بدعنوانی کے خاتمے کا نعرہ بھی پسپا ہوا ۔

اگر موجودہ حکومت کے منشور کو ایک فقرے میں بیان کیا جائے تو کہاجا سکتا ہے کہ "بدعنوانی کی خاتمہ" ۔ بدعنوانی کے خاتمے کا پرچار اور اس پر عمل کی صورتحال شرمساری کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ "Say No to Corruption" کا ڈھنڈورا ایک بے ضمیر آواز بن کر رہ گیا ہے ۔ بدعنوانی کی جو داستانیں آئے دن سامنے آرہی ہیں انتہائی تشویشناک ہیں ۔ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اخلاقی قوت اور باکردار جرات مند قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جس کا ہر سطح پر فقدان ہے ۔

آج ہی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان کا سب سے زیادہ کرپٹ ادارہ پولیس ہے اور اس کے بعد عدلیہ کا نمبر آتا ہے ۔ اس رپورٹ میں یوں تو نو محکموں کے متعلق بتایا گیا ہے مگر پہلے دو کے بارے جاننے کے بعد کسی اور کو جاننے یا کہنے کی ضرورت اور جواز اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں کیونکہ جس ریاست کے اندر پولیس اور عدلیہ کا یہ حال ہو اس میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ کوئی بھی بدعنوانی سے بچا ہوا نہیں ہے ۔ جب جرائم کو پکڑنے والوں اور انصاف دینے والوں کا یہ حال ہو تو کسی اور پر کیسا شکوہ !

اس میں ایک اور بات بہت دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم کا ساتواں نمبر ہے اور این جی اوز کا نواں نمبر ہے اور ان سے پہلے بیوروکریسی والوں کے کمالات کا ذکر ہے اور محکمہ صحت بھی کسی سے کم نہیں ہے ۔

اس رپورٹ کی انڈکس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جس کے پاس جتنا اختیار اور طاقت زیادہ ہے اتنا ہی وہ کرپٹ ہے ۔ پولیس کے پاس سب سے زیادہ اختیارات ہیں تو وہ ان کا استعمال کرتے ہوئے اس دوڑ میں اول ہے اور اس کے بعد قانون کو نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ جرائم پیشہ لوگوں کو کیفرکردار تک پہنچائیں اور مظلوم کی داد رسی کرکے ایک ایسی مثال قائم کریں کہ کوئی جرائم اور بدعنوانی کا سوچے بھی نہیں تو انہوں نے اپنی دوسری پوزیشن حاصل کرلی ۔ اس طرح پھر بیوروکریسی آجاتی ہے جو ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے دیتے ہیں اور ان میں کمیشن اور بد عنوانی بھی کسی سے چھپی نہیں ہے ۔ اختیارات اور طاقت کے مطابق ہر ایک کا حصہ متعین ہے ۔ اور یہ کمیشن کا گھناؤنا فعل یوں سمجھئے کہ ایک غیر تحریر شدہ مصمم اصول بن ہوچکا ہے جس کی کوئی بھی خلاف ورزی نہیں کرسکتا صرف فرق اتنا رہ گیا ہے کہ اس کو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے ۔ ویسے بہتر تھا کہ اس کا تعین کرکے اس کو قانونی تحفظ بھی دے دیا جائے تاکہ کم ازکم اس میں سودے بازی کی پیچیدگیوں سے تو جان چھوٹ جائے ۔ یا شائد ہوسکتا ہے لڑ جھگر کر کم و بیش کرنے کو سنت سمجھ کر رائج کیا ہوا ہو ، ہم اکیسویں صدی کے مسلمان جو ٹھہرے ۔

اسی طرح ریوینو محکمہ بھی اپنے اختیارات کے مطابق پیش پیش ہے ۔ محکمہ تعلیم کے پاس چونکہ بدعنوانی کے خاص اختیارات نہیں ہیں لہذا وہ اس دوڑ میں پیچھے ہے ۔ اسی طرح این جی اوز میں اختیارات کا عمل دخل کم ہے اور زیادہ تر عوام کے ہاتھ میں ہے ، اس کے علاوہ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں بین الاقوامی اداروں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے اس لئے یہ کنٹرول میں ہیں ۔ حالانکہ ان کو بدنام سب سے زیادہ کیا جاتا ہے ۔

