باسکٹ بال

پہلی مرتبہ کھیل کے لیے آڑو کی ٹوکری کا استعمال کیا گیا
1891میں امریکا سے شروع ہونے والاباسکٹ بال کا کھیل، 1900میں کراچی اور لاہور میں مقبول ہوا
امریکا میں 1946ء میں دوسری جنگ عظیم کے زخمی فوجیوں کے درمیان پہلی مرتبہ وہیل چیئر باسکٹ بال میچ کا انقعاد ہوا

پہلی مرتبہ کھیل کے لیے آڑو کی ٹوکری کا استعمال کیا گیا
1891میں امریکا سے شروع ہونے والاباسکٹ بال کا کھیل، 1900میں کراچی اور لاہور میں مقبول ہوا
امریکا میں 1946ء میں دوسری جنگ عظیم کے زخمی فوجیوں کے درمیان پہلی مرتبہ وہیل چیئر باسکٹ بال میچ کا انقعاد ہوا

باسکٹ بال، فٹ بال اور والی بال کی طرز کا کھیل ہے جو فٹ بال جیسی گیند کی مدد سے کھیلا جاتا ہے لیکن یہ مذکورہ کھیلوں کی طرح کھلے میدانوں میں نہیں کھیلا جاتا بلکہ یہ انڈور اور آئوٹ ڈور گیم ہے جو 94فٹ طویل او50فٹ چوڑے مستطیل کورٹ میں کھیلا جاتا ہے۔ جس کے دونوں سرے پر زمین سے10فٹ کی بلندی پر 10انچ کے قطر اور 18انچ کی گہرائی والی دو جالی دار باسکٹیں ایک بڑے ہک میں لٹکی ہوتی ہیں جن کے اندر کھلاڑیوں کواچھل کود کرتے ہوئے گیند ڈالنا پڑتی ہے جس پر انہیں پوائنٹس ملتے ہیں۔یہ کھیل دو ہاف پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر ہاف کا دورانیہ 20منٹ کا ہوتا ہے۔ ہر ٹیم پانچ کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے ، جس کے ساتھ کوچ، اسسٹنٹ کوچ، منیجر، ڈاکٹر اور ٹرینرز ٹیم کا حصہ ہوتے ہیں، جو کورٹ سے باہر بیٹھ کر اپنے فرائض کی انجام دہی کرتے ہیں۔ میچ آفیشلز میں دو ایمپائر، ریفری، ٹائم کیپر اور اسکورر ہوتے ہیں۔اس کھیل کے طویل قامت اور توانا کھلاڑ ی کو فارورڈ کے طور پر کھلایا جاتا ہے جب کہ مختصر قامت اور پھرتیلے کھلاڑی کو ’’ اسمال فارورڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔میچ کا فیصلہ پوائنٹس کی بنیاد پر ہوتا ہے جس ٹیم کے پوائنٹ زیادہ ہوتے ہیں وہی فاتح قرار پاتی ہے، لیکن اگر میچ کا وقت ختم ہونے تک دونوں ٹیموں کے پوائنٹس برابر رہیں تو پانچ منٹ کا فاضل وقت دیا جاتا ہے۔

