لال ٹوپی کے بالمقابل گیروا گمچھا

وزیر اعلیٰ کے گڑھ گورکھپور میں وزیر اعظم مودی یہ تو نہیں بتا سکے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے پچھلے ساڑھے چار سال میں کیا کارنامہ کیا اس یے سماجوادیوں کی لال ٹوپی کوصوبہ کے لئے ریڈ الرٹ قرار دے کر لوگوں کو ڈرانے لگے ۔ اکھلیش یادو نے شاہ کی طرح مودی کو بھی منہ توڑ جواب دیتے ہوئے میرٹھ میں عوام کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لال ٹوپی دراصل بی جے پی کےلئے ریڈ الرٹ ہے جو اسے یوپی سے اکھاڑ پھینکے گی۔ اس ریلی میں عوام کو جوشِ جنون دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔ مودی کی ریلی اور اس میں جو فرق تھا اس کو واضح کرتے ہوئے اکھلیش بولے یہاں لوگوں کو بلایا نہیں گیا ہے، لایا نہیں گیا ہے، یہ خود آئے ہیں کیونکہ یہ بی جے پی کا ہر قیمت پر صفایا چاہتے ہیں۔اس کے بعد انہوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ بی جے پی کےلئے ریڈ الرٹ ہے: مہنگائی کا، بے روزگاری کا، بیکاری کا، کسان اور مزدوروں کی بد حالی کا، ہاتھرس ، لکھیم پور کھیری ، خواتین و نوجوانوں کے استحصال کا،تعلیم ، کاروبار ، صحت کا اور لا ل ٹوپی کا کیونکہ یہ سب ہی اس کو اقتدارسے باہر کریں گے۔ لال کا انقلاب ہوگا، بائیس میں بدلائو ہوگا۔

اکھلیش یادو نے اپنے ٹویٹ میں ہاتھرس کے ساتھ خواتین کا خاص طور پر ذکر کیا ۔ سماجوادی پارٹی نے 30؍ نومبر کو پورے صوبے میں ہاتھرس کی بیٹی آشا کو یاد کیا تھا۔ اس طرح تقریباً ایک سال اور دوماہ بعد یہ خبر ذرائع ابلاغ کی زینت بنی ورنہ تو لوگ اسے بھول ہی گئے تھے۔ اس دلت کی بیٹی کا معاملہ نربھیا سے یکسر مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے نربھیا کے قاتلوں کو پھانسی کی سزا ملی حالانکہ اس کے لیے بھی 7 ؍ سالوں تک انتظار کرنا پڑا۔ یہ جدوجہد اگر نہیں ہوتی تو شاید اسے بھی بھلا دیا جاتا۔ نربھیا کے معاملے میں انتظامیہ ،سرکار اور سماج تینوں اس کے ساتھ تھے جبکہ آشاکا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہاتھرس میں اول روزسے یوگی کا انتظامیہ مجرمین کو بچانے میں جٹ گیا یہاں تک کہ اہل خانہ کی مرضی کے خلاف آشاکی لاش کو مٹی کا تیل ڈال کر نذرِ آتش کردیا گیا۔

نربھیا اور آشا کے ساتھ ہونے والے سلوک میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ نربھیا کا تعلق شہر میں رہنے والے ایک نام نہاد اعلیٰ ذات سے تھا اور آشا گاوں کے دلت سماج کی دوشیزہ تھی۔ اس کی دوسری وجہ یہ تھی ہاتھرس میں ٹھاکروں نے عصمت دری کی تھی۔ انتظامیہ اور سرکار پر اسی سماج کا دبدبہ ہے اور ابتداء میں تو میڈیا نے بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی مگر آگے چل کر ماحول بدلا ۔ اس کے باوجود دو ماہ کے اندر میڈیا کی حد تک تو یہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں چلاگیا ۔ سماجوادی پارٹی کو بھی آشا کی یاد الیکشن کی وجہ سے آئی ورنہ اس نے بھی اس المناک معاملہ میں کوئی فعال کردارنہیں ادا کیاتھا۔ خطرات میں گھرا آشا کا عدالت کی تلقین کے سبب جیل بنا ہوا۔اس کے اہل خانہ سی آر پی ایف کے تحفظ میں زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی بغیر اجازت و اطلاع کے بغیر کہیں آجا نہیں سکتے ۔ گھر میں 6؍ عدد کیمرے نصب ہیں ۔ نربھیا کے اہل خانہ کو اس کی ضرورت کیوں پیش نہیں آئی ؟ یہ سوال ملک میں دلتوں کی حالت زار کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