اس کے علاوہ بھی کئ محکمے ہیں جن کی معلومات تک رسائی اور ان سے عوام کا براہ راست واسطہ نہیں ہے لہذا وہ اس بدعنوانی کی فہرست میں جگہہ پانے کا شرف حاصل نہیں کر پائے ۔

جیسا کہ ایک بات واضح ہوئی ہے کہ جس کے پاس جتنا اختیار ہے وہ اتنا ہی بدعنوان ہے ۔ اب اس کے علاوہ میں ایک اور بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا کہ یہ سب کے سب تعلیم یافتہ ہیں تب ہی تو یہ ان اعلیٰ بااختیار عہدوں تک پہنچے ہیں ۔ تو اس طرح پتا چلا کہ تقریباً پچانوے فیصد بدعنوان لوگ نام نہاد تعلیم یافتہ ہیں ۔

کہا جاتا ہے کہ تعلیم سے بدعنوانی ختم ہوتی ہے مگر یہاں تو یہ بات بھی غلط ثابت ہورہی ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ ہماری تعلیم کا وہ معیار نہیں ہے جو بدعنوانی کو ختم کرتا ہے بلکہ ہمارا تعلیمی معیار بدعنوانی کو جنم دے رہا ہے اس کو تحفظ مہیا کر رہا ہے ۔ ہماری تعلیم میں وہ عنصر جو بدعنوانی کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے ناپید ہوچکا ہے ۔ وہ ہے کردار سازی اور اخلاقی تربیت جس کی انتہائی بری حالت ہے ۔ بچے کے لئے ماں کی گود پہلی درسگاہ ہوتی ہے اور آجکل وہاں بھی یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ جس کے پاس جتنی دولت زیادہ ہے اتنا ہی وہ بڑا آدمی ہے ۔ اور سکولوں میں بھی اسی مقصد پر کام ہورہا ہے تو پھر اس طرح کی تربیت سے بہتری کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ۔

پھر اس رپورٹ میں پریشان کن بات یہ ہے کہ جن اداروں نے بدعنوانی کو روکنا ہوتا ہے ان کے بارے عوام کا عدم اعتماد اور ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ نیب کی کارکردگی بھی باعث تشویش بتائی گئ ہے ۔ یہ بات اس لئے زیادہ پریشان کن ہے کہ جب برائی کو برائی کہنے والے ہی اس سے منہ پھیرنے لگیں تو اس سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ معاشرے نے بدعنوانی کو قبول کرلیا ہے اور وہ بدعنوانی کو اب شائد برا بھی نہیں سمجھتا اور جب اکثریت اس طرح کی ہوجائے گی تو پھر اچھی بات کرنے والے تو دیوانے ہی لگیں گے ۔ اسی لئے میں نے دیکھا ہے کہ کئ لوگوں کے سامنے جب Honesty is the best policy بولا جائے تو کہتے ہین چھوڑیں جی یہ پرانی باتیں ہیں ۔ آج تو جس کے پاس جتنے وسائل ہیں اتنا ہی وہ سمارٹ اور ذہین سمجھا جاتا ہے ۔ اب اس سوچ کے پروان چڑھنے کے بعد جب آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہو تو پھر کوئی بد عنوانی کا مرتکب ہوکر شرمندگی کیا کرے گا وہ تو تفخرانہ انداز میں اپنی بدعنوانی سے حاصل کردہ مال و دولت کی نمائش کرتا پھرتا ہے اور ایماندار لوگ انہیں محکموں کے اندر کسی کونے میں لگے بیٹھے ہیں ۔ آپ پولیس سے لے کر عدلیہ تک ہر جگہ اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔

بدعنوانی یہ نہیں کہ آپ رشوت نہیں لیتے بلکہ یہ بھی بدعنوانی ہے کہ آپ کے محکمے کی سب سے زیادہ تنخواہیں ہیں اور آپ کی کارکردگی سب سے زیادہ خراب ہے ۔ آپ کا کام بدعنوان لوگوں کو پکڑنا ہے اور آپ صاحب ایمان کو ذلیل و رسوا کررہے ہیں ۔ آپ کا کام انصاف دینا ہے اور آپ سیاست کر رہے ہیں ۔ بدعنوانی یہ ہے کہ آپ کو جو ذمہ داری دی گئی ہے اس کو صحیح نبھا نہیں رہے اور اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کسی غلط آدمی کو فائدہ دے رہے ہیں یا جہاں اخیتارات کا استعمال کرنا چاہیے وہاں سے اجتناب کر رہے ہیں ۔

