی جے پی کی کابینہ میں شامل اپنا پارٹی کی مرکزی وزیر انوپریہ پٹیل نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ وہ انتخاب میں کس کی حمایت کریں گی یہ طے نہیں ہے۔ ہمارے لیے سارے امکانات کھلے ہیں حالانکہ انوپریہ کی ماں کرشنا پٹیل اپنی بیٹی کی حریف ہیں اور اکھلیش کے ساتھ ہیں۔ اس کے علاوہ بہوجن سماج پارٹی کے معطل شدہ رکن اسمبلی ونئے شنکر تیواری نے بی جے پی کے بجائے سماجوادی پارٹی میں شامل ہوگیا۔ ان کے والد سابق رکن پارلیمان کوشل تیواری اور گنیش شنکر پانڈے بھی اس کے رشتے دار ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ بی جے پی کے رکن اسمبلی جئے چوبے سماجوادی پارٹی میں شامل ہوگئے۔

۲۰۱۴ سے قبل مودی جی کے سارے مخالفین ان کو خطرہ بتا کر لوگوں کو خوفزدہ کیا کرتے تھے اس لیے کہ وہ خود ڈرے ہوئے تھے ۔ ایسا کرنے سے مودی کا نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوجایا کرتا تھا ۔ اب مودی اور ان کے ساتھی یہی کررہے ہیں ۔ امیت شاہ نے پہلے اعظم گڑھ میں بلا واسطہ حملہ کرتے ہوئے ’جام‘ کا نعرہ دیا یعنی جناح ، اعظم خان اور مختار انصاری خطرے سے خبردار کیا۔ اس کے کیشو پرساد موریہ نے اکھلیش کا نام لکھ کر سوال کیا کہ وہ متھرا میں کرشن کا مندر چاہتے ہیں یا نہیں؟ اور پھر وزیر داخلہ نے بھی براہِ راست اکھلیش کو مخاطب کردیا۔ یہ سلسلہ یہیں رک جاتا تب بھی ٹھیک تھا مگر وزیر اعظم اپنے وقار کو بھول کر کہہ گئے کہ :’’آج پورا یوپی اچھی طرح جانتا ہے کہ لال ٹوپی والوں کو آپ کے دکھوں سے نہیں، لال بتی سے فکر ہے۔ لال ٹوپی والوں کو اقتدار چاہیے، گھوٹالوں کے لیے، تجوری بھرنے کے لیے، ناجائز قبضوں کے لیے، مافیا کو مفت دینے کے لیے۔ سرخ ٹوپی والوں نے حکومت بنانا ہے، دہشت گردوں پر رحم کرنا ہے، دہشت گردوں کو جیلوں سے نکالنا ہے۔ تو، یاد رکھیں، سرخ ٹوپی کے ساتھ یوپی کے لیے ریڈ الرٹ ہیں، یعنی خطرے کی گھنٹی‘‘۔

وزیر اعظم نے اکھلیش کو خطرہ بتا کر وہی غلطی کردی جو ان کے مخالفین کیا کرتے تھے۔ اس کے جواب میں سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما اور ایم پی رام گوپال ورما نے کہا،’ریڈ الرٹ کا مطلب ہے کہ اتر پردیش میں اقتدار کی تبدیلی ہونے والی ہے۔ لال ٹوپی کا مطلب ہے انقلاب اور انقلاب کا مطلب تبدیلی ہے۔لال ٹوپی کا مطلب ہے یوگی کو اتر پردیش سے بے دخل کرنا‘۔ یہی تو اتر پردیش کا عام آدمی چاہتا ہے کہ یوگی نامی مصیبت سے نجات ملے ۔ اب اگر ان کو وزیر اعظم کے ذریعہ یہ پیغام ملے کہ یہ کام اکھلیش یادو کررہے ہیں تو وہ ان کی حمایت کیوں نہ کرے؟ یہی وجہ ہے کہ ’پریورتن سندیش ریلی‘ سے خطاب کرتے ہوئے اکھلیش نے کہا لال ٹوپی دراصل بی جے پی کےلئے ریڈ الرٹ ہے کیونکہ وہ اسے یوپی سے اکھاڑ پھینکے گی۔ انہوں نے نیا نعرہ بلند کرتے ہوئے کہا کہ ’’کسانوں کا انقلاب ہوگا، بائیس میں بدلاؤ ہوگا۔‘‘