1891ء میں اسے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر جیمس نائے اسمتھ نے جو انٹرنیشنل ینگ مینز کرسچن ایسوسی ایشن ٹریننگ اسکول میاچوسٹس (جو اب اسپرنگ فیلڈ کالج ہے) فزیکل انسٹرکٹر تھے، ایجاد کیا تھا۔ انہیں اپنے طلباء کی فٹنس اور جمنازیم کی تربیت کے لیے برسات اور موسم سرما میں برف باری کے دوران مشکلات کا سامنا رہتا تھا اور ان کی کوشش تھی کہ ان کے اسکول میں جمنازیم کی کلاسز خراب موسمی حالات میں بھی جاری رہیں۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے ایسے انڈور گیم کے بارے میں غوروخوض شروع کیا جو ’’نیو انگلینڈ‘‘ میں پڑنے والی سردیوں کے طویل موسم میں بھی کھیلا جاسکے اور جسے کھیل کر ان کے لڑکے چاق و چوبند اور توانا رہ سکیں۔ اس دوران ان کے ذہن میں کئی کھیلوں کے خاکے ابھرے لیکن انہیں فٹ بال کی طرز کا کھیل پسند آیا جو چھت کے نیچے کھیلا جاسکتا تھا۔ انہوں نے آڑو کی ٹوکری کو10فٹ کی بلندی پر لٹکا کر اس میں دوڑتے ہوئے فٹ بال کی گیند ڈالنے کا تجربہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے25فٹ طویل اور 20فٹ کشادہ کمرے کے دونوں سروں پر مذکورہ باسکٹیں لٹکانے کے بعد پانچ پانچ کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیں بنائیں اور اسے کھیلنے کیلئے 20سے22اونس وزنی گیند کا استعمال کیا گیا۔ ایک سال تک یہ کھیل بے نام رہا۔ 1892ء میں کرسمس کی چھٹیوں کے دوران ان کا ایک شاگرد فرینک ماہن ان سے ملاقات کے لیے آیا۔ دوران گفتگو اس نے نائے اسمتھ سے کہا کہ آپ نے ایک منفرد کھیل تو ایجاد کرلیا ہے لیکن کیا آپ نے اس کا نام بھی طے کیا ہے؟ نائے اسمتھ نے جواب دیا کہ ابھی انہوں نے اس بارے میںنہیں سوچا ہے کیونکہ فی الوقت ان کی توجہ باقاعدہ طور سے اسے ایسےکھیل کی شکل دینے پر مرکوز ہے جسے دنیا بھرمیں پسند کیا جائے۔ ماہن نے اس موقع پر انہیں تجویز پیش کی کہ اس کھیل نام اپنے نام کی نسبت سے ’’نائے اسمتھ بال‘‘ رکھ دیں۔ نائے اسمتھ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ تمہارے تجویز کئے ہوئے نام سے تو یہ کھیل اپنی موت آپ مر جائے گا۔ اس پر ماہن نے کہا کہ آڑو کی باسکٹ کی مناسبت سے اس کھیل کو’’ باسکٹ بال ‘‘کیوں نہ کہا جائے؟ نائے اسمتھ نے اس نام کو پسند کیا اور کہا کہ کیونکہ اس کھیل میں باسکٹ اور گیند کا استعمال کیا جاتا ہے، اس لئے ’’باسکٹ بال‘‘ اچھا نام ہے۔ نائے اسمتھ نے کھیل کے قواعد و ضوابط مرتب کئے جس کے بعد جنوری 1892ء میں وائی ایم سی اے جمنازیم البانی نیویارک میں سرکاری سطح پر اس کا پہلا مقابلہ منعقد ہوا جس میں9کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیموں نے حصہ لیا۔ اس میچ کا اختتام 1-0 پوائنٹس پر ہوا۔ باسکٹ بال کے پہلے میچ کی یادگار اسپرنگ کالج کے باہر مجسمے کی صورت میں نصب ہے جب کہ کالج کے اندر’’نئے اسمتھ میموریل باسکٹ بال ہال آف فیم ‘‘ بھی قائم کیا گیا ہے جس میں کھیل میں نمایاں کارنامے انجام دینے والے کھلاڑیوں کے نام آویزاں کیے جاتے ہیں۔کھیل کا حتمی شاٹ 25فٹ کے فاصلے سے مارا گیا جو سیدھا ٹوکری میں جاکر گرا۔ اس زمانے میں جو فٹ بال کھیلی جاتی تھی، اس میں ایک ٹیم10فٹ بالرز پر مشتمل ہوتی تھی جب کہ آج کل یہ تعداد 11کھلاڑیوں کی ہے۔ سردیوں کے موسم میں جب برف باری ہوتی تھی، فٹ بال کھیلنا دشوار ہوجاتا تھا تو فٹ بالر کسی بڑے ہال میں باسکٹیں لگا کر پانچ پانچ کھلاڑیوں کی ٹیمیں بنا کر باسکٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ 1897-98ء تک باسکٹ بال میں ایک ٹیم میں کھلاڑیوں کی تعداد پانچ رہی۔