خیر یہ تو وہ حقائق ہیں جن سے ہم سب پہلے بھی واقف تھے اور عوام کی واقفیت کی بنیاد پر ہی یہ رپورٹس بھی تیار کی جاتی ہیں کیونکہ اصل آپ بیتیاں تو بدعنوانی کا شکار بے چارے عوام ہی ہوتے ہیں ۔

لکھنے کا اصل مقصد حقائق کو بیان کرنا نہیں بلکہ وجوہات اور ان مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوتا ہے ۔ جیسا کہ میں نے ساتھ ساتھ چند وجوہات کی طرف اشارہ کیا کہ تعلیم کا گرتا ہوا معیار اور اختیارات کا استعمال ہے تو اختیارات کا غلط استعمال بھی اس وقت ہی ہوتا ہے جب اختیارات کے غلط استعمال کرنے والے کی غلط سوچ پس پردہ کام کر رہی ہوتی ہے جس نے اس کو میسر تربیت اور ماحول میں پروان چڑھا ہوا ہوتا ہے ۔

اسی طرح جب اس پر قابو پانے کے لئے سفارشات کی بات کی جاتی ہے تو تعلیم ، جس کا میں نے پہے ذکر کیا ، کے بعد کہا جاتا ہے تنخواہوں کو بڑھانا چاہیے ۔ تو اب اس رپورٹ کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ تنخواہین پولیس اور عدلیہ کے محکموں کے اندر ہیں ۔ تو معلوم ہوا کہ انسان کی اخلاقی تعلیم و تربیت کے بغیر محض اس کو مراعات دے دینے سے بھی بدعنوانی پر قابو نہیں پایا جاسکتا ۔

ایک آخری بات کرکے موضوع کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ہمارے ملک کے اندر بھی ایسے ادارے ہیں جن میں بدعنوانی نہیں ہے مثلاً موٹروے پولیس میں بدعنوانی نہیں ہے ۔ میں نے کئی ایسے فورمز پر سوالات اٹھائے کہ ایسا کیوں ہے مگر تسلی بخش جوابات نہیں مل سکے ۔

جواب ملتا ہے کہ چونکہ ان کی تنخواہیں زیادہ ہیں اسی لئے ان کو بدعنوانی کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ لیکن درحقیقت بات اس طرح نہیں ہے ۔

ہوا یوں کہ جب موٹر وے پولیس کا آغاز ہوا تو دوسری پولیس میں کام کرنے والوں کو یہ چوائس دی گئی تھی اگر آپ موٹر وے پولیس میں جانا چاہیں تو آپ کو عہدہ میں ایک درجہ اوپر دیا جائے گا اور ساتھ مراعات بھی دی جائیں گی تو اس وقت پولیس میں جو لوگ اس لٹ مار کے بازار سے تنگ آئے ہوئے تھے اور وہ کسی کونے میں لگے اپنا وقت پورا کر رہے تھے ، ان کو اختیارات اور ان کے استعمال سے کوئی غرض نہیں تھی وہ اپنی ذمہ داریوں کے بدلے حلال تنخواہ کے متلاشی تھے ۔ جب ان کو یہ موقعہ ملا کہ ایک درجہ ترقی بھی مل رہی ہے اور تنخواہیں بھی اچھی ہیں تو انہوں نے فوراً اس آفر کو قبول کرلیا ۔ اور اس طرح وہاں پر اچھی سوچ اور اچھا کردار رکھنے والے لوگوں نے ایک مثالی ماحول پیدا کردیا ۔ تو بعد میں آنے والے بھی اس ماحول میں ایڈجسٹ ہوتے چلے گئے ۔

اب تک کی گفتگو سے نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ بدعنوانی ختم کرنے کے لئے کڑے احتساب کے ساتھ ساتھ اچھے کردار ، اخلاق اور تربیت کی بھی ضرورت ہے ۔ کڑا احتساب بھی تو تب ہی ہوگا جب ہمیں اچھی سوچ ، کردار اور اخلاق والے لوگ میسر ہونگے ۔ وگرنہ اسی طرح نمود و نمائش والے نام نہاد تعلیم یافتہ بااختیار لوگ اپنے ماتھوں پر بدعنوانی کا یہ خوشنما دھبہ سجا کر قوم و ملک کی بدنامی کا سب بنتے رہیں گے ۔
 

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114937 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More