گزشتہ انتخاب میں بی جے پی نے مظفر نگر فساد اور لوگوں کے اپنے گھروں کو چھوڑ کر جانے کو انتخابی مدعا بنادیا تھا حالانکہ ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر ہندووں کی تشہیر کی گئی تھی ۔ یہ بات اب گھس پٹ چکی ہے لیکن بی جے پی اسی کو دوہرا رہی ہے۔ اس کے جواب میں آر ایل ڈی سربراہ جینت چودھری نے کہا کہ اورنگزیب سے اپنی تقریر شروع کر کے نقل مکانی پر ختم کرنے والے یوگی کو خطہ اور صوبہ کے ان نوجوانوں کا گھر چھوڑنا دکھائی نہیں پڑتی جنہیں نوکریوں کے لئے دوسری ریاستوں میں جانا پڑتا ہے۔یہی مودی اور یوگی کی دکھتی رگ ہے اور اسی کو دبا کر انہیں اقتدار سے بے دخل کیا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کے ذریعہ لگاتار پھیلائے جانے والے نفرت کے زہر کا یہی تریاق ہے۔ اتر پردیش کے عوام اب اکھلیش یادو کے اس نعرے کا مطلب سمجھنے لگے ہیں کہ جو ’’لوگوں میں جو ڈالے کھائی ، وہی اصلی بھاجپائی‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مٹھی بھر فرقہ پرستوں کے علاوہ عام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتے ہیں ۔ وہ آپس کی کھائی کو بڑھانا نہیں ختم کرنا چاہتے ہیں ۔

ایک زمانے تک بی جے پی نے مخالفین کے انتشار کا فائدہ اٹھایا اور گوا، کرناٹک و مدھیہ پردیش میں توڑ پھوڑ کرکے اپنی حکومت بھی بنالی لیکن اب خود اسے آپسی سر پھٹول کا سامنا ہے ۔ ابھی حال میں وزیر داخلہ نے راجستھان کے دورے پر اس کا بلا واسطہ اعتراف کیا جہاں سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے نے پارٹی کے اندر خانہ جنگی چھیڑ رکھی ہے۔ انہوں نے ماضی کی مثال دے کر کہا کہ بھارتیہ جن سنگھ کے زمانے میں اس کے ۸ ؍ارکانِ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ ان میں سے ۶؍ نے زمینداری کے نظام کی حمایت کردی جبکہ پارٹی اس کے مخالف تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۶؍ لوگوں کو پارٹی کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی پاداش میں سے نکال باہر کیا گیا۔ اس مثال سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں اول تو یہ سنگھ پریوار کے اندر انتشار کا مرض بہت پرانا ہے۔ دوسرے یہ کہ اندر سے یہ لوگ مزدوروں کے بجائے زمینداروں کے حامی ہیں ۔ امیت شاہ نے آگے بتایا کہ باقی بچنے والے دولوگوں میں سے ایک بھیروں سنگھ شیخاوت تھے جو آگے چل کر وزیر اعلیٰ اور نائب صدر بنے۔ اس میں وسندھرا راجے کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ سدھر جائیں ورنہ ان کا سورج بہت جلد ڈوبا دیا جائے گا۔

وزیر اعظم نے ابھی حال میں اپنے ارکان پارلیمان کی تنبیہ کی۔ بی جے پی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ عام طور پر اجلاس کے دوران ہر منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس کمپلیکس میں ہوتی ہے لیکن اس بار یہ باہر ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر کے آڈیٹوریم میں ہوئی۔ اس میں پہلے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کے تمام ممبران پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ میں موجود رہنے اور قانون سازی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ہدایت دی ۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ سال کے چند دنوں میں یہ اجلاس ہوتا ہے اور اس میں بھی اکثرو بیشترایوان کی کرسیاں خالی رہتی ہیں حالانکہ اس کارروائی پر ہر منٹ لاکھوں روہئے خرچ ہوتے ہیں لیکن بے پروا عوامی نمائندوں کو اس تضیع الاوقات اور اموال کا احساس ہی نہیں ہے۔ اس معاملے میں وزیر اعظم کا رویہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ وہ بھی مہمان اداکار کی طرح کبھی کبھار نمودار ہوتے ہیں اور ایک عوامی تقریر کرکے لوٹ جاتے ہیں۔مودی جی بیزار ہوکر یہ بھی کہہ دیا کہ بچوں کی طرح آپ سے ایک ہی بات کو بار بار کہنا درست نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ دھمکی پر اتر آئے اور بولے آپ لوگ اپنے رویے میں تبدیلی لائیں ورنہ تبدیلی آجائے گی۔ ہر ریاستی انتخاب کے بعد ملک کےعوام خود وزیر اعظم سے یہی بات ای وی ایم کے ذریعہ کہہ دیتے ہیں لیکن کوئی اس پر کان دھرتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اترپردیش میں ممکنہ شکست کے بعد وہ اپنا رویہ بدلتے ہیں یا بدل دئیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کی دہلی آمد کے بعد جو لوگ تبدیلی کی امید کررہے تھے وہ آج کل یہ شعر پڑھتے دکھائی دیتے ہیں؎
مجھے لگتا تھا بدلو گے مگر بدلے نہیں ہو تم
وہی سنگین سا لہجہ وہی ہُشیار سی آنکھیں
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224619 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.