1906ء میں اس میں جدت کی گئی اور آڑو کی ٹوکری کی جگہ دھات کے گھیرے نے لے لی جس میں ڈوریوں سے جال بنا کر ٹوکری کی صورت میں بنایا گیا تھا لیکن ٹوکری کا پیندا بند ہوتا تھا، جس کی وجہ سے شوٹر کی جانب سے گیند باسکٹ میں ڈال کر پوائنٹ حاصل کرنے کے بعد میچ جاری رکھنے کے لیے گیند کی ضرورت ہوتی تھی، جسے نکالنے کے لیے چھڑی کا استعمال کیا جاتا تھا، اس عمل کے دوران کھیل روک کر ٹائم آؤٹ لیا جاتا تھا۔ نئی باسکٹ میں پیندے کو نکال دیا گیا ہے گیند باسکٹ میں جانے کے بعد خلاء سے نیچے گرتی ہے۔مذکورہ باسکٹ پلےائنگ کورٹ کی بالکنی کے چھجے سے میخوں کے ساتھ جڑی ہوتی تھی لیکن بالکنی میں بیٹھے تماشائی کھلاڑیوں کی جانب سے گیند کوجال میں پھینکنے کے دوران مداخلت کرتے تھے اور ہاتھ مار کرگیند کو باسکٹ میں جانے سے روک دیتے تھے جس کی وجہ سے مذکورہ ٹیم کا ایک پوائنٹ ضائع ہوجاتا تھا۔ اس عمل کے تدارک کے لیے باسکٹ کے چھجے کے پیچھے ایک تختہ لگایا جانے لگا جس کی وجہ سے نہ صرف تماشائیوں کی مداخلت کی روک تھام ہوسکی۔ اب کھلاڑیوں کی جانب سے پھینکی جانے والی گیند تختے سے ٹکرا کر ’’ری بائونڈ‘‘ ہوکر باسکٹ میں گرتی ہے۔اس کھیل میں ایک ٹیم کے کھلاڑی بال ہینڈلنگ، شوٹنگ، پاسنگ اور ڈنکنگ کرتے ہوئے مخالف ٹیم کے ہاف میں داخل ہوکر اس کے جال کی جانب جاتے ہیں۔ اس دوران دفاعی کھلاڑی ان سے گیند چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک کھلاڑی کو گیند ہاتھ میں رکھنے کیلئے پانچ سیکنڈ کا وقت دیا جاتا ہے اس کے بعد یہ فائول قرار پاتا ہے۔میچ کے دوران گیند کو باؤنسنگ کے وقت کک مارنے، دفاعی کھلاڑی کی جانب سے حملہ آور ٹیم کے کھلاڑی کو دھکا دینے کی ممانعت ہوتی ہے اور کھیل کے پواعد و ضوابط کے مطابق اس عمل کو فاؤل قرار دیا جاتا ہے۔پانچ مرتبہ مسلسل فاؤل کرنے والے کھلاڑی کو میچ سے باہر کرکے اس کی جگہ دوسرے کھلاڑی کو باقی میچ میں شامل کیا جاتا ہے۔

1932ء میں8ممالک پر مشتمل ویمنز انٹرنیشنل باسکٹ بال فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ ان ممالک میں ارجنٹائن، چیکوسلواکیہ، یونان، اٹلی، لٹویا، پرتگال، رومانیہ اور سوئٹزرلینڈ شامل تھے۔ مینز باسکٹ بال کو پہلی مرتبہ 1936ء میں برلن میں منعقد ہونے والے سمر اولمپک میں شامل کیا گیا حالانکہ اس سلسلے کے ایک نمائشی میچ کا انعقاد 1904ء میں ہوچکا تھا۔ اولمپک مقابلوں میں زیادہ تر امریکا کی حکمرانی قائم رہی۔ 1972ء میں امریکا اور روس کے درمیان فائنل مقابلہ اتنا متنازع رہا کہ تین مرتبہ اس کا فائنل میچ کھیلا گیا ۔حتمی مقابلے میں روس ،امریکا کو شکست دے کراولمپک چیمپئن بنا۔