آشا کے معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس مقدمہ کی پیروی کرنے والی دلیر وکیل سیما کشواہا کو فون پر آئے دن نامعلوم لوگوں کی جانب سے قتل اور آبرو ریزی کی دھمکیاں موصول ہوتی ہیں ۔ اس طرح کے فون ان کے شوہر کو بھی کیے جاتے ہیں۔ کیا کسی مہذب معاشرے کو یہ حرکت زیب دیتی ہے۔ ملزمین کے وکیل منا سنگھ پنڈھیر دھڑلے کے ساتھ کہتے ہیں کہ آشا کے سندیپ کے ساتھ تعلقات تھے اس لیے آشا کے اہل خانہ نے ہی اس کا قتل کردیا ہوگا۔ وہ اپنے چاروں مؤکل کو بے قصور بتاتا ہے ۔ نربھیا کی بابت ایسابے بنیاد دعویٰ کرنے کی جرأت کسی میں نہیں تھی اور کوئی ایسا کرتا اس کے خلاف ہنگامہ کھڑا ہوجاتا لیکن آشا کے معاملے یہ سب ہورہا ہے اور یہی بات آصفہ کے وقت بھی ہوئی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے نربھیا کو ساری سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی لیکن آشا کے ساتھ حزب اختلاف تو ہے مگر سرکار نہیں ہے۔ نربھیا کا جب قتل میں ہوا تو اس وقت مودی جی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس کے باوجود وہ دہلی میں نربھیا کے گھر والوں سے ملاقات کے لیے گئے کیونکہ بی جے پی نے ان کو وزیر اعظم کا امیدوار بنا دیا تھا لیکن آشا کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے تو اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بھی نہیں آیا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے ’بہت ہوا ناری (عورت) پر اتیاچار (ظلم)، اب کی بار مودی سرکار‘ کا نعرہ لگا کر اقتدار سنبھالا تھا مگر ان کے لیے ہاتھرس آنا تو دور ہمدردی کے دو بول کہنا بھی مشکل ہوگیا ۔ ایک زمانے میں لوگ کہتے تھے دلتوں کا درد تو پسماندہ ذاتوں کے افراد ہی سمجھ سکتے ہیں۔ وزیر اعظم خود تیلی سماج سے آتے جس کا شمار پسماندہ ذاتوں کے اندر ہوتا ہے لیکن نام نہاد اعلیٰ زات کے لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ان کا دل بھی سخت ہوگیا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی کی جانب سے یہ بات ضرور آئی کہ وزیر اعظم نے ان سے ہاتھرس سانحہ کے بارے میں بات کرکے ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی تلقین کی لیکن یہی بات وہ خود اپنے ٹوئٹر پر بھی لکھ سکتے تھے لیکن ان سے ایسا نہیں ہوسکا۔ وزیر اعظم نے دلتوں پر ہجومی تشدد کی بابت یہ کہا تھا کہ ’اگر تمہیں کوئی مسئلہ ہے اور تم کسی پر حملہ کرنا چاہتے ہو تو مجھ پر کرو دلت بھائی پر نہیں ‘‘لیکن آشا کے اہل خانہ کی غمخواری کرنے میں وہ چوک گئے۔

اتر پردیش کی بابت بلند بانگ دعویٰ کرنے والے وزیر داخلہ کو اپنی عینک صاف کرکے اخبارات پر بھی ڈال لینی چاہیے۔ ہاتھرس سانحہ کے بعد خواتین پر مظالم کی روک تھام پر بہت کچھ کہا گیا لیکن اس کا اترپردیش میں زمینی حالات پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ سماجوادی پارٹی نے جس دن ہاتھرس کی بیٹی کو یاد کیا اسی دن قریب کے شہر آگرہ میں ایک 6 سال کی بچی کو زیادتی کا نشانہ بننا پڑا۔ اس کے والد رکشا چلاتے ہیں اور والدہ کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دونوں بیٹیو ں گھر پر چھوڑ کر ملازمت کے لیے جانا پڑتا ہے۔ پڑوس میں رہنے والے راہل نام کے درندے نے بچوں کی تنہائی کا فائدہ اٹھا کر معصوم بچی کی آبرو ریزی کردی۔ بجرنگ دل کے لوگ بچی کوپہلے پولس تھانے اور پھر طبی جانچ کے لیے اسپتال لے گئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لڑکی مسلمان یا دلت نہیں تھی ورنہ یہ لوگ آصفہ کی مانند قاتل کو بچانے کے لیے جلوس نکالتے یا زانی کی حمایت میں کود پڑتے ۔ ظالموں کو چونکہ ان کی حمایت و تعاون کا یقین ہوتا ہے اس لیے عصمت دری میں اضافہ کے لیے ایسے لوگ بھی بلاواسطہ ذمہ دار ہیں ۔

اٹاوہ سے اسی دن تیسرے درجہ میں پڑھنے والی ایک 7سالہ لڑکی کے ساتھ زیادتی کی دردناک خبر بھی آ گئی۔ اس طالبہ کو جب اسکول انتظامیہ نے پھل دیئے تو اسے اپنی معذور بہن کا خیال آگیا اور وہ وقفہ کے دوران گھر چلی گئی۔ واپسی پر اسی گاوں کے ایک درندے نے ٹافی کا لالچ دے کر بچی کی عصمت دری کردی ۔ مڈینا گاوں کے اس وحشی کو پولس تلاش کررہی ہے۔ اسی دن ایودھیا ضلع میں جکھولی گاوں کے اندر تالاب سے ایک 7سالہ لڑکی کی لاش ملی جسے ایک ہفتہ قبل اغواء کرلیا گیا تھا ۔ شالو کماری کے والد وریندر کمار راوت نے گمشدگی کی شکایت درج کرائی تھی مگر بدقسمتی سے اسے پلاسٹک کے تھیلے میں اپنی بیٹی کی لاش ملی ۔ یوگی جی نے بڑی آسانی سےضلع فیض آباد کا نام بدل کر ایودھیا رکھ دیا لیکن زمینی صورتحال کو نہیں بدل پائے۔ ’لو جہاد‘ کے نام پر پورے ملک کی فضا خراب کرنے والے وزیر اعلیٰ کو اب ان معصوم بچیوں کی جانب توجہ دینی چاہیے کیونکہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جبکہ اترپردیش سے اس طرح کا رونگٹے کھڑاکرنے والا واقعہ سامنے نہ آتا ہو۔

ہاتھرس کے ظلم جبرکی آگ اب ذات پات کی حدوں سے نکل کر اتر پردیش کے گاوں گاوں میں پھیل چکی ہے مگر افسوس کہ یوگی جی اور بی جے پی کی ساری توجہ انتخابی کامیابی پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے۔ اس جنون کا اثر یہ ہے کہ شاہ جی کو دوربین سے بھی جرائم نظر نہیں آتے جبکہ عوام آئے دن اس کا شکار ہوتے رہتے ہیں ۔ اتر پردیش میں جرائم کی کمی کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ یوگی کو دینے والے امیت شاہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مرکزی وزیر داخلہ کی حیثیت سے قومی سطح پر جرائم کی روک تھام ان کی ذمہ داری ہے۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کورونا کی تباہی اور لاک ڈاون کے با وجودہ سال 2020 میں ملک کے اندر جرائم کے واقعات میں 28 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ معمولی اضافہ نہیں ہے اس کےسبب امیت شاہ کو استعفیٰ دے کر پرچار منتری بن جانا چاہیے۔

وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرنے والے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق سال 2020 میں ہر روز اوسطا 80 قتل ہوتے تھے اور ان کی مجموعی تعداد 29،193 تک پہنچ گئی۔ امیت شاہ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس معاملے میں اترپردیش پہلے نمبر پر ہے۔ 2020 میں عصمت دری کے اوسط 77 واقعات یومیہ تھا اور جملہ 28،046 کیس رپورٹ ہوئے۔ اس معاملے میں بھی یوپی کو راجستھان کے بعد دوسرا مقام حاصل ہے۔ اتر پردیش میں پچھلے سال خواتین کے خلاف جرائم کے 49385 اور تشدد کے 51983 واقعات ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود شاہ جی بڑی ڈھٹائی سے فرماتے ہیں کہ یوگی راج میں کسی کی ہمت نہیں ہے کہ وہ ماں بیٹیوں کو چھیڑ سکے ۔ انسان اگر جھوٹ بولنے پر آجائے تو اس کی زبان کون پکڑ سکتا ہے؟ لیکن یہ جو پبلک ہےنا، پبلک وہ سب جانتی ہے۔ وہ موقع کا انتظار کرتی ہے لیکن اب یہ انتظارکی گھڑیا ں خاتمہ کے قریب ہیں گی اور بعید نہیں کہ پاپ کا یہ گھڑا بہت جلد پھوٹ جائے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224649 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.