باسکٹ بال کا کھیل جو1892 میں امریکا میں شروع ہوا تھا، امریکی فوجیوں کی بر صغیر میں آمد کے بعدبرصغیر میں متعارف ہوا اور جلد ہی یہ کراچی اور لاہور میں مقبول ہوگیا ۔ امریکی کھلاڑیوں نےکراچی ایمیچر باسکٹ بال ایسوسی ایشن قائم کی اوراس کے زیراہتمام باسکٹ بال کے مقابلوں کا انعقاد ہونے لگا۔ 1906ء میں کراچی اور لاہور کے بعد یہ کھیل گورڈن کالج راولپنڈی میں بھی مقبولیت اختیار کرگیا۔ وائی ایم سی اے کراچی کی باسکٹ بال کورٹ میں 1910ء میں پہلی آل انڈیا باسکٹ بال چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا جو 1930ء تک ہر سال باقاعدگی منعقد ہوتی رہی۔ 1920ء میں اس نے یونیورسٹی کی سطح پر باقاعدہ کھیل کا درجہ حاصل کرلیا۔ 1930ء میں پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن نے اسے اولمپک مقابلوں میں شامل کرلیا اور 1934ء میں پہلی مرتبہ اس کھیل کو دہلی اولمپکس گیمز میں متعارف کرایا گیا۔ 1936ء میں باسکٹ بال کے کھیل انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے شامل کرلیا اور اسے برلن میں منعقد ہونے والی عالمی اولمپک چیمپئن شپ میں شامل کیا گیا۔ فروری 1952ء میں پاکستان ایمیچر باسکٹ بال فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1953ء میں اس کا الحاق انٹرنیشنل باسکٹ بال فیڈریشن سے ہوگیا۔ اس وقت پاکستان سمیت دنیا کی100باسکٹ بال ایسوسی ایشنز انٹرنیشنل باسکٹ بال فیڈریشن کی اراکین ہیں۔ فیبا باسکٹ بال ورلڈ کپ اور مینز اولمپک باسکٹ بال ٹورنامنٹ اس کھیل کے بڑے ٹورنامنٹس ہیں جن میں دنیا بھر کی قومی سطح کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں جبکہ امریکا کی نیشنل باسکٹ بال ایسوسی ایشن کے زیراہتمام پروفیشنل نیشنل لیگ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس میں کوالیفائی کرنے والی امریکا کی ٹیمیں کائونٹی نیشنل چیمپئن شپ کے مقابلوں میں شرکت کرتی ہیں جن میں یورو لیگ اور فیبا امریکا قابل ذکر ہیں۔

1950ء میں مینز باسکٹ بال کی پہلی فیبا ورلڈ چیمپئن شپ ارجنٹائن میں کچھ عرصے بعد اس کا نام تبدیل کرکے فیبا باسکٹ بال ورلڈ کپ رکھ دیا گیا۔ 1953ء میں خواتین باسکٹ بال کی فیبا ورلڈ چیمپئن شپ کا چلی میں انعقاد ہوا۔ 1976ء میں خواتین باسکٹ بال کو مونٹریال، کیوبک کینیڈا میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں ویمن باسکٹ بال کو بھی شامل کیا گیا جس میں روس، آسٹریلیا، برازیل اور امریکا کی ٹیموں کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔

2000ء کی دہائی کے اوائل تک اس کھیل پر امریکا کی حکمرانی قائم رہی لیکن 2004ء میں ایتھنز اولمپکس میں گروپ گیمز میں اسےدو مرتبہ بھاری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی مرتبہ پورٹوریکو اور لتھوانیا جب کہ سیمی میں ارجنٹائن کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2008ء اور 2016ء کے اولمپکس گیمز میں اس نے طلائی تمغہ حاصل کیا جبکہ 2008ء سے لے کر 2014ء تک اس نے فیبا ورلڈ چیمپئن شپ اور فیبا ورلڈ کپ جیتا۔

خواتین کی باسکٹ بال ٹیمیں مردوں کی باسکٹ بال ٹیم سے علیحدہ ہیں۔ خواتین ایسوسی ایشنز کی جانب سے فیبا ویمن باسکٹ بال ورلڈ کپ اور ویمنز اولمپک باسکٹ بال ٹورنامنٹس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ویمنز باسکٹ بال کا آغاز 1892ء میں اسمتھ کالج کی فزیکل ایجوکیشن سینڈا برینن نے کیا۔ کھیل کے مزید اسرارورموز سیکھنے کے لیے اس نے نائے اسمتھ کی خدمات حاصل کیں جس کے لیے اسے نائے اسمتھ کے کوچنگ سینٹر جانا پڑا۔ اسی سال پہلے انٹرکالجیٹ باسکٹ بال مقابلے کا انعقاد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور ’’مس ہیڈز اسکول ‘‘کے درمیان ہوا۔ مارچ 1893ء میں پہلے کالجیٹ باسکٹ بال گیم کا انعقاد کیا گیا۔ 1895ء تک ویمنز باسکٹ بال کا کھیل تمام ممالک میں مقبول ہوگیا۔ 1924ء میں انٹرنیشنل ویمنز اسپورٹس فیڈریشن کے زیراہتمام خواتین باسکٹ بال کے مقابلے منعقد ہوئے۔ 1925ء میں ہائی اسکول اور یونیورسٹی کی سطح پر خواتین باسکٹ بال کے 37/مقابلوں کا انعقاد ہوا اور 1926ء میں امریکا کی ایمیچر ایتھلیٹک یونین نے پہلی قومی باسکٹ بال کے چیمپئن شپ میں باسکٹ بال ایسوسی ایشن کی معاونت کی۔ایک عشرے کے مختصر سے عرصے میں ویمن باسکٹ بال کی مقبولیت ساری دنیا میں ہوگئی۔۔ 1924ء، 1928ء، 1932ء اور 1936ء کے اولمپکس ٹورنامنٹس میں خواتین باسکٹ بال ٹیموں کو صرف نمائشی مقابلوں میں شرکت کا موقع فراہم کیا۔ 1970ء میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے اسےخواتین کے کھیل کے طور پر تسلیم کرلیا اور 1976ء کے اولمپک گیمز میں اسے شامل کیا گیا جبکہ مردوں کی باسکٹ بال ٹیم کو 1936ء میں اولمپکس گیمز میں شامل کیا گیا تھا۔ 1976ء سے 2016ء تک ویمنز ٹیمیں11اولمپک مقابلوں میں شرکت کرچکی ہیں جن میں سے ابتدائی دو مقابلے روس جب کہ9اولمپک چیمپئن شپس امریکا نے جیتی ہیں۔

وہیل چیئر باسکٹ بال
یہ کھیل معذور افراد کے لیے ایجاد کیا گیا ، جسےوہیل چیئر پر بیٹھ کر کھیلا جاتا ہے\\1944میں بکنگھم ثائر، انگلستان میں ایلسبری کے قصبے میں اسٹاک مینڈویلی اسپتال میں معذوروں کی بحالی کے شعبے کے نگراں، لوڈوگ گٹمن نے پہلی مرتبہ وہیل چیئر نیٹ بال کا کھیل متعارف کرایا۔ 1946میں دوسری جنگ عظیم کے دوران زخمی ہونے والے فوجیوں کو باسکٹ بال کھیلنے کی تربیت دی گئی اور پہلی مرتبہ شگاگو میں ہیل چئیر باسکٹ بال مقابلے کا اہتمام کیا گیا۔ یہ کھیل امریکا کے معذور شہریوں میں خاصا اقبول ہوا۔ 1949میں الی نوائس یونیورسٹی کی ڈاکٹر ٹموتھی نوگینٹ نے نیشنل وہیل چیئر باسکٹ بال کے نام سے ایک اسپورٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ 1973میں انٹرنیشنل اسٹوک میڈویلی گیمز فیڈریشن نے وہیل چیئر باسکٹ بال کی ذیل تنظیم قائم کی جسے 1989ء میں اس کا نام انٹرنیشنل باسکٹ بال فیڈریشن قرارپایا۔1973میں بلجیم میں وہیل چیئر باکسکٹ بال کے پہلے ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا جس یں برنیہ نے فتح حاصل کی۔ اب تک معذوروں کے اس کھیل کے 11عالمی ٹورنامنٹس منعقد ہوچکے ہیں جن میں 6امریکااور ایک ایک ٹورنامنٹ اسرائیل، فرانس، کینیڈا اور آسٹریلیا نے جیتے ہیں۔ اس کھیل کو انٹرنیشنل پیرالمپک کمیٹی نے اولمپک گیمز میں بھی شامل کیا ہے جب کہ فیبا نے بھی اس کی منظور دی ہے۔ انٹرنیشنل باسکٹ بال فیڈریشن میں 82 مملک شامل ہیں جب کہ ہر سال اس کے ارکان کی تعدا د میں اضافہ ہورہا ہے۔اس کھیل کے قواعد و ضوابط مینز اور ویمنز کی طرح ہی ہوتے ہیں لیکن اس میں کرسی کی پوزیشن کو اہایت دی گئی ہے۔ یہ چیئر چار یا تین پہیوں کی ہونا چیائے جس میں اسٹئرنگ، سیاہ ٹائر اور بریک کا استعمال ممنوع ہوتا ہے۔


 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 192427